سب سے پہلے تحقیق کی جاتی ہے اور تحقیق سے بھی پہلے ایک
سوچ کارفرما ہوتی ہے ۔اس سوچ کے اندر کوئی تعمیری یا تخریبی لہریں اٹھ رہی
ہوتی ہیں ۔تحقیق کرنے والےاگر سائنسدان ہوں اور طب کے میدان میں ہوں یا
طبیعات کے میدان میں یا کسی اور شعبے میں۔پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ
سائنس دان تحقیق سے تخلیق کے دور میں داخل ھو جاتے ہیں ۔تخلیق پھر کئی
مرحلوں سے گزر کر ایجاد کہلاتی ہے ۔اگر یہ ایجاد کوئی دوائی ھو تو ڈاکٹر و
ں کے لیے آسانی اور مریض کے لیے خوش خبری بن جاتی ہے ۔اگر یہ ایجاد سفر کے
متعلق ھو تو انسان خچر و گھوڑے کی بجائے ریل گاڑیوں ،موٹر کاروں اور ہوائی
جہازوں میں سفر کرنے لگتا ہے ۔مہینوں کی مسافت دنوں اور گھنٹوں میں طے ہوتی
ہے ۔لوگ خط و کتابت بھول جاتے ہیں ۔ویڈیو کال ،ایس ایم ایس سوشل میڈیا کا
دور آجاتا ہے۔۔آج کی دنیا میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگواے جاتے ہیں ۔خطرناک
بیماریوں کا علاج ممکن ھو چکا ہے ۔ان سارے کاموں کے لیے طب کے سائنس دانوں
نے اپنا دن رات ایک کیا ہوا ہے ۔ماہرین طبیعات نے انسان کو زمین سے اٹھا کر
چاند پر پہنچایا ۔خلا کی سیر کرائی اتنے بڑے اور وزنی جہاز ہواؤ ں میں اڑا
ئے سمندر کی لہروں کو بڑے بڑے بحری جہازوں کے غلام بنا ئے ۔انہی سائنس
دانوں کی بدولت انسان خط و کتابت سے تار اور تار سے ٹیلیفون اور انٹرنیٹ کے
دور میں داخل ہوا لوگوں کے گھروں میں سہولیات آ ئیں سب سے بڑی سہولت بجلی
کی ایجاد ہے ۔یہ صرف چند مثالیں ہیں اور ھم سلام پیش کرتے ہیں ان لوگوں کو
جو بنی نوع انسان کے آرام و راحت کے لیے نئی نئی ایجادات کر رہے ہیں ۔
میدان راحت کے علاوہ ایک میدان اور بھی ہے جہاں پر پہلے غلیل نیزے اور
تلوار ہوتی جن کی جگہ اب کلاشنکوف ،گرنیڈ miz میزایل ،راکٹ ،کارپٹ بم ،کلسٹر
بم ایٹم بم اور پلاٹینم بم نے لے لی ہیں ۔پہلے زمانے میں جب لڑائی ہوتی تھی
تو تلوار سے ایک وقت میںایک آدمی مرتا تھا۔پھر بندوق اور کلاشنکوف سے ایک
وقت میں بیسیوں آدمی مرنے لگے۔جب بات ایٹم بم تک پہنچی تو شہر کے شہر
لاکھوں لوگ چند سیکنڈ و ں میں لقمہ اجل بن گئے ۔ہیروشیما اور ناگا ساگی کی
تاریخ سب کے سامنے ہے ۔
سائنس دان جب اپنی تحقیق مکمل کر تا ہے تو پھر ایک اور مرحلہ درپیش ہوتا ہے
جسے ٹیسٹ ہیں یعنے اپنی تخلیق کو کسی تجربہ گاہ سے گزار کر اس کی حقیقت کا
اور نتا ئج کا دنیا کو باور کروایا جا سکے ۔تو جو دوائی بنی نوع انسان کی
بیماری کے لیے ایجاد ہوئی ہے اب اس کا براہ راست انسان پر استمال کہیں
نقصان کا با عث نہ ھو لہٰذا ان تمام شبھات کو دور کر نے کے لیے سب سے پہلے
بندروں اور چوہوں پر اس کا استمال کیا جاتا ہے اور نتا ئج اخذ کئے جاتے جب
ہر نقص سے پاک ھو تو بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
ہر تحقیق پر سالوں سال لگ جاتے ہیں۔ایسے تمام سائنس دانوں اور محققین کو
اچھے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔لیکن جن دماغوں نے ایٹم بم تخلیق کیۓ ۔انسانیت
کی بجائے اور راستے پر چل پڑے ۔ان کو اب میز ایل ،جہازوں اور بموں کو ٹیسٹ
کر نے کے لیے تجربہ گاہ کی ضرورت تھی۔ان کا استمال اور تجربات چوہوں اور
بندروں پر تو نہیں ھو سکتے تھے ۔اگر چہ سمندر میں ایٹمی تجربے ھو جاتے ہیں
لیکن اس میں مزہ نہیں ہوتا اور کوئی فائدہ بھی نہیں ملتا ۔
یہ بم اور اسلحے تو انسانوں کے لیے بنے تو کیوں نہ صحیح نتائج کے لیے کچھ
انسانوں پر تجربہ کیا جائے ۔اس کی افادیت کا بھی پتا چل جائیگا ۔اس کے لیے
ایسے تمام انسان موزوں ہیں جو امن محبت کو دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں ۔جو
انصاف چاہتے ہیں ۔جو گمراہوں کو صر ا ط مستقیم کی دعوت دیتے جو ایک اللہ
قرآن اورنبی پاک ص سے محبت رکھنے والے ہیں۔جو ظالموں کو انصاف کے کٹہرے میں
لانا چا ہتے ہیں جن کا شا ید یہ بھی مطالبہ ہے کہ سائنس دانوں نے اب تک بہت
کچھ ایجاد کیا ہے اگر محبت اور امن کا الہ بھی ایجاد کر لیں تو کیا ہی اچھا
ھو۔یہ سب لوگ امن کے دا ع ی ہیں مگر بے بس اور کمزور ہیں اور کمزور کو یہ
حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جی سکے ۔اسے طاقتور کی ماننی ہوگی ورنہ
۔۔۔۔ پھر دیکھنے والوں نے دیکھا پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں
کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن بے تحا شہ اسلحے کا استمال ہوا ۔جاپان کے شہر ہیرو
شما اور ناگا ساگی راکھ کے ڈھیر بن گئے ۔ذندگی کا نام و نشان مٹ گیا۔ان
تجربوں سے تسلّی نہ ہوئی تو ویت نام کا انتخاب ہوا ۔یو ں لگاجسے تجربوب پہ
تجربیں ھو رہے ہیں۔افغانستان ،عراق ،شام ،لیبیا ،کشمیر،فلسطین جیسے ملکوں
میں تجربہ گاہیں طاقت وروں کو ہر قسم کے کا تجربوں موقع کیا کمال کے تجربے
کہیں افغانستان میں شادی بیاہ ھو رہی ھو تو اوپر سے بمباری کر لی ۔پائلٹ نے
شادی کی خوشی منانے والو کو خاک و خون میں تبدیل ہوتے دیکھا تو اپنے تجربے
پر بڑا محظوظ ہوتا دشت لیلیٰ کے وہ تیرا ہزار شہدا دنیاابھی بھولی نہیں
کنٹینر وں میں ٹھو نس کر دشت لیلیٰ کے ریگزار میں ان پر کیسے اپنے
اسلحے تجربوں استمال کیا ہوگا اور کیسے امریکیوں نے اپنے تجربے پر قہقہے
لگائے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا کر کتنے لاکھ لوگ آج تک ہلاک کر دئے گئے
ہیں۔فلسطین کی ناکہ بندی اور لیبیا کی صورتحال ھو یہ سب کچھ تجربہ گاہوں
میں ایسے ہی ہوتا ہے ویسے تو پورا شام اور خاص طور پر حلب شہر میں تو
امریکی ،اسرائیلی ،روحانی ،پیوٹن اور اسد نے ایسے ایسے تجربات کیۓ کہ دنیا
انگشت بدنداں لیکن خیر فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔یہ انسان ہیں اور پھر
مسلمان ہیں۔اگر کتے بللیاں ہوتے تو دنیا میں ہنگامہ ب ر پا ہوتا ۔ان کو
بچانے کتنی تنظیمیں اگے بڑھتیں ۔ان تجربات پر اباما ،پیوٹن ،روحانی،بشار
الاسد اور اسرائیل کو نوبل انعام ملنا چاہیے آنگ سانگ سوچی کو بھی نوبل
انعام مل چکا ہے۔اس نوبل انعام کے ساتھ روہنگیا ئی مسلمانوں پر تجربات کرنے
ان پر زمین تنگ کرنے تجربوں اجازت نامہ بھی ضرور شامل ہوگا ۔کیوں کہ
امریکا،روس اور اسرائیل کو ابھی شام میں تجربات سے فرصت نہیں ۔لہٰذا آنگ
سانگ سوچی روہنگیا ئی مسلمانوں پر اور نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں اپنے
ظلم کے پرمٹ پر کام جاری رکھے ھوۓ اور اہم بات جب کسی ملک پربمباریوں ،میزائلوں
کے تجربات اختتام کو پہنچتے ہیں پھر اسی ملک کو ان تجربات اور اسلحہ جات کی
قیمت بھی ادا کرنی پڑتی اڈے بھی دینے پڑتے کٹھ پتلی حکومتیں بھی بنا ئی
جاتی ہیں ۔پھر نئے تجربات کے لیۓ نئی تجربہ گاہیں ڈھونڈھنے کی منصوبہ بندی
شروع ہوجاتی ہے ۔ان تمام تجربوں کے دوران اقوام متحدہ خواب خرگوش کے مزے
لیتا ہےیا جاگ کر ظلم و ستم کے بادشاہوں کو شا باشیں اور تھپکیاں دینا شروع
کرتا ہے۔جب کہ او آئ سی صرف سوچتی رہتی ہے۔ |