پنجاب حکومت کی جانب سے طلبہ کو مفت تعلیم،
مفت کتابیں، وردیاں، وظیفے اور پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب کے دعوے روزانہ
اخباروں سمیت سوشل میڈیا کے علاوہ مختلف ٹی وی چینلز پر دیکھنے اور سننے کو
ملتے ہیں۔
حکومتی یہ دعوے مفت کتابوں، وردیوں اور طلبہ کو وظیفے دینے تک تو نظر آتے
ہیں لیکن جن اداروں میں طلبہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر وظیفے حاصل کرنے
کے قابل ہوتے ہیں ان سرکاری ادروں میں اکثر سکولوں کی عمارتیں کئی سالوں سے
خستہ حال ہیں۔
ان خستہ حال عمارتوں پر روزانہ پڑھنے اور پڑھانے والوں کے علاوہ علاقہ
مکینوں کی نظریں تو پڑتی ہیں تاہم محکمہ ایجوکیشن کے اعلیٰ افسران سکولوں
کی خستہ حالی سے بے خبر دکھائی دیتے ہیں۔
ایسا ہی ایک گورنمنٹ ہائر سکیڈری سکول اوکاڑہ کی تحصیل رینالہ خورد سے
تقریباً چھ کلومیٹر کے فاصلے پر اخترآباد میں موجود ہے، جو گزشتہ کئی سالوں
سے چار دیواری کے علاوہ نئی عمارت کا منتظر ہے۔
گورنمنٹ بوائز ہائر سکینڈری سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد عثمان حمید نے سجاگ کو
بتایا کہ سکول کا قیام 76 سال قبل سنہ 1940ء میں بطور پرائمری سکول عمل میں
آیا، سنہ 1956ء میں سکول کو مڈل، 1986ء میں ہائی اور سنہ 2004ء میں ہائر
سکینڈری کا درجہ دے دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ سکول کا رقبہ 34 کنال پر مشتمل ہے، سکول میں زیر تعلیم
طلبہ کی تعداد ایک ہزار 126 اور طلبہ کو زیور تعلیم سے آرستہ کرنے والے
اساتذہ کی تعداد 47 ہے۔
سکول ہیڈ ماسٹر کے مطابق گاؤں کی سڑکیں اور رہائشی علاقہ موجودہ سکول کی
زمین سے تقریباً پانچ فٹ اونچا ہو چکا ہے جس وجہ سے سڑکوں میں کھڑا ہونے
والا سیوریج کے پانی سمیت پارش کا پانی سکول میں داخل ہو جاتا ہے جس کے
باعث سکول کی دیواریں متاثر ہو کر کئی بار گر چکی ہیں۔
"سکول سے پانی ختم کرنے کے لیے کئی کئی دن پمپ چلانا پڑتا ہے جس سے سکول کی
عمارت اور چار دیواری کے نقصان سمیت طلبہ کی پڑھائی بھی متاثر ہوتی ہے۔"
چار دیواری سمیت دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کے حوالے سے ماہانہ رپورٹ میں
لکھ کر بیجھا جاتا ہے تاہم سکول کی بہتری کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
انہوں نے بتایا کہ سکول کے گراؤنڈ کی تین اطراف سے دیواریں تقریباً چھ سال
قبل خستہ حال ہو کر گر چکی ہیں۔
عثمان حمید بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال آٹھ دسمبر سنہ 2015ء کو سکول کی چار
دیواری، پانچ نئے کلاس رومز اور پانچ واش رومز بنانے کے لیے 45 لاکھ 86
ہزار روپے کے ٹینڈرز ہوئے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر آج تک کام شروع
نہیں ہو سکا۔
ان کے مطابق سکول کی دیواریں خستہ حال ہونے سے ذاتی خرچ سے کئی بار مرمت
کروائی جا چکی ہیں۔
"سکول کی چار دیواری اور طلبہ کے لیے کلاس رومز کے حوالے سے ای ڈی او
ایجوکیشن کو کئی بار آگاہ کیا گیا ہے۔"
مزید بتایا کہ طلبہ کو کمروں کی ضرورت ہے، کمروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے
طلبہ سردی کے موسم میں باہر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
ہیڈ ماسٹر کے مطابق سکول کے پرائمری حصے کے لیے پانچ نئے کلاس رومز، روش
رومز اور امتحانی ہال کی اشد ضرورت ہے۔
"چار دیواری سمیت دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کے حوالے سے ماہانہ رپورٹ
میں لکھ کر بیجھا جاتا ہے تاہم سکول کی بہتری کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا
رہی۔"
شام کے وقت سکول کے گراؤنڈ میں کھیلنے کے لیے آنے والے مقامی علاقہ مکین
محمد انور نے بتایا کہ جب سے دیواریں گری ہیں، سکول کاگراؤنڈ موٹرسائیکل
رکشوں سمیت ریڑھیوں کی گزر گاہ بن چکا ہے۔
"گراؤنڈ میں رکشے یا ریڑھیوں کو داخل ہونے سے روکنے پر لڑکوں کے لڑائی
جھگڑے معمول بن گئے ہیں۔"
یونین کونسل 60 اختر آباد سے منتخب ہونے والے چیئرمین محمد امجد خان کہتے
ہیں کہ سکول گاؤں کی سطح سے اب نیچے ہو گیا ہے جس وجہ سے اکثر سیوریج اور
بارش کا پانی سکول میں جمع ہو جاتا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ سکول کے ساتھ بننے والی سڑک کو اونچا نہیں بنانا چاہیئے
جس وجہ سے سکول کے لیے مسائل بڑھنے کا خدشہ ہے۔
"سکول ہمارا سرمایہ ہے،بہت جلد علاقے کے سیوریج اور سکول کی بہتری کے لیے
ڈی سی او، کمشنر سمیت اعلیٰ عہدے داروں سے بات کروں گا۔"
ای ڈی او ایجوکیشن ناہیدہ واصف سے جب ہائر سکینڈری سکول کی حالت زار بارے
بات کی گئی تو انہوں نے سکول کی حالت سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
جب ان سے گزشتہ سال ہونے والے ٹینڈرز کی بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ
ڈی او بلڈنگز نے سکول کی عمارت کا کام کروانا تھا، گزشتہ سال کوئی بھی ڈی
او بلڈنگز مستقل تعینات نہ رہا اس لیے سکول کا کام نہیں ہو سکا۔
ناہیدہ واصف کا کہنا تھا کہ رواں سال میں ہونے والے ٹینڈرز میں سکول کے
تمام مسائل حل کر دیئے جائیں گے۔
|