تعلیمی ادارے یا اخلاقیات کی جنازہ گاہیں؟
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
میں پہلے بھی اس موضوع پر لکھ چکا ہوں لیکن
میڈیا خود اخلاقیات کے جنازے نکال رہا ہے۔ اخبارات کو کالم بھیجے جاتے ہیں
لیکن وہ شائع نہیں کیئے جاتے۔ وجوہات سبھی لوگ جانتے ہیں۔ جن میں سر فہرست
قادیانی اور صلیبی لابی ہے۔ حیرت ہوتی ہے جب ہمارے ملک میں سلیبس کی تیاری
امریکہ اور یورپ کی ہدایات پر ہوتی ہے۔ کبھی ہم دوسروں کو نصابِ تعلیم دیا
کرتے تھے آج ہمارے ملک میں ان کے زرخرید غیرت و حمیت باختہ لوگ اسلامی نظام
تعلیم جو ہماری امنگوں کا آئینہ دار ہے اسے نافذ نہیں ہونے دے رہے۔ آج سے
کچھ سال پہلے جو مواد تھاوہ بھی ان لوگوں کو نہ بھایااور اسے خارج از نصاب
کرکے غیر ضروری اور غیر اخلاقی مواد شامل کردیاگیا ہے۔کہنے کو وزارت ِ
تعلیم اور نصابی کمیٹیاں موجود ہیں لیکن ان نشستوں پر اسلام دشمن قوتوں کے
ایجنٹ بیٹھے ہیں۔ ایک ملک کے اندر کئی سلیبس رائج ہیں ۔ ہر تعلیمی ادارہ
اپنے سلیبس میں خودمختار ہے۔ پیسے کمانے کے لیئے عوام کو دھوکا دیا جارہاہے۔
ہزاروں میں ماہانہ فیسیں وصول کی جارہی ہیں اور دینے والے دے رہے ہیں۔ غریب
عوام کا سوال ہے کہ ایسے نام نہاد تعلیمی اداروں میں اوسطا بیس ہزار ماہوار
فی بچہ کے اخراجات والدین کہاں سے پورا کرتے ہیں؟ یہ بات عیاں ہے کہ اس
مہنگائی کے دور میں ہر بچے کے لیئے گاڑی، سکولوں کے چاؤ چونچلے تو ناجائز
ذرائع آمدن سے پورے ہورہے ہیں۔ کرپشن اور ناجائز ذرائع کا ناسور ایوانہائے
اقتدار میں عروج پر ہے۔ ایسے میں کون پکڑے؟ پکڑنے والے کروڑوں میں نہیں اب
اربوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہے کوئی جو ان کا احتسا ب کرے اور انہیں ننگا کرے؟
حکومتی سرپرستی میں تعلیمی اداروں میں موسیقی کی تعلیم دی جارہی ہے ۔ جہاں
ثقافتی شو کے نام پر حیا سوز ناچ گانے ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ ایک بڑے تعلیمی
ادارے میں پڑھنے والی لڑکی بدکاری سے حاملہ ہوگئی توباپ نے اسے اس سکول سے
ہٹا لیا یہ کہتے ہوئے کہ یہاں برے کام ہوتے ہیں۔ حالانکہ لڑکی کے والد نے
آزاد خیال تربیت کے لیئے ہی تو اس سکول کا انتخاب کیا تھا۔ اسلام آباد میں
حالیہ استاد شاگرد معاشقہ کا ہولناک انجام کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے قبل
کراچی میں ایک واقعہ رونما ہوا اور مزید کئی ایسے ہونگے جو منظر پر نہ آئے
ہوں۔ چند سال قبل علامہ قبال کالونی کے ایک سکول کی خاتوں ٹیچر کا اپنے
ساتویں کلاس کے طالبِ علم کے ساتھ معاشقہ ہوا تو مس اپنے شاگرد کو لے کر
لاہور چلی گئی اور پھر بعد میں نکاح کا ہونا بھی سننے میں آیا۔ شتر بے مہار
ادارے ہیں۔ اہل نا اہل لڑکیا ں بطور ٹیچر رکھی جاتی ہیں اور اکثر سکول
انتظامیہ کی ہدایات پر خوب تزئیں و آرائش کرکے سکولوں میں آتی ہیں۔ نجی
تعلیمی اداروں کی اکثریت توتعلیم و تربیت کے نظریہ سے عاری ہے۔ محض پیسوں
کی خاطر تعلیمی ادارے کھولے گئے اور اس میں وہ لوگ کامیاب بھی ہیں۔ انکا
حال انکے ماضی کو شرمادیتا ہے۔ کہ جن کے پاس سائیکل بھی نہ تھی آج وہ
کروڑوں کے اثاثوں کے مالک اور خوبصورت تین چار چار بیویوں کے خاوند ہیں۔
کروڑوں کے اثاثوں پر انہوں نے کبھی حکومت کے خزانے میں ٹیکس جمع نہیں کرایا
کیونکہ محکمہ انکم ٹیکس کے لوگ بھی ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ درسگاہیں
قوم کے افراد کی تعمیر کرتی ہیں لیکن جب اسلامی تعلیمات کو نصاب میں شامل
نہ کریں تو مقصد تعلیم ہی فوت ہوجاتا ہے۔ کیونکہ انسانی اقدار اور اخلاق کی
تعلیم صرف قرآن و سنت میں ہیں ہے۔ اس طوفا ن کو روکنے کیلیئے میں کچھ
تجاویز بھی دونگا کہ مرض کی تشخیص کے بعد اس کے لیئے دوا تجویز کرنا بھی
ضروری ہے۔ سب پہلے تو قومی سطح پر نصاب کی تدوین ضروری ہے۔ ماہرین
مضامین،مفسرین، محدثین،فقہا، مورخیں،علماء کرام پر مشتمل کمیٹیاں بنائی
جائیں ۔ پرائمری، مڈل، سیکنڈری، ایف، بی اے اور ان سے اوپر کلاسز کے لیئے
سلیبس تیار کریں۔ اسکے بعد یکساں درسگاہی نظام نافذ کیا جائے۔ میٹرک تک
تعلیمی نظام نجی شعبہ کے حوالے کیا جائے۔ حکومتی ضلعی نظامت تعلیم تعلیمی
اداروں کی کڑی نگرانی کرے، انہیں حکومتی گرانٹ فراہم کرے، قومی نصاب پڑھائے
جانے کی پابندی کرائے۔تعلیمی اداروں کے اخراجات جاریہ کا نصف حکومت دے تاکہ
طلبا پر فیسوں کا بوجھ نہ پڑے کسی بھی جماعت کی ماہوار فیس تین صد سے زائد
نہ ہو۔ جو لوگ تین صد بھی نہ سکیں انکی پوری فیس حکومت ادا کرے۔ میٹرک تک
بچوں کو کتابیں کاپیاں مفت دی جائیں ۔ حکومت کھیلوں ، سانئس لیبارٹری اور
لائبریری کا سامان مفت فراہم کرے۔ اساتذہ کی پنشن حکومت ادا کرے۔ اساتذہ کی
تقرری 25 سال کی عمر سے کی جائے اور 70 سال کی عمر میں پنشن دیدی
جائے۔خواتین اساتذہ چوتھی جماعت تک پڑھائی اس سے اوپر کی جماعتوں کو صرف
مرد حضرات پڑھائی۔ خواتین اساتذہ صرف لڑکیوں کے سکولوں تک محدود رہیں۔ طلبا
اور اساتذہ کو حکومت مفت علاج کی سہولت دے۔ ان تجاویز میں مزید بہتری کی
گنجائش ہے۔ |
|