ایجنٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے مگر یہ دنیا
کی اکثر زبانوں میں اس قدر بولا جاتا ہے کہ گویا ہر زبان کا لفظ ہو ۔اس کی
وجہ شاید صرف یہ ہے کہ اس لفظ کو ہر شخص بلا کم و کاست اپنے دشمن کے لئے
استعمال کرتا ہے ۔دنیا میں جتنے بھی انسان رہتے ہیں ان کے ارد گرد صرف ان
کے دوست ہی نہیں بستے ہیں بلکہ وہ دشمنوں کی عداوت کو بھی سہتے ہوئے
’’منزلِ حیات‘‘طے کر لیتے ہیں ۔ آدم ؑکی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے وجود میں
مختلف اور متضاد خصائل و صفات کو تخلیق کیا گیا یہی وجہ ہے کہ اس میں جہاں
بے پناہ رفاقت پائی جاتی ہے وہی یہ عداوت میں بھی بے مثال دکھائی دیتا ہے
۔عالمِ رنگ و بو میں دشمنی کی ایک وجہ جہاں ’’عقائد کا اختلاف ‘‘نظر آتا ہے
وہی ’’فکری اختلافات ‘‘کے علاوہ متضاد میعارات بھی اس کی اہم اور بنیادی
وجہ نظر آتی ہے ۔نفرتوں اور عداوتوں کے آگ میں جھلس رہی دنیا میں سب سے
زیادہ نقصان ’’انسانی قدروں‘‘کو پہنچا ہے ۔ہزاروں برسوں سے اس دنیا میں جی
رہے انسان پہلے بھی ایک دوسرے سے لڑتے تھے اور سلسلہ اس آخری انسان تک قائم
رہے گا جس کے مر نے سے پہلے قیامت کا آغاز ہو گا ۔معروف مذاہب کے بیچ یہ
سلسلہ بہت قدیم ہے مگر اب ’’ہر مذہب،فکر اور تحریک کے درمیان‘‘بھی نفرتوں
کا وہ لاوا پھوٹ پڑا ہے کہ دشمنی اور عداوات کے الفاظ اس کے سامنے بالکل
چھوٹے بلکہ حقیر نظر آتے ہیں ۔
ہمارا موضوع بین المذاہب عداوت اور دشمنی نہیں ہے بلکہ وہ نفرت ہے جو بین
المسلمین اب اپنی آخری حدود کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے اور ہم ایک دوسرے کو
زیر کرنے کے لئے اس قدر بیتاب بلکہ بے باک ہوچکے ہیں کہ اپنے ہر
مسلکی،تنظیمی یا فکری مخالف کو بلاغوروفکر ’’دشمن کا ایجنٹ‘‘قرار دیتے ہیں
۔اہل اسلام دو بڑے مسالک ’’شیعہ اور سنی‘‘میں سینکڑوں برسوں سے منقسم ہیں
مگر شام،عراق اور یمن کی ہلاکت خیز جنگوں کے بعد خلیج اس قدر بڑھ چکی ہے کہ
ہر شیعہ سنی کو اور ہر سنی شیعہ کو یہودیوں،عیسائیوں یا کم سے کم اسرائیل
،امریکہ اور روس کا ایجنٹ قراردیتا ہے ۔عجیب معاملہ یہ کہ عالم اسلام میں
مذہبی حلقے کے ساتھ لبرل اور سیکولر کلاس کی بڑھتی دشمنی میں بھی دونوں
طبقات ایک دوسرے پر یہی الزام عائد کرتے ہیں ۔مزے کی بات یہ کہ ’’شیعہ اور
سنی مذہبی و لبرل ‘‘حضرات اس مسئلے میں ایک دوسرے کے بہت قریب نظر آتے ہیں
جس طرح سنی مذہبی اور لبرل طبقہ ایک دوسرے پر ’’دشمن کے ایجنٹ‘‘فتویٰ صادر
کرتا ہے بالکل اسی طرح شیعہ مذہبی اور لبرل طبقات اس ’’نیکی ‘‘میں کسی
’’سنی ملا یا مسٹر‘‘سے پیچھے نہیں ہیں ۔دور نہ جائے سیدھے اپنی سرزمین جموں
و کشمیر پر آکر قدم روک کر اس بدتمیزی کا تماشا دیکھئے ۔یہاں بھارت کے
حامیوں اور مخالفین کی ایک وسیع آبادی آبادہے ۔یہاں جو بھارت کے خاکوں میں
رنگ بھرتا ہے وہ ہندوستانی ایجنٹ کہلاتا ہے اور جو آزادی کی بات کرتا وہ
پاکستانی ایجنٹ قرار پاتا ہے ۔اس ایجنٹ کی زد میں صرف یہی چند قسمیں نہیں
آتی ہیں بلکہ امریکہ ، اسرائیل، روس، پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے ساتھ
ساتھ نیشنلی ،پی،ڈی،پی ،کانگریسی ،سنگھی اور حریتی ایجنٹ بھی بہت مستعمل ہے
۔حیرت انگیز بلکہ المناک یہ کہ ایک ہی مسلک،ایک ہی فکراور ایک ہی تنظیم کے
لوگ بھی ایک دوسرے کو غیروں کا ایجنٹ قرار دیکر ’’لفظ ایجنٹ‘‘کی توہین کرتے
ہیں ۔
1947ء میں تقسیم کشمیر کے ساتھ ہی ایجنٹ کا لفظ ہر شخص ایک دوسرے کے خلاف
استعمال کرنے لگا ۔1990ء کے بعد اس کا چلن اس قدر وسیع پیمانے پرہونے لگا
کہ کشمیر کی آبادی میں شاید ہی کوئی اس کی زد میں آنے سے بچا ہوگا ۔1990ء
میں عسکری دور کے آغاز کے ساتھ ہی درجنوں عسکری تنظیموں کی تخلیق اور
پھرنظریاتی اختلافات کے پس منظر میں باہمی کشت و خون نے نہ صرف کشمیر کی
سینکڑوں برس پرانی بھائی چارے کی روایات کو پامال کر کے رکھ دیا بلکہ
’’کشمیر کی اخوت و محبت کی روح ‘‘کو بھی کچل کر رکھدیا ۔ہر تنظیم دوسری
تنظیم کو ہندوستانی ایجنٹوں کی جماعت قرار دیکران کے مال و جان کو اپنے
حلال کر تی تھی ۔ نیشنلیوں اور کانگریسیوں کے متعلق تو عام بات تھی مگرخود
وہ تنظیمیوں جو کشمیر کی آزادی کی ترجمانی اور نمائیدگی کی دعویدار تھیں
بلا خوف و جھجک ایک دوسرے پر ’’انڈین ایجنٹ‘‘ہو نے کا الزام دھرتی
تھیں۔عسکریت کی رفتار تھم جانے کے بعد جب معاملات حریت کانفرنس کے ہاتھ میں
آنے شروع ہو گئے تو ہر غیر حریتی کے لئے یہی لفظ استعمال ہو نے لگا حتیٰ کہ
جب حریت کانفرنس تقسیم ہوگئی تو دونوں کے دارالافتوں سے ایجنٹ کا لفظ ایک
دوسرے کے خلاف خوب استعمال ہو نے لگا حتیٰ کہ اس کی زد میں وہ لوگ بھی آنے
لگے جنہیں آزادی پسند طبقوں میں ایک مقام حاصل تھا۔
’’بے چارہ ایجنٹ ‘‘کا لفظ گرتے گرتے اس قدر گر گیا کہ بلاشبہ اگر اس میں
قوت گویائی ہوتی تو چیخ چیخ کر انسانوں کی ملامت کرتا ۔مجھے اس سچائی سے
بھی انکار نہیں ہے کہ بعض ایجنٹوں نے اپنے ملک و ملت کے لئے ایسے کارہائے
نمایاں انجام دئیے ہیں کہ ان ممالک و ملل نے ان ایجنٹوں کا نام اپنے
’’ہیروز‘‘میں شامل کر لیا ہے جن کے تذکرے کا یہ محل نہیں ہے مگر جن معنی
اور پس منظرمیں میں بات کر رہا ہوں اس پسِ منظر اور معنی میں یہ لفظ
انتہائی شرمناک اور قابل کراہت قرار دینے کے قابل ہے ۔کشمیر میں اس کے توسع
کا سہرا 1990ء کے عسکری دور کو جاتا ہے جب سے ایک دوسرے پر ’’شک‘‘کرنا
ہماری فطرت ثانی بن گئی اور اب عالم یہ ہے کہ وادی کشمیر کے معروف صحافی
اور قلمکار صریئر خالد صاحب نے مجھ سے خود کہا کہ8جولائی 2016ء کے ہی دن
ایک نجی محفل میں بعض تنگ نظر حضرات نے ان سے کہا کہ ’’شہید برہان وانی
‘‘ایجنسیوں کے ساتھ ملا ہوا ہے وجہ پوچھنے پر بتا دیا گیا کہ اب تک کیسے
بچا ہوا ہے ؟اور پھر جب اس معصوم کا قتل ہوا تو یہی لوگ اس کی’’ شہادت‘‘
پربہت زیادہ ماتم کرتے ہو ئے نظر آئے ۔صرئیر صاحب کی اس روایت پر مجھے خود
کا ایک مشاہدہ بھی یاد آیا جب 1997ء میں میں کٹھوعہ جیل میں مقید تھا
۔قیدیوں کے پاس باہر کے حالات جاننے کے ذرائع بہت محدود تھے ۔اردوزبان میں
صرف ایک فحش اخبار’’روزنامہ ہندسماچار‘‘جوپنجاب سے شائع ہوتا ہے
اوردوسراانگریزی زبان میں’’ ڈیلی ایکسل شئیر‘‘جو جموں سے شائع ہوتا ہے کے
علاوہ یہاں چند ایک ریڈیو سیٹیں تھیں جس سے ریڈیوکشمیر سرینگر کی چھلنی اور
تحریف شدہ خبروں کے علاوہ ہم بی بی سی اردو سن پاتے تھے جہاں سے نشر ہونی
والی خبروں میں کبھی کبھار ہی کشمیر سے متعلق کوئی خاص خبر ہمارے کانوں سے
ٹکراتی تھی کہ اچانک ایک شام ساڑھے سات بجے ایک خبر نے قیدیوں کو ششدر
کردیا کہ حزب المجاہدین کے اعلیٰ ترین چار کمانڈرآبی گذر سرینگر میں ایک
ساتھ گرفتار ہو گئے جن میں حزب المجاہدین کے ڈپٹی سپریم کمانڈر سیف اﷲ ،حزب
المجاہدین کے فائنانشل چیف انجینئر فردوس کرمانی ،حزب المجاہدین میں مدغم
شدہ عسکری تنظیم اﷲ ٹائیگرس کے کمانڈر انچیف غازی الیاس اور حزب المجاہدین
کے شمالی کشمیر کے ڈیوژنل کمانڈر منظور احمد خان شامل تھے ۔فوج اور پولیس
ترجمان نے اس خبر کو ایک بے مثال کامیابی قرار دیتے ہو ئے کاروائی میں شامل
حضرات کی زبردست حوصلہ افزائی کی جو ہر ایسی خبر کی خصوصیت ہو تی ہے
۔قیدیوں میں ننانوے فیصدلوگ وہ نوجوان تھے جنہیں عسکری پس منظر میں گرفتار
کر کے جیل بھیجدیا گیا تھا ان میں اکثر کی زبان سے ایک ہی بات سنائی دے رہی
تھی کہ ہمارے کمانڈروں نے سرنڈر کیا ہوگا!
حیرت کی بات اس سانحہ کے حوالے سے یہ تھی کوئی بھی فرد ’’سرنڈر‘‘کی کہانی
ثابت نہیں کر سکتا تھا مگر رات بھر اس کے چرچے جاری رہے اور پورے جیل میں
یہی ایک موضوع چھایا رہا حتیٰ کہ اگلے دن صبح سویرے آل انڈیا ریڈیو سے نشر
ہونے والی خبروں میں بھی سرنڈر کے برعکس گرفتاری کا ہی دعویٰ کیا گیا ۔اس
خبر کے ٹھیک ڈیڑھ گھنٹہ بعد اسی واقعہ کے حوالے سے پولیس ترجمان کے حوالے
سے یہ خبر نشر کی گئی کہ فوج کو مجبور ہو کر ان چاروں کمانڈروں پر اس وقت
گولی چلانی پڑی جب سیکورٹی فورسز کے ساتھ چھاپے پر جاتے ہو ئے انھوں نے
بھاگنے کی کوشش کی ۔ یہ خبر سنتے ہی جیل میں سناٹا چھاگیا اور وہی لوگ
آنسؤں بہانے لگے جنہوں نے بارہ گھنٹے قبل ایک دوردراز مقام پر چار دیواری
میں ان کی گرفتاری پر شک کیا تھا ۔میں نے ان نوجوانوں کو وہ شکوہ یاد دلایا
جس ’’شکوے‘‘کے جیل کی کال کوٹھریوں میں روز چرچے رہتے تھے کہ باہر والے
’’ہر گرفتار ہونے والے کو سرنڈر کرنے والا ‘‘کیوں قراردیتے ہیں ؟میں نے
کہاکہ یہی وہ مرض ہے جو باہر والوں کو لگ چکا ہے اور آج معلوام ہوا کہ ہم
سب اس مرض میں بری طرح مبتلا ہیں ۔جب حزب المجاہدین کی اعلیٰ ترین قیادت پر
بلا تحقیق اتنا بڑا شک کیا جاسکتا ہے تو پھر کوئی اور کس کھیت کی مولی ؟یہی
حال جیل میں دوسری تنظیموں سے وابستہ نوجواں کا تھا کہ وہ اپنے ہر چھوٹے
بڑے کے متعلق سرنڈر کہانی خود ہی اختراع کرتے تھے ۔
اب توکشمیرکی آبادی کا بڑا حصہ اس ’’مہلک مرض‘‘میں بر ی طرح مبتلا ہو چکا
ہے ۔جو لوگ اس وقت برسرِ جدوجہد ہیں اور زندہ ہیں وہ ہمارے نزدیک اس لئے
مشکوک ہیں کہ وہ ابھی تک ’’قتل‘‘نہیں کئے جا چکے ہیں اور جب کبھی کبھار
کوئی گرفتار ہو جاتا ہے وہ ’’سرنڈر‘‘کہلاتا ہے !حیرت یہ کہ پولیس ذرائع
کبھی بھی کسی بھی شخص کی سرنڈر یا گرفتاری کی کہانی خفیہ نہیں رکھتی ہے الا
یہ کہ کوئی خاص ریاستی ضرورت ہو اور اس کے وجوہات اور اسباب بعد میں معلوم
ہو ہی جاتے ہیں ۔حیرت یہ کہ اب یہ بیماری کشمیر کی سرحدوں سے نکل کر آزاد
کشمیر میں پھیلنے لگی ہے ۔سوشل میڈیا کے ذریعہ بالعموم اور فیس بک کے ذریعے
بالخصوص یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ آزاد کشمیر یا پاکستان میں جو دینی یا
جہادی جماعتوں کے حوالے سے مخصوص رائے رکھتے ہیں انھیں امریکی یا بھارتی
ایجنٹ قرار دینے میں دیر نہیں لگائی جاتی ہے ۔مجھے اس حقیقت سے بھی انکار
نہیں ہے کہ ہر ملک میں دشمن ملک کے ایجنٹ ہوتے ہیں مگر کیا آبادی کا بڑا
حصہ ایجنٹ قرار دیا جاسکتا ہے ؟یا جن کی آرأ اور رائے سیاسی اور مذہبی
مسائل میں کچھ بھی مختلف ہو ہم اور آپ بلا توقف انھیں دشمن کا ایجنٹ قرار
دیدیں کیا یہ ’’گناہِ عظیم ‘‘نہیں ہے ؟دو تین ماہ قبل پاکستان کے ایک معروف
صحافی ارشاد محمود صاحب نے کشمیر میں جاری ایجی ٹیشن کے موقع پر پاکستان
میں ایک مذہبی تنظیم کے ’’امدادی مہم ‘‘پر چند سوالات اٹھائے کہ کیا بھارت
اس چندے ،ادویات اور دیگر اشیاء کو ہندوستانی کشمیر پہنچانے کی اجازت دیدے
گا؟نہیں اور یقیناََ جمع کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ نہیں تو پھر چندہ جمع
کرنے کی ضرورت کیوں؟اس پر اس تنظیم نے ان پر ’’دشمن کا ایجنٹ‘‘ہونے کا لیبل
چسپاں کردیا ؟اسی طرح آزاد کشمیر کے ایک نوجوان صحافی دانش ارشاد نے’’ آزاد
کشمیر کے حریت چیپٹر پر سید علی گیلانی کے تنقیدی تقریر ‘‘کے پس منظر میں
ایک مضمون لکھا اور حیرت یہ کہ لوگ گیلانی صاحب پر برہم ہونے کے بجائے دانش
پر برہم نظر آئے ؟آخر یہ کینسر جیسی مہلک بیماری ہمیں کیوں لگی ہے ۔
تنقید کرنا نہ گناہ تھا نہ ہی مستقبل میں گناہ قرار پائے گامگر اس کے حدود
قیود کا لحاظ کرتے ہو ئے اگر کوئی شخص مجھے آئینہ دکھاتا ہے تو اس میں
برائی کیا ہے ؟کہیں ہم عدم برداشت کی بیماری میں مبتلا تو نہیں ہو ئے ہیں
؟یہ بھی سچ ہے کہ بعض ناقدین حد ود قیود توڑتے ہو ئے انتہائی پستی تک آجاتے
ہیں مگر ہمیں دلائل کا جواب دلائل سے دینے کا گر سیکھنا چاہیے بدتمیزی اور
اپنوں کو مفت میں غیروں کے ایجنٹ قرار دینے سے باز آنا چاہیے ورنہ خطرہ اس
بات کا ہے کہ ناقد جان کے خوف سے تنقید ترک کر دے گا اور سماج ایک ناسور
زدہ لاش کی صورت اختیار کرے گا ۔میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ’’اسلام
پسند‘‘تنقید کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں مگر جب یہی ہتھیار ہمارے
خلاف کوئی دوسرااستعمال کرتا ہے تو ہماری بوکھلاہٹ دیدنی ہوتی ہے ۔خود کئی
کمانڈران اور حریت لیڈران نے کئی اخباری مدیروں کو فون کر کے میرے مضامین
نہ چھاپنے کا حکم صادرفرمایا !برعکس اس کے ہماری توپوں کا رُخ99.99فیصدغیر
مسلم حکمرانوں اور سیکولرو لبرل لیڈروں کی جانب ہی رہتا ہے اور ان کا صبر
اس مسئلے میں قابل رشک ثابت ہوا ہے آخر کیوں؟کیا ہم ان انبیاء علیہم السلام
سے نعوذ باﷲ کوئی بڑی چیز ہیں جن پر اپنی قوموں نے غضب ڈھایا تھا اور خود
حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ ان واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں تنقید حتیٰ
کہ توہین تک برداشت کرنے کے آخری درجے کے واقعات موجود ہیں ۔آخر ہمیں ہی ان
بیماریوں نے کیوں گھیر لیا ہے ؟
دو چیزوں میں فرق کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں ایک خواہ مخواہ شک کر
کے ہر ’’فکری یا نظری‘‘مخالف کو دشمن کا ایجنٹ قرار دینا دوم غیر ضروری
تنقید کا شغل اختیار کرنا یا مخلص ناقد کو تنقید سے روکنا ۔ہمارے لئے ضروری
ہے کہ ہم اس ’’مفت کے دھندے‘‘کو ترک کر کے اپنے آپ کو اُخروی خسارے سے
بچالیں ۔نہیں تو ہم کوئی کارنامہ انجام دینے کے برعکس ایک دوسرے کو ہی
کوستے رہیں گے یہاں تک کہ غیر اور کئی سو سال آگے نکل جائیں گے رہی آخرت تو
وہاں ہمیں نقصان سے کوئی بچا نہیں پائے گا ۔8جولائی2016ء کو برہان کی شہادت
کا سانحہ پیش آیا 9جولائی کو ایک ’’تنگ نظر دانشور‘‘نے میرے ایک دوست سے
کہا کہ حریت کانفرنس بک چکی ہے !سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی تنگ نظری
اور کوتاہ اندیشی کی کسی بھی سماج میں گنجائش پیدا ہو سکتی ہے ؟اگر ہم نے
اپنی نئی نسلوں میں بھی یہ جراثیم منتقل کر دئے تو ان کا کیا بنے گا ؟ہم
وطن کی آزادی کے متمنی ہی نہیں بلکہ اس کے لئے برسر جدوجہد بھی ہیں تو کیا
ایسی صورتحال میں کسی قوم کو آزادی مل سکتی ہے جس میں ایک دوسرے پر بھروسے
اور اعتماد کا اسقدر فقدان ہو کہ ہمیں ہر دوسرا دشمن کا ایجنٹ نظر آئے اور
اپنی ذات کے سوا ہر دوسرا بد خواہ یا وطن اور دین دشمن ۔ہمارے لیے ضروری ہے
کہ جہاں نظریات اور افکار کا ہجوم ہو وہاں ’’ایجنٹ ‘‘قرار دینے کے بجائے
اپنی دلیل مؤثر انداز میں پیش کریں اور جہاں ہم خود غلط ہوں وہاں غلطی قبول
کریں نہ کہ کسی دوسرے کے سر مڑنے کی ناکام کوشش کریں ۔
دوسروں کو ایجنٹ قراردینے کے دھندے کو ترک کرنے سے ہمارا ایک دوسرے پر
اعتماد بڑھ جائے گا ۔ریاستیں بے رحم ہوتی ہیں وہ اپنے سراغرساں اداروں کو
افراد پر نظر رکھنے کے لئے متعین تو کرتی ہیں ،پر جہاں مقصد واضح اور
جدوجہد جائز ہو وہاں کسی ’’جاسوس‘‘سے خوف زدہ ہو نے کی چنداں ضرورت نہیں
رہتی ہے بلکہ وہ خود ہی مایوس ہو کر شرمندہ ہو جاتے ہیں ۔اس مہلک مرض سے
باز آنے اور بچنے کا اہم ترین فائدہ یہ ہے پر سکون زندگی ہمارا مقدر بن
جائے گی اور اپنے بھائیوں کے حرکات و سکنات پر اعتماد کرتے ہو ئے ان کی خطا
کو’’ خطاءِ بشری‘‘کے کھاتے میں ڈالدیں گے نہیں تو اختلاج قلبی اور ذہنی
پراگندگی کے مرض میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ سوءِ
ظن،غیبت،حسد،کینہ،شک،نفرت،عداوت اور وہم جیسے مہلک روحانی امراض میں مبتلا
ہو جائیں گے جن کا علاج ناممکن ہے اور ہم میں بشمول قیادت و عوام یہ
بیماریاں بڑھی حد تک سرایت کر چکی ہیں ۔مجھے ایک’’ لطیفہ ‘‘ہاں جی
’’لطیفہ‘‘ اب تک یاد ہے کہ مجھے ایک روز ایک بین الاقوامی سطح کے مذہبی
ادارے کے مؤذن نے ایسا واقع سنایا کہ اپنی ہنسی ضبط نہیں کر سکا اور مجھے
احساس ہوا کہ جب کسی قوم میں کسی بھی طرح کا فوبیا پیدا ہو جائے تو وہ رائی
کو بھی پہاڑ بنا دیتی ہے ۔مؤذن کا کہنا تھا کہ مجھے نمازکے بعد ایک روز
امام جامع نے بلا کر کہا کہ RSSمجھے مارنا چاہتی ہے ۔مؤذن ہکابکا رہ گیا اس
لئے کہ امام صاحب بلاشبہ بہت بڑی شخصیت تھی پر اتنی نہیں کہ RSSاس کے قتل
کی سازش کرتی ۔مؤذن نے پوچھا وہ کیسے ؟تو امام صاحب نے مصلےٰ کا کونا الٹ
کر دکھایا جس کے نیچے ’’شیونگ بلیڈ‘‘کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کسی بچے نے چھپا
رکا تھا !یہ تھی امام صاحب کی قتل کی سازش کا خلاصہ ۔
ہمیں چاہیے کہ آپ اپنا محاسبہ کریں ۔دوسروں پر اگر بھروسہ بھی نہیں کر سکتے
ہیں تو بھی انھیں خواہ مخواہ دشمن کی جھولی میں نہ ڈالیں ۔ہمارے بیچ مذہبی
،مسلکی ،فکری اور نظریاتی اختلافات موجود ہیں مگر ان کو بنیاد بنا ہم
’’دوسروں کو غلط اور صرف میں ٹھیک ‘‘کہہ کر سچے ثابت نہیں ہو سکتے ہیں
۔ہمارے درمیان سیاسی اختلافات کا ایک سمندر موجود ہے مگر اسی کو دلیل بنا
کر ہم اپنے بھائیوں کو اپنوں ہی کی نگاہوں میں گرا کر کوئی قلعہ تعمیر نہیں
کر سکتے ہیں ۔مسلکی یا فکری اختلافات کی بنیاد پر ’’کفرو شرک اور فسق و
فجور‘‘کے فتوے داغنے سے کوئی نہ اپنا مسلک ترک کرتا ہے نہ ہی’’ تطہیر فکر
‘‘کرتا ہے بلکہ اس میں پہلے سے بھی زیادہ شدت پیدا ہو جاتی ہے ۔ہر فرد کا’’
مفتیانامزاج ‘‘اپنا کر دوسروں کو دق اور زچ کرنے سے کوئی نہ ہی خوف زدہ
ہوتا ہے نہ ہی اپنی اصلیت ترک کرتا ہے اس لئے کہ انسانی جذبات اور احساسات
میں انیس بیس کا فرق ہوتا ہے ۔مسلک ،فکر ، نظریہ اور اپروچ کو تبدیل صرف
دلائل سے ہی کیا جا سکتا ہے ڈراور خوف سے نہیں۔نا ہی ’’ایجنٹ‘‘قرار دیکر
کوئی شخص اپنے عقائد تبدیل کرتا ہے اور اس کے درست اعدادوشمار کے لئے آپ
اور مجھے کسی سرکاری محکمے سے رجوع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ
ہمیں ہمارے محلے اور بستی میں ہی اچھی طرح نظر آسکتا ہے بشرطیکہ ہم ٹھنڈے
پیٹوں تحمل کے ساتھ مثبت انداز میں مسائل کو دیکھنا گوارا کر لیں ۔ |