ہمارے معاشرے میں جہالت، انتہاپسندی، اناپرستی اور شریعت
کی سنہری تعلیمات سے ناواقفیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ انا پرستی پر مبنی
اپنی بعض روایات کی حفاطت کے لیے کسی بے گناہ انسان کی جان لینا بھی بڑی
بات نہیں رہی۔ قرآن مجید ایک بے گناہ انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل
قرار دیتا ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نزدیک سب سے افضل اور برتر
ہماری انا اور ہماری ثقافت اور روایات ہیں، جن کی حفاظت کے لیے کسی انسان
کی جان لینا بھی جرم نہیں۔ کچھ روز قبل روزنامہ ایکسپریس میں ایک خبر پڑھی
کہ ’’رحیم یار خان کے علاقے نبی پور میں ماجد اور زلیخاں نے پسند کی شادی
کی، جس پر پنچائت میں لڑکا اور لڑکی دونوں کو گولی مارنے کا فیصلہ سنایا
گیا۔‘‘ یہ خبر پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ ہم لوگ جہالت کی کن گھاٹیوں میں
گرتے جارہے ہیں۔ پسند کی شادی پر اس قسم کا فیصلہ کسی پنچائت میں پہلی بار
نہیں سنایا گیا۔ آئے روز نہ صرف اس نوع کے فیصلوں کی خبریں میڈیا پر آتی
رہتی ہیں، بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں پسند کی شادی کرنے والے میاں بیوی
کے قتل کے اتنے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ ان کا شمار بھی مشکل ہے۔ اپنی
ناک بچانے کے لیے اس قسم کے فیصلے بدترین ظلم ہیں، جن کی اسلام ہرگز ہرگز
اجازت نہیں دیتا۔ اگر والدین سمجھتے ہیں کہ اولاد نے کم فہمی کی وجہ سے
شادی کے معاملے میں غلط فیصلہ کیا ہے تو ان کو بہتر فیصلے کے لیے قائل کرنا
والدین کی ذمے داری ہے اور پوری دنیا کے سامنے تماشا بنانے کی بجائے نکاح
کے ذریعے ان کے فیصلے کو قبول کرلینا ہی عقل مندی ہے، کیونکہ شادی میں پسند،
ناپسند کا اختیار خود اﷲ تعالیٰ نے ان کو دیا ہے اور جب نکاح کر کے دونوں
شرعاً میاں بیوی بن چکے ہیں تو اس کے بعد کسی کو ان کی زندگی میں مداخلت کا
اختیار ہی نہیں ہے۔
ایک صاحب کہنے لگے کہ اگر ہمارے معاشرے میں بڑوں کو نظر انداز کر کے پسند
کی شادی کی کھلی آزادی دے دی جائے گی تو پھر ہم میں اور مغرب میں فرق ہی
کیا رہ گیا۔ عرض کیا کہ مغربی تہذیب اپنانے، کھلی آزادی دینے اور بڑوں کو
نظر انداز کرنے کی تو قطعاً حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی اور یہ بھی بجا کہ
اولاد کے لیے جو فیصلہ خاندان کے سمجھدار بزرگ کر سکتے ہیں، ناسمجھ اولاد
کا فیصلہ اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا، لیکن اگر کوئی ناسمجھی کر ہی
بیٹھے تو کیا اس کی وہ سزا ہے جو ہماری پنچائتوں میں سنائی جاتی ہے؟ کیا
ثقافت و روایات کو توڑنا شریعت سے بھی بڑھ کر ہے؟ پسند کی شادی کا اختیار
تو خود شریعت نے دیا ہے۔ پسند کی شادی کے معاملے میں قتل کرنے والے اور اس
کی حمایت کرنے والے اسلام کے اصولوں سے بالکل نابلد ہیں، لیکن افسوس کی بات
ہے کہ اس جہالت اور سفاکیت کے خلاف آواز اٹھانے کا کام چند غیرملکی این جی
اوز کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، جو کہ ایسے واقعات کو اسلام کی تعلیمات کی طرف
منسوب کر کے اسلام کے اصولوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتی ہیں، حالانکہ دیگر
تمام معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی اسلام کی مکمل رہنمائی موجود ہے،
لیکن اس حوالے سے معاشرے کو مستند معلومات دینا جن کی ذمہ داری ہے، وہ اہل
علم خاموش ہیں۔ اگر اہل علم کھل کر واضح طور پر اس معاملے میں بھی اسلام کے
روشن قوانین بتلائیں تو قوی امید ہے کہ ایسے واقعات میں کافی حد تک کمی
واقع ہوجائے اور کسی کے لیے اسلام پر انگلی اٹھانے کی گنجائش ہی نہ رہے گی۔
اسلام مکمل ضابطہ حیات، ایک معتدل اور دین فطرت ہے، جس کی تعلیمات بہت واضح،
جس کے تمام احکام افراط وتفریط سے پاک، انسان کے فطری جذبات وخواہشات کی
رعایت کے ساتھ حد سے تجاوز کی ممانعت کے اصولوں پر دائر ہیں۔ جنس مخالف کی
طرف رغبت اور قلبی میلان انسان کی فطرت میں شامل ہے، جس سے اسلام نے کلی
طور پر منع نہیں کیا۔ اگر ناجائز طریقے سے اپنی خواہشات کی تکمیل سے منع
کیا ہے تو انسان کی اس ضرورت کے لیے نکاح کی صورت میں ایک بہترین جائز
طریقہ بھی فراہم کیا ہے اور نکاح کے معاملے میں مرد اور عورت کو پسند اور
ناپسند کا پورا اختیار بھی دیا ہے، تاکہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے ہنسی
خوشی گزارسکیں۔ شادی کے معاملے میں مکمل اختیار والدین کو نہیں دیا گیا کہ
وہ اپنی پسند اور نا پسندکو اولاد پر مسلط کریں ، جبکہ اولاد کو بھی اس
معاملے میں تلقین کی کہ والدین کے ساتھ مشاورت ضرور کرلیں، کیونکہ والدین
بہت کچھ اولاد سے بہتر سمجھتے ہیں۔ فریقین کے لیے رہنمائی ہے کہ وہ اس
نہایت اہم عائلی مسئلہ کو شریعت اسلامیہ کے دیے گئے احکامات کی روشنی میں
طے کریں کہ جانبین کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ شریعت اسلامیہ کا مطالعہ بتلاتا
ہے کہ مرد کسی بھی ایسی عو رت سے شادی کرسکتا ہے جو اس پر ہمیشہ کے لیے یا
کسی عارض کی وجہ سے وقتی حرام نہ ہو اور عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ
شادی کے لیے ایسے کسی مرد کا انتخاب کرسکتی ہے جس سے نکاح شرعاً حرام نہیں،
جبکہ نکاح سے پہلے مرد کا اس عورت کو دیکھنا جائز ہے جس سے وہ نکاح کر رہا
ہے اور اسی طرح عورت کا بھی اس مرد کو دیکھنا جائز ہے جس سے وہ نکاح کر رہی
ہو۔ یہ سب اس لیے ہے کہ شادی کے بعد ناپسندیدگی کی تلخیاں ان کی زندگی میں
زہر نہ گھول سکیں ۔ شریعت اسلامیہ چاہتی ہے کہ نکاح ہمیشہ کے لیے ایک
پائیدار محبت والا رشتہ ثابت ہو، اس لیے وہ ابتدا ہی میں ناپائیداری کے
تمام دروازوں کو بند کرتی ہے۔
انسان شادی کرنے میں آزاد ہے، لیکن اسے خواہ مخواہ اپنے والدین کو نظر
انداز کر کے شادی نہیں کرنی چاہیے۔ نکاح صرف دو افراد کے ملن کا نام نہیں،
بلکہ اس میں دو خاندانوں کے آپس میں تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ اگر خاندان کے
بزرگوں اور بڑوں کو نظر انداز کر کے نکاح کیا جائے گا تو اس میں ان کی
دعائیں، دلی تمنائیں، شفقتیں اور سرپرستی شامل نہیں ہو گی، جس سے زوجین کو
قدم بقدم مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پسندکی شادی میں بہت سی خرابیاں اس
لیے بھی پیدا ہوتی ہیں، کیونکہ اکثر و بیشتر پسند کی شادی کرنے والوں کو
خاندان سے الگ کردیا جاتا ہے اور جب کوئی بڑا سمجھانے والا سر پر نہ ہوتو
چھوٹی چھوٹی گھریلو لڑائیوں کی نوبت بھی طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ ہمارے
معاشرے میں پسند کی شادی کو اس قدر معیوب سمجھا جاتا ہے کہ ایک دوسرے کی
پسند معلوم ہونے پر اچھے بھلے معقول رشتوں سے بھی انکار کردیا جاتا ہے ،
حالانکہ فطری اعتبار سے شادی ہمیشہ پسند سے ہی ہوتی ہے اوراسلام نے بھی اس
پسند اور نا پسند کا خیال رکھا ہے۔ اگر کسی شادی میں دونوں کی پسند شامل
نہیں تو شریعت کی نگاہ میں وہ معتبر نہیں ہے، شاید اسی لیے نکاح سے پہلے
دونوں کا ایک دوسرے کو قبول کرنا ضروری ہے۔ مرد تو خود بااختیار ہوتا ہے
اور وہ اپنی پسند سے شادی کر لیتا ہے، اسلام نے لڑکی کی پسند کا بھی لحاظ
رکھنے کا حکم دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ
کیا جائے، بلکہ ایک دفعہ ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا، اس نے
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا نکاح فسخ
کردیا تھا۔اسلام کی اتنی واضح تعلیمات کے بعد اگر کوئی اسلام کے روشن
اصولوں پر انگلی اٹھاتا ہے یا اپنی فرسودہ روایات کو اسلامی روایات پر
ترجیح دینے کی کوشش کرتا ہے تو یقینا وہ غلطی پر ہے۔ |