اﷲ کے بھروسے پر

میں ہوٹل کی لابی میں بیٹھا اپنے سمارٹ فون پر مختلف چیزیں دیکھ رہا تھاکہ ایک نوجوان اسی صوفے پر میرے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔ مجھے شکل وصورت سے پاکستانی لگا۔ تھوڑی دیر تو وہ چپ بیٹھا مجھے فون سے کھیلتے دیکھتا رہا پھر جانے کیا سوچ کر مجھ سے مخاطب ہوا۔ آپ کہاں سے ہیں۔لاہور سے اور آپ۔میں نے کہا۔ جواب ملا کشمیر سے۔ میں نے پوچھا مظفرآباد سے۔ہنس کر بولا نہیں سرینگر بھارتی کشمیر سے۔ سرینگر کا نام سنتے ہی میں نے فون رکھا اور پوری توجہ سے اس سے گفتگو کرنے لگا۔اس کا نام کاشف تھا، عمر پچیس اور تیس کے درمیان ہو گی۔ میں نے پوچھا کہ اب کشمیر میں لگتا ہے کہ صورتحال کچھ بہتر ہوگئی ہے۔

اس کے چہرے پر بڑی کرب بھری مسکراہٹ ابھری اور بولا،کیا کریں۔ بے آسرا لوگ کب تک اکیلے لڑتے رہیں ۔ ایک سو بیس 120) ( دن سے زیادہ ہم نے کرفیو کا سامنا کیا ہے۔بھارت کی فوج کے جدید اسلحے کے سامنے ڈٹے رہے۔نوجوان ہی نہیں عورتیں، بچے، بوڑھے سبھی بھارتی ظلم اور جبر کے خلاف گھروں سے باہر نکلے رہے۔ سو(100) سے زیادہ اپنے جوانوں کو قربان کیا ہے۔ کب تک لڑتے رہیں۔ کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں۔کشمیر کے لوگوں کا گزارہ تجارت پر ہے اور ان کی تجارت کا سارا انحصار سیاحت پر ہے۔سیاح آتے ہیں، خریدوفروخت کرتے ہیں اسی سے وادی کے لوگوں کا چولھا جلتا ہے ۔افراتفری ہو گی تو سیاحت نہیں ہوگی، سیاحت نہیں ہو گی تو تجارت نہیں ہو گی، تجارت نہیں ہو گی تو ہمارے گھروں میں کھانے کو کچھ نہیں ہو گا۔ فقط بھوک ہو گی۔ افلاس ہوگی۔ہمارے چولہے نہیں جلیں گے۔ اور یہی ہو رہا ہے۔

میرے والد کا پشمینہ کا کام ہے۔ ہم سارے بھائی ان کے ساتھ ہی کام کرتے تھے ۔بھلے وقتوں میں ہم نے بہت کمایا مگر تب جو کمایا تھا ۔ اب وہی کچھ پاس ہے ۔ موجودہ حالات سے تنگ آ کر میرے دو بھائی کشمیر سے چلے گئے ہیں۔ وہ اس بیچارگی میں کچھ نہ کچھ کما کر بھیج دیتے ہیں۔ ماں اور باپ کسی حال میں اپنا گھر چھوڑنے کو تیار نہیں۔ چھوڑیں بھی کیسے ۔ سارے رشتہ دار وہاں ہیں ۔ میری بہنیں وہیں قرب وجوار میں ہی بیاہی ہوئی ہیں۔ بزرگوں کی قبریں بھی وہیں ہیں۔ یہ وہ بندھن ہیں کہ جن کی وجہ سے میرے ماں باپ اپنا آبائی وطن نہیں چھوڑ سکتے اور ہم انہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔یہی مجبوریاں ہیں کہ ان نامساعد حالات کے باوجودہم لوگ وہیں بیٹھے ہیں۔کل ایک بندہ ملا تھا۔ مجھے کہہ رہا تھاڈٹے رہو۔ میں نے پوچھا کیوں کس آس پر۔ مشورے مت دو۔ ہمیں تو سب لوگ مشورے ہی دیتے رہے ہیں۔ کسی نے کبھی کوئی مدد نہیں کی۔ پہلے بھی اﷲکے بھروسے پر سبھی قربانیاں دی ہیں اب بھی اسی کے بھروسے پر جو ہو گا کریں گے۔ ہمیں پاکستان سے تو پہلے بھی امید کم تھی اور اب بھی کوئی نہیں۔ عملی کیا ، سفارتی محاذ پر بھی پاکستان کا کردار ہمارے لئے حوصلہ شکن ہے ۔

اس نے ایک لمبی سانس لی اور پھر کہادوسرے تو کیا ہمارے اپنے لیڈروں کا کردار بھی عجیب ہے۔ محمودہ مفتی 2011 میں بی جے پی (BJP) کے خلاف نعرے لگاتی تھی۔ کہتی تھی کہ (BJP) کو کشمیر میں گھسنے نہیں دوں گی مگر اقتدار کی خاطر اس نے سب سے پہلے(BJP)سے ہی معا ہدہ کیا اور صحت کی وزارت انہیں دے دی۔ اب بھارت جو کچھ کر رہا ہے اس میں اس کی مرضی شامل ہے۔ اسے تو صرف اپنے اقتدار ہی سے پیار ہے۔اس نے اپنا مطلب حاصل کر لیا ہے اب اسے عوام سے کیا۔

وادی میں بنکوں کا دائرہ کار وسیع اور مربوط نہیں۔ حال ہی میں بھارتی حکومت نے کرنسی نوٹ منسوخ کر دئیے تھے ،وادی کے لوگوں کے پاس جو رقوم تھیں وہ زیادہ تر انہوں نے گھروں میں رکھی ہوئی تھیں۔ بنک تو دور دور ہیں ۔ پھر زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے نہیں۔ بنکوں میں کیسے رکھتے۔ انہوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی ۔ مودی کہتا ہے کہ میرے فیصلے کی مخالفت کرنے والے پاکستان کے ایجنٹ ہیں۔ ساری وادی مخالفت کر رہی ہے کیا سبھی پاکستانی ایجنٹ ہیں۔ اپنے بارے کہو،تم جو ہر موقع پر نوازشریف سے گلے مل رہے ہوتے ہو۔ اس کی نواسی کی شادی میں سب کام چھوڑ کر شریک ہوتے ہو اصل میں تم ایجنٹ ہو۔کر لو مزید جو ظلم کرنا ہے ۔ ہم قربانیا ں دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے ۔ہمیں کسی مدد کی امید ہے نہ ضرورت۔ ہمیں اﷲ پر بھروسہ ہے۔ وہ ہماری ضرور سنے گا۔وہ ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے گا۔یہ کہتے ہوئے یکایک وہ کھڑا ہو گیااور دروازے کی طرف چل پڑا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ اس کی نظریں ہوٹل کے دروازے کے باہر مسجد نبوی کے گنبدوں پر مرکوز تھیں اور وہ بڑے جذباتی انداز میں آہستہ آہستہ اپنے آخری فقرے دھرا رہا تھا، ہمیں اﷲ پر بھروسہ ہے، وہ ہماری ضرور سنے گا، وہ ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے گا۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500561 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More