بسم اﷲ الرحمن الرحیم
وفاق المدارس العربیہ کی قیادت نے اپنے ایک اخباری بیان میں ارباب حل و عقد
کو دعوت دی ہے کہ وفاق المدارس العربیہ کے آئیڈیل امتحانی سسٹم کو اپنا کر
شفاف اور منظم طریقہ امتحان کو رواج دیں ۔یہ بیان وفاق المدارس العربیہ کی
طرف سے اس موقع پر جاری ہوا ہے، جب دینی تعلیمی اداروں میں امتحانات کا
سلسلہ اختتام پذیرہوچکاہے۔ دینی مدارس کے سب سے قدیم اور منظم امتحانی بورڈ
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام ملک کے چاروں صوبوں ،قبائلی
علاقہ جات ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بیک وقت سالانہ امتحانات کا
مرحلہ ختم ہونے کے بعد اب نتائج کی تیاری کا گھٹن مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔
سالانہ امتحانات 8جون 2013بمطابق 29رجب المرجب بروز ہفتہ سے شروع ہو کر
13جون تک جاری رہے ہیں ،وفاق المدارس العربیہ کے تحت چلنے والے مدارس کی
تعداد 16638ہے جب کہ زیر تعلیم طلبہ و طالبات کی تعداد 21,00,000ہے ، اس
پورے سلسلہ کو چلانے کے لیے تقریبا ایک لاکھ معلمین ومعلمات کی خدمات حاصل
کی گئی ہیں۔ اس سال 59286طلباء وطالبات شعبہ تحفیظ القرآن میں امتحانات دے
چکے ہیں جبکہ 167880طلبہ وطالبات نے شعبہ کتب کے مختلف درجات میں امتحانات
دیئے ہیں ،مجموعی طور پر وفاق المدارس العربیہ کے امتحانی بورڈ کے تحت
2013بمطابق 1434میں 227166طلباء و طالبات مختلف درجات میں امتحانات دے رہے
ہیں۔ملک بھر میں طلبہ کے لیے 461جبکہ طالبات کے لیے 998امتحانی مراکز قائم
کیے گے ہیں۔
وفاق المدارس العربیہ ایک وسیع اور مربوط امتحانی نیٹ ورک رکھتا ہے ، ملک
کے چاروں صوبوں ،وفاقی دارلحکومت ،آزاد کشمیر ،گلگت بلتستان اور فاٹا میں
وفاق المدارس کے مجموعی طور پر امتحانی مراکز کی تعداد 1459ہے ،سب سے
امتیازی خصوصیت جو معاصر تمام دینی و عصری تعلیمی بورڈز سے وفاق المدارس
العربیہ کو نمایاں کرتی ہے وہ پورے ملک میں تمام امتحانی مراکز میں تمام
درجات کا بیک وقت پرچہ شروع ہونا ہے،امتحانی مراکز میں بوٹی مافیا کا نام
تک مفقود ہوتا ہے، منظم و مربوط ، صاف و شفاف اور پاکیزہ ماحول میں طلبہ
وطالبات کو قلم وقرطاس کے ذریعے اظہار مافی الضمیر کا موقع فراہم کرنا وفاق
المدارس العربیہ کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ آج کل کے امتحانی کلچر میں ایسے
مثالی اور پاکیزہ نظام کا وجود نا صرف قابل تعریف بلکہ قابل تقلید بھی ہے ۔
وفاق المدارس العربیہ کے قیام کی ابتدائی کوششوں کا آغاز 22مارچ 1957
بمطابق 20شعبان 1373کو جامعہ خیر المدارس ملتان کی مجلس شوریٰ کے اجلاس سے
ہوا ، جس کے محرک حضرت مولانا شمس الحق افغانی ؒ تھے، بعدازان پانچ رکنی
کمیٹی جس کے کنوئنیر مولانا احتشام الحق تھانویؒ،اور اراکین مولانا خیر
محمد جالندھریؒ،مولانا شمس الحق افغانی ؒ ،مولانا ادریس کاندھلویؒ اور مفتی
عبداﷲ ملتانیؒتھے۔ کمیٹی کے اہداف میں مدارس عربیہ کی بقا و تحفظ ، تنظیم و
ترقی ،نصاب تعلیم کی ترتیب ، معیار تعلیم میں بہتری اور ملک اور امت مسلمہ
میں مدارس کے کردار کو مؤثر اور فعال بنانا تھا۔صرف دو سال بعد
18,19اکتوبر1959کو وفاق المدارس العربیہ کی بنیاد رکھی گئی ،جس کے ابتدائی
صدر مولانا شمس الحق افغانی ؒاور ناظم اعلیٰ مولانا مفتی محمود ؒکو مقرر
کیا گیا ۔ وفاق المدارس کا 54 سالہ تعلیمی ، تعمیری،فکری اور اصلاحی دور بے
شمار کامیابیاں و کامرانیاں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے،جن کا اعتراف اپنے
اورغیر سب ہی کرتے ہیں ،صرف امتحانات کے شعبہ میں اگر وفاق المدارس العربیہ
کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اس عظیم ادارے کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں
ہو جاتی ہیں، اس امتحانی بورڈکے تحت یوم تاسئس سے اب تک 102747طلباء اور
115208طالبات شھادت عالمیہ اور سند فراغت حاصل کرچکے ہیں جبکہ حفظ قرآن
کریم کا امتحان دینے والے طلبہ کی تعداد 759286ہے،مجموعی طور پر اس امتحانی
بورڈ کے تحت امتحان دینے والے طلبہ وطالبات کی تعداد977241ہے۔
وفاق المدارس العربیہ وہ عظیم ادارہ ہے جس کی روز اول سے ہی قیادت اولیاء و
مشائخ کے ہاتھ رہی ہے،عبقری شخصیات کی حامل ہستیوں نے اس اداروں کو اپنی
خدمات پیش کیں ، امت کا دکھ درد اپنے دلوں سے محسوس کرنے والے عظیم رجال
کار آج بھی اس پلیٹ فارم سے ملک میں تعلیم و آگہی کو عام کرنے کے لیے سرگرم
عمل ہیں ۔دین دشمن قوتوں کے منفی پروپیگنڈے سے متاثر ماحول میں جو بھی اس
عظیم ادارے کی کارکردگی کو دیکھتا ہے وہ اس کی عظمت اور رفعت کا نہ صرف
اعتراف کرتا ہے بلکہ روشنی کے اس سفر میں ان کا دست وبازو بھی بنتا
ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اجتماعی طور پر ایسے اداروں کی خدمات و کردار
کو اجاگر کریں اور ان کے بارے میں ہونے والے ہر پروپیگنڈے کو قومی سطح پر
ناکام بناکر با شعور اور محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں کیونکہ مدارس
کی بقا ہمارے تشخص کی بقا ہے،چشم فلک نے اس دھرتی پر وہ منظر بھی دیکھاکہ
غرناطہ، بخارا، سمرقنداور نیشاپور کی درسگاہوں میں ایک ایک محدث کے سامنے
ہزاروں کی تعداد میں تشنگان علم سیراب ہوتے تھے،پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ
ان درسگاہوں کو قومی ورثہ قرار دے کر سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔پاک وھند
کا دینی ماحول اورلوگوں کا اسلام پسند ہونا مدارس اور اہل مدارس کے مرہون
منت ہے اور ان مدارس کے تحفظ کا بیڑہ وفاق المدارس العربیہ کی قیادت نے اﷲ
کے فضل و کرم سے اٹھا رکھا ہے۔ |