ویسے تو جرائم پیشہ عناصر کے اندر انسانیت نام کی کوئی
چیز نہیں ہوتی مگر کچھ ایسے عناصر بھی ہیں جن کے کرتوت دیکھ کر شیطان بھی
شرما جاے ۔ایسے ہی کچھ جرائم پیشہ اور عادی مجرموں کا میں اب ذکر کرنے والا
ہوں جن کی حرکت سے زمین تو کیا آسمان بھی کانپ گیا ۔ واردتیں تو اب معمول
کی بات ہیں روز ٹی وی پر ہزاروں ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں جن کو ہم
معمولی خبر سمجھ کر افسوس کر کے چپ ہو کر اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں
۔
کل رات چھانگا مانگا کے علاقے دستگیر کالونی ایک ایسا دلخراش واقعہ پیش آیا
کہ میں 200 کلو میٹر دور بیٹھ کر بھی خون کے آنسو رو رہا ہوں ۔ دل کرچی
کرچی ہو چکا ہے اور سوچ رہا ہوں اللہ کریم نے انسان پیدا کیے تھے پھر یہ
حیوان اور شیطان کیسے بن گئے کوئی اتنا ظالم بھی ہو سکتا ہے کہ محض چند
روپوں کی محض ایک پارسا اور عالم دین کی جان لے لی جاے یہ سوچ سوچ کر دماغ
پھٹ رہا ہے۔
قاری طاہر محمود صاحب پیدائشی نابینا تھے اور راولپنڈی کے کسی گاوٴں کے
رہنے والے تھے . یتیمی اور غربت کے باعث اسلامی تعلیم اسی گاؤں سے حاصل کی
اور قران پاک حفظ کیا فقہ احادیث کا علم حاصل کیا ۔نابینا ہونے کے باوجود
انھوں نے بہت جلد اپنی اسلامی تعلیم مکمل کی اور اپنے روزگار کے سلسلے میں
چھانگا مانگا کے علاقے میں امام مسجد کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دینے
لگے ان کے لب و لہجے اتنا شیریں تھا کہ وہ بہت جلد لوگوں کے دلوں میں اپنا
گھر کر گئے ان کے پیچھے نماز پڑھ کر لوگوں کو ایک خاص قسم کی راحت ملتی تھی
۔یہ اللہ کے کلام اور ان کے مزاج کی بدولت تھا کہ وہ اپنی لمبی لمبی دعاؤں
میں ہمیشہ لوگوں کی فلاح اور علاقے کی بہتری کے لیے التجا کرتے تھے ۔ان کو
رہنے کے لیے مسجد کے ساتھ ایک حجرہ دیا گیا تھا ہر نماز کے بعد وہ وہیں
تشریف لے جاتے تھے ان کو دیکھتے ہی دیکھتے بارہ سال گزر گئے اس دوران انھوں
نے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کیا کچھ رقم جمع کی اور اس رقم سے تین مرلے کا
پلاٹ خریدا تاکہ وہ اپنا گھر تعمیر کر سکیں ان بارہ سالوں میں حافظ صاحب نے
ایک ایک روپیہ کر کے جو رقم جمع کی تھی اب وہ اس سے اپنا گھر تعمیر کرنا
چاہتے تھے مگر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا وہ ہمیشہ کی طرح نماز
پڑھا کر اپنے حجرے میں تشریف لے گئے اور ان کی جمع کی ہوئی رقم جو دو لاکھ
بتائی جاتی ہے وہ بھی ان کے پاس ہی تھی ۔حافظ طاہر صاحب بے شک نابینا تھے
مگر ان کے دل کی آنکھیں روشن تھی وہ آواز سے لوگوں کی پہچان اور ان کی
باتوں سے نیت کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے ۔
حافظ صاحب کے پاس پیسے ہیں اور کہاں موجود ہیں یہ بات بہت قریبی لوگوں کے
علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا اب وہ بات بتانے لگا ہوں جس کو سن کر پورا
چھانگا مانگا رونے لگا اور پورے شہر کی فضا سرد ہو گئی ۔
حافظ صاحب اپنے حجرے میں آرام فرما رہے تھے کہ اچانک کوئی ان سے ملاقات
کرنے آیا انھوں نے تردد نہ کیا کیونکہ ان کی خدمات دن رات میسر تھی ان
درندہ صفت انسانوں نے حافظ صاحب کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ اس دھرتی کے سب
شیطان بھی کانپ جائیں گے انھوں نے حافظ صاحب جن کی آنکھیں بچپن سے ہی نہیں
تھی ان کو بےدردی سے پکڑ کر ان کی شہ رگ پر تیز دھار آلے سے کاٹ دی اور ان
کو زدوکوب کا شانہ بنا کر ان کی تمام جمع کی ہوئی رقم لوٹ کر فرار ہو گئے ۔
یہ کیسے قاتل تھے یہ کس صدی کے چور تھے یہ کون سے فراڈ یے تھے جو اتنی بے
دردی سے حافظ طاہر محمود صاحب کا گلہ کاٹ کر چل دیئے ۔حافظ صاحب تو اب جنت
میں آرام فرما رہے ہوں گے مگر چھانگا مانگا کا یہ پورا علاقہ شاید بہت دنوں
تک سو نہ سکے ان کی مسجد سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند تو ہونگی مگر حافظ
صاحب نہیں رہے انھوں نے آخری دم تک اپنی زندگی اللہ اور رسول کے لیے وقف کی
اللہ کے قرآن کو دل میں محفوظ کیا اور آج تک ہزاروں بچوں کو تعلیم دے چکے
تھے آج اس مسجد میں فجر کی نماز آہوں اور سسکیوں میں ادا تو ہوئی مگر حافظ
صاحب مسجد کے گیٹ پر پورے علاقے سے سوال کر رہے تھے کہ میں یتیم تھا لاوارث
تھا تم سب ہی میرے اپنے تھے یہی میرا گھر تھا تم سب ہی میرے ماں باپ تھے
پھر سب کے ہوتے ہوئے مجھے کیوں مارا گیا ؟ کیوں اتنی بےدردی سے قتل کیا گیا
؟
میں اہل محلہ، اہل اقتدار سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ہم اتنے بے بس ہیں کہ
ہماری مسجدوں کے نابینا اماموں کی بھی شہ رگ کاٹ کر شہید کر دیا جاے گا اور
ہم سب خاموش تماشائی بنے رہیں گے ۔ہم کب تک چپ رہیں گے ۔کب تک جرائم پیشہ
عناصر اپنی مرضی کرینگے ؟
مقامی پولیس نے لاش کو قبضے میں لے کر تفتیش شروع کر دی ہے مرحوم کی لاش
پوسٹمارٹم کے بعد ان کے بھائی جو ٹیکسلہ کی ایک مسجد کے امام ہیں ان کے
حوالے کر دی جاے گی رپورٹ آے گی کچھ دن تک بات ٹھنڈی ہو جاے گی ۔عوام اپنی
اپنی دنیا میں مگن ہو جائیں گے مگر حافظ صاحب کا سوال تب بھی سوال رہے گا
مجھے کیوں قتل کیا گیا ؟
میرا جرم یہ تھا ؟
امید ہے پولیس ایک دو دن میں ان کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جاے
گی پھر اہل علاقہ ایسے درندوں کے چہرے بھی دیکھ سکیں گے جن کے لیے پیسہ
قیمتی جان سے زیادہ اہم ہے ۔
حافظ صاحبان چلتا پھرتا قرآن ہوتے ہیں اور ان ظالموں نے اپنا قرآن شہید کر
دیا ۔
میں پولیس کی اعلیٰ قیادت سے اپیل کرتا ہوں ان درندوں کو جلد سے جلد
کیفرکردار تک پہنچایا جاے ۔ |