خان صاحب ؒکی خاص بات
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
تحریر: مولانا عزیز الرحمن عظیمی
’’مولاناسلیم اللہ خان‘‘ہمارے استاذ تھے،خاص استاذ،بڑے استاذاوراصل
استاذ۔اورہم ان کے عام سے طالب ،نہایت معمولی،اکانومی کلاس،ناقابلِ ذکر ۔اس
دبستانِ علم ومعرفت میں کئی دیگر شخصیات نے بھی ہمیں پڑھایامگر وہ بھی توان
ہی کی’ صنعت‘ تھے ۔ان سب کے کیسۂ دانش کا کل متاع خانصاحب کے عالی دماغ کی
دَین تھا۔یعنی یہاںپڑھنے پڑھانے والوں کی پوری برادری ان ہی کی’’علمی
ذریت‘‘ تھی۔ استاذسبٓ سابق طالب علم اور شاگردوں میں کئی سارے مستقبل کے
استاذ۔ہم آئے تو مادرعلمی کی عمر۲۱ سال تھی اورپدر بزرگوار عمرِ
مسنون(۶۲برس)کی دہلیز پر پہنچ گئے تھے۔تب ہم لڑکپن کی آغوش سے نکل کربلوغت
کے کٹہرے میں جانے والے تھے ،خانصاحب کی زیارت وصحبت میں ہمارے بڑے نازک دن
کٹ رہے تھے جن ایام میںذہن بنتا ہے اورسوچ پروان چڑھتی ہے ۔واقفانِ حال
بشرطِ انصاف گواہی دیں گے کہ ہم جب ان کے دَر پر گئے تو ان ہی کے ہوکر
رہے۔کوئی’ دورہ پڑا‘ نہ کہیں ’چلّہ کاٹا‘۔عسکری تربیت لی نہ تحریکی کورس
کیا۔اسی میخانے سے فکرِشیخ الہند کی چُسکیاں بھریں،وہ شیخ الہند جن کے جامِ
معرفت میں علم بھی تھا،دعوت بھی،سیاست بھی،جہادبھی،سلوک بھی ۔یعنی عقیدہ
عمل اور تربیت تینوں۔ شیخ سلیم اللہ خان بھی ان تمام شعبہائے دِین کے جامع
تھے۔وہ پورے کسی کے بھی نہیں تھے اور کچھ کچھ سب کے تھے۔ہم ظلِّ سلیم اللہی
میں یوں پلے بڑھے کہ ان ہی کی ذات پیشوا تھی اور ہم سراپا’پیروی‘۔مولانا
سلیم اللہ خان نے اپنے جیسے رجال بنانے میں عمرِعزیزکھپادی۔اوران جیسا بننا
بہت آسان ہے لیکن نہایت مشکل۔مولانا فقط ایک’’رجل مؤمن ‘‘تھے۔مقتدر
ومقتداء،مرجع وماوی ہونے کاکبھی کوئی تاثر نہیںدیا۔مرشد ومقدس،یامخدوم
ومحبوب بننے کی کوئی شعوری کوشش کی نہ خواہش رکھی۔اپنے عہد کے سب سے عظیم
شیخ تھے پر شیخی نہیں بگھاری۔’’مولانا سلیم اللہ خان‘‘ کہلانا پسند کرتے
تھے،محبوب الاولیاء مرشد الطائفہ اور حضرت اقدس نہیں اور بلکل بھی
نہیں۔قومیت یا وطنیت کا کوئی لاحقہ نہیں پسند کرتے تھے سوائے’’خان‘‘ کے۔یہ
حضرت کے نام کا جزو لا ینفک تھا اور بلاشبہ آپ کے نام کا حصہ بن کر اس لفظ
کا حسن دوبالا ہوا۔دنیا کہتی ہے محمدِعربی، قَرشی،ہاشمی،مطّلبی (ﷺ)۔خانوادے
کی طرف نسبت ہے،فیملی نیم۔ اورامت فخریہ کہتی ہے تو پھر مجھے بھی اپنے
استاذکو ازراہِ عقیدت اور فخر سے سرشاری کے عالم میں’’خانصاحب‘‘ کہنے دے
جیے کہ یہی حضرۃ الاستاذ کے نام کاجزو لاینفک بھی ہے،لقب وتعارف بھی ،ان کے
مذاق کے مطابق بھی۔اوربجائے خودبہترین حرفِ توصیف بھی۔
حضرت کے لاکھوں شاگردوں میں بے شمار نابغہ شخصیات تاریخ میں یاد رکھی جائیں
گی،ہر ایک اپنی جگہ اہم ہے۔ہم نے ۲۳ برس پاس گذار کرانہیں ایک اچھا انسان
پایا۔انسان جس کی خوبیاں بھی ’انسانی‘ ہوتی ہیں اورخامیاں
بھی’انسانی‘۔ملکوتی نہ ابلیسی۔وہ کوئی الوہی مقام نہیں رکھتے تھے،معصوم بھی
نہ تھے اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ غلط بھی کرتے تھے اور ہمیں ان سے
اختلاف بھی ہوتا تھا اور ہونا بھی چاہئے تھا۔نہ وہ فرشتہ اورآسمانی مخلوق
تھے نہ ہم کیڑے مکوڑے ۔بلکہ وہ سلیم اللہ اور ہم سلیم اللہ والے۔وہ باپ ہم
بیٹے۔وہ مورِث ہم وارث۔وہ ہمارے بڑے ہم ان کے چھوٹے۔
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیوں کر ہو
ہمارے استاذ اول وآخرایک ’’استاذ‘‘ تھے۔وہ اپنے شاگردوں اورہر خاص وعام کو
خود سے اختلاف کا حق دیتے تھے اوردلیل کے سامنے ڈھیر ہوجانے کی بے
نظیرشناخت رکھتے تھے۔وہ حق پرست بھی تھے اور حق پرور بھی۔
آج شیخ سلیم اللہ خان کی مدح میںزمین آسمان کے قلابے ملانا اوران سے وابستہ
یادوں کو مرچ مسالے لگاکر مارکیٹ کی زینت بنانابہت آسان ہے۔ان کی سیرت
اپنانا مشکل ہے ،بہت ہی دشوارجس سے موسمی عقیدت مند سوچا سمجھا اغماض برت
رہے ہیں کیوں کہ اس سے’’انا الحق‘‘ مدظلہ کو شدیدجانی اور مالی خطرہ ہے۔
آج حضرت شیخ جب اپناسکہ رائج کر کے دنیا سے گئے ہیں تو بے شمار کھوٹے سکے
اپنا ’’شیخ ومربی‘‘ آئڈئیل اور محسن کہہ کر ان کے معتقدین میں شامل ہورہے
ہیں جبکہ انہیں اُن سے کوئی مناسبت ہے نہ قربت۔
بڑوں کے نام پر کھانے،اوربڑوں سے کام نکالنے والے ہمیشہ’’بڑے پن‘‘سے محروم
رہتے ہیں۔خالص اور مخلص بونے رہتے ہیں۔بڑے کام اوربڑوں کے کام سے ہی حقیقی
عظمت ملتی ہے۔بڑے اپنی بڑائی کے داعی نہیں ہوتے وہ اللہ سے ملاتے ہیں اس
لئے کہ اللہ ہی ’’اکبر‘‘ ہے ۔اس کے علاوہ کوئی ’اکبر‘ نہیں،اللہ واحد ہے اس
کی جمع نہیں آتی ۔شرک ِاسمی ہے۔’’اکبر‘‘ کی بھی مطلق جمع نہیں آسکتی
ہے۔کیوں کہ سب سے بڑاایک ہی ہے ،متعدد نہیں۔اکابر کا لفظ قرآن میں ایک ہی
جگہ آیا ہے جس کی’ مجرمین‘ کی طرف اضافت ہے۔اکابر العلماء بھی چلو کہہ دو
۔مگر مطلق ’اکابر اکابر‘ کی رٹ لگانے والے درحقیقت اللہ کے اکبر ہونے کی
نفی کرتے ہیںاور بزرگوں کا نام لے کران کے کاز سے منحرف ہورہے ہیں۔
مولاناسلیم اللہ خان کے بیٹے مولانا عادل خان مزاج میں اپنے والد مکرم کے
ثانی ہیں۔اپنے کام کی بنیاد اور کردار کے بل بوتے پر آگے بڑھنے والے،کھرے
اور سچے۔والدنے کہا ادارہ نہیں چلاوگے،بس! تو کہا نہیں چلاؤںگا،بس!۔وہیں سے
اپنی نئی دنیابنانے کے مشن پر نکلے اوربناکر دِکھادی ۔ مغرب میں گئے تودھوم
مچادی مشرق میں بھی لوہامنوادیاآفریں ہے باپ بیٹے دونوں پر ۔نہ وہ امت کے
مال سے بچوںکے لئے کمانے کے قائل،نہ یہ باپ سے منسوب اوقاف کابٹوارہ کرنے
کے حامی۔
کئی ناخلف بیٹے معروف والد کا جنازہ پڑھاکے گدّی کا استحقاق ثابت کرتے ہیں
یہاں ’اہل ‘بیٹا اپنے دوست اور والد کے وفادار شاگرد کی سنیارٹی کا خیال
رکھتے ہیں اور محدثِ ایشیا کی نمازِ جنازہ کا اعزاز مولاناانور صاحب جیسے
فقیر آدمی کو دے کر مثال قائم کرتے ہیں۔ عادل خان زندہ باد۔
ولی خان المظفر بھی شیخ سلیم اللہ خان کاحقیقی وژن دنیا کے سامنے لانے والے
ان کے اکلوتے شاگرد ہیں۔امام زماں کی فکر ونظر کو جلابخشنے والے،قائدملت کی
عملداری ثابت کرنے والے،خادمِ خاص۔ابن الحسن عباسی حضرت کوشارح حدیث کی
حیثیت سے تاریخ کا حصہ بنانے پر ہدیۂ تبریک کے بجا طور پرمستحق ہیں۔
نورالبشر شیخ کے سرپر’ محدث عصر‘کا تاج رکھنے میں کلیدی کردار رکھتے ہیں۔
مولاناانور تدریس میں ،منظورمینگل ذہانت اور ردّفِرق میں شیخ کے امین
ہیں۔استاذ عبدالرزاق جامعہ میں بیٹوں کے بعد حضرت کے سب سے دیرینہ رفیق اور
حضرت کے چہیتے،مشیرومعین۔جبکہ ریاستِ وفاق میں آپ گڈگورننس
کا’راز‘عبدالمجید ہیں۔اپنے خالدصاحب تو اسوۂ سلیمی کے پیمبر ہیں،ان کے جمال
کا جلوہ کمال کا پرتو۔یہ تمام حضرات چشمۂ فاروقیہ میں آکراسی حضرتِ ساقی کے
دستِ فیاض سے سیراب ہوئے ،اور پھرنکلے اس فیضان کوعام کرنے۔{فمنھم من قضی
نحبہ ومنھم من ینتظر}
آج سب یتیم ہوگئے ،یتیم العلم والادب ۔سب تلامذ ہ ،پوتے نواسے اوردیگرمحبین
تعزیت کے مستحق ہیں۔احسن اللہ عزاء الجمیع وافرغ اللہ الصبر علینا
جمیعا۔ورضی عنہ وعناآمین۔ |
|