ہندو خاتون کی واپسی

جناب ظفر خان نیازی نے یہ داستان بڑے دلسوز انداز میں بیان کی۔ وہ چند برس قبل ریڈیو پاکستان میں اسلام آباد سٹیشن کے ڈائریکٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آج بھی کسی تصنیف کی نوک و پلک سنوار رہے ہیں۔ تعلق میاں والی سے ہے۔ آج اسلام آباد میں رہتے ہیں۔انھوں نے مرحوم نصراﷲ خان نیازی وکیل موسے خیل کے حوالے سے علووالی ضلع میانوالی کی ایک ایسی ہندو خاتون کا ذکر کیا جس نے میاں والی کے ایک مسلم نوجوان سے شادی کر لی تھی - اس کا باپ کئی بار پولیس لیکر اس کی بازیابی کیلئے آیا - وہ جب بھی آتا وہ خاتون روپوش ہو جاتی ، اور پھر ایک دن اس کو اس کی ساس نے پکڑوا دیا - وہ مرغی کے ٹوکرے تلے چھپی تھی اور اس کی ساس نے کہا ذرا ٹوکرا تو دیکھو - اس پر علو والی کے جناب اعجاز حسین نے میسیج کیا کہ علو والی میں ایک بزرگ زندہ ہے جس نے ہندو خاتون سے شادی کی تھی - اس پر مزید رابطے ہوئے تو عزیزم ذوالفقار بھچر سامنے آئے - وہ میرے فیس بک فرینڈ ہیں ، وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں اور پپلاں تحصیل بار کے ممبر ہیں - ذوالفقار بھچر نے بتایا کہ وہ بزرگ ان کے والد ہیں - بھچر صاحب میری پوسٹ پڑھ چکے تھے ، کہنے لگے ، میرے والد اس موضوع پر بات نہیں کرتے لیکن میں ایک دفعہ آپ کیلئے پھر درخواست کروں گا - مزید پتہ چلا ان کے والد صاحب کا نام ملک خدا یار بھچر ہے ، 1926 کی پیدائش ہے - میں سمجھا شاید اس کہانی کا اصل کردار مل گیا - میں انتظار میں رہا کہ وہ پوسٹ آپ ڈیٹ کروں گا - چند دن کے انتظار کے بعد وکیل صاحب نے میری بات اپنے والد سے کرائی تو پتہ چلا کہ یہ تو مختلف اور نئی کہانی ہے - اﷲ بہتر جانتا ہے 1947 کی لوٹیوں میں اور کتنی ایسی کہانیاں ان سنی رہ گئیں ، کتنی ہندو اور مسلمان خواتین آزادی کی بھینٹ چڑھ گئیں ، کتنے گھر برباد ہوئے اور خون کی کتنی ندیاں بہہ گئیں - 47 میں یوں لگتا تھا انسان وحشی ہوگیا ہے ، اس میں ہندو مسلم سکھ کی کوئی تفریق نہ تھی - پاکستان میں عام لوگ اسے آزادی کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن میانوالی کے عوام ان واقعات کے پس منظر میں 1947 کے سال کو لوٹیوں کا سال کہتے ہیں ، لوٹیاں یعنی لوٹ مار - اس دور میں جو لوٹ مار ہوئی وہ دونوں طرف کی اقوام کی گھٹی میں پڑ گئی اور جو قتل و غارت ہوئی اس نے انسانیت کا سینہ فگار کردیا اور اس کا بہتا خون ابھی تھما نہیں ہے - اس نے دونوں ملکوں کے درمیان جو نفرت کی خلیج پیدا کر دی ہے ، اسے ستر برس میں بھی نہیں پاٹا جا سکا -

ملک خدا یار بھچر سے بات ہوئی تو ملک صاحب نے نہایت دھیمے اور پرسکون انداز میں باتیں کیں ، میرے سوالات کے جواب عنایت کئے - اس وقت وہ نوے برس کو کراس کر چکے ہیں ، صحت اور حافظہ ان کا ٹھیک ہے ، کچھ باتیں بھول گئے ہیں ، بڑی خندہ پیشانی سے ہر سوال کا جواب دیا - ان کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ جب 1947 کی لوٹ مار مچی تو خدا یار کی عمر 21 برس تھی- سارے ضلع میں ہرنولی کے ہندو قلعہ بند تھے اور مورچوں میں رہ کر برابر کا مقابلہ کر رہے تھے - یہ باتیں شام کے وقت علو والی کے چوکوں پر بیٹھ کر لوگ کرتے تھے - خدا یار نے سوچا دیکھا جائے وہاں کیا ہو رہا ہے - اس غرض سے اس نے ہرنولی کا رخ کیا - ہرنولی ان سے بارہ چودہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے - فریڈم ایٹ مڈ نائٹ میں ہرنولی کے ہندووں کا ذکر کیا گیا ہے - ہرنولی میں ایک چھوٹا سا قلعہ بھی تھا - اب وہ قلعہ مسمار ہو چکا ہے - یہاں کے ہندووں نے آٹھ دن تک مقابلہ کیا تھا - بہرحال جب نوجوان خدا یار اپنے ایک ساتھی کے ساتھ وہاں پہنچا تو ہنگامہ ہو چکا تھا اور خون خرابے کے بعد لاشیں بکھری پڑی تھیں - اس کی نظر سب سے پہلے ایک مردہ عورت پر پڑی جس کے سینے سے چمٹا ہوا ایک شیر خوار بچہ دودھ کیلئے اپنی مردہ ماں کی چھاتیاں نوچ رہا تھا - یہ دلدوز منظر دیکھ کر خدا یار کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ سوچنے لگا ، کیا انسان اتنا گھٹیا بھی ہو سکتا ہے - اسی دکھ کے عالم میں اس نے ایک درخت کے تنے سے اپنا ماتھا ٹکا کر رونا شروع کر دیا - اسے دیکھ کر ایک ہندو عورت بولی ، تم کہاں کے رہنے والے ہو - ملک خدا یار نے بتایا علو والی کا - - وہ چوبیس پچیس سال کی بہت خوبصورت عورت تھی ، وہ بولی ، میرا سارا پریوار مارا گیا ہے ، مجھے اپنے ساتھ لے جاو - ورنہ وہ مونچھوں والے لوگ جو کسی اور علاقے سے آئے ہیں مجھے لے جائیں گے - یہ مونچھوں والے چھدرو کے لوگ تھے جو ہرنولی کو لوٹنے کی غرض سے آئے ہوئے تھے - خدا یار کچھ دیر رکا تو وہ بولی ، تم میرے وطنی ہو - مجھے اپنے ساتھ لے جاو - مجھ سے خاندان تو چھن گیا ، مجھ سے میرا وطن تو نہ چھینو - خدا یار نے یہ سن کر فیصلہ کر لیا کہ وہ اس کو لے جائے گا ، سو اس عورت کا ہاتھ پکڑا اور چل پڑا - عورت نے کہا سیدھے رستے سے نہیں جائیں گے - ایک جگہ پر آگے کھڑے لوگوں کو دیکھ کر عورت نے خدا یار سے کہا ، اب کوئی ترکیب نکالو ورنہ وہ تمہیں بھی مار ڈالیں گے اور اتنی لاشوں میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے گا - خدا یار نے اپنے سے آگے کے لوگوں کو اونچی آواز دی اور کہا ، ٹھہرو ، مجھے ساتھ لیتے جاو - بلوائی سمجھے اس کے ساتھ اور بہت سے لوگ ہیں اور اس کے راستے سے ہٹ گئے - خدا یار اس کو لے کر پیدل اپنے گھر علو والی پہنچ گیا - علو والی میں خدا یار کی والدہ نے اس خاتون سے کہا ، تم ہماری بیٹی ہو - یہاں بے فکر ہو کر رہو - تم اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر سکتی ہو - جب بھی موقع ملا تو تمہیں بحفاظت بھجوا دیں گے -وہ خاتون بولی ، مذہب دھرم ، رشتے داروں کے ساتھ ہوتا ہے - مولوی صاحب کو بلواو اور مجھے کلمہ پڑھا کر میرا نکاح خدا یار سے کرا دو - یوں ہی کیا گیا اور اس خاتون نے خدا یار کو دل و جان سے اپنا شوہر تسلیم کر لیا - وہ خاتون دیکھنے میں بہت خوبصورت اور باتوں سے بہت سلیقہ شعار لگتی تھی - اس کے والدین کا اتہ پتہ تو معلوم نہ ہو سکا لیکن اس کی چال ڈھال اور رکھ رکھاو سے لگتا تھا وہ کسی سرکردہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے - ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ ملٹری پولیس پہنچ گئی جو اس طرح کی خواتین بازیاب کرا رہی تھی - پولیس کی لاری ایسی ہندو خواتین سے بھری ہوئی تھی - انہوں نے خدا یار سے اس خاتون کو طلب کیا - خاتون ان کے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھی - اس نے کہا اس کے سارے رشتہ دار مارے جا چکے ہیں ، وہ کس کے پاس جائے - ملٹری پولیس نے اسے سمجھایا لیکن وہ نہ مانی - پولیس کے ساتھ علو والی کا ایک ہندو اپنی بیٹی کے ساتھ آیا تھا - جب یہ خاتون نہ مانی تو اس کی بیٹی نے اکیلے میں اسے کچھ سمجھایا اور وہ چلنے پر تیار ہو گئی - خدا یار بتاتے ہیں معلوم نہیں اکیلے میں اس نے اسے کیا کہا کہ وہ ان کا کہنا مان گئی اور جانے کو تیار ہو گئی - پولیس اسے اپنے ساتھ لے کر چلی گئی اور یوں ملک خدا یار کی دنیا اجڑ گئی --میں نے ہندو خاتون کا نام پوچھا تو ملک خدا یار کو اس کا نام یاد نہیں تھا ، نہ ہی اس کے والدین کا اتہ پتہ معلوم تھا ، صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ ہرنولی کی تھی جس کے سارے افراد خانہ مارے گئے تھے -اس واقعے نے ملک خدا یار کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا - اس سے بڑھ کر ملک خدا یار کو رہ رہ کر اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ اس نے مردہ عورت کا بچہ کیوں نہ اٹھایا - وہ آج تک سوچتا ہے خدا جانے اس بچے کا کیا حشر ہوا ہوگا - یہ دکھ ملک خدا یار کو کبھی نہیں بھولا -اس کے بعد کچھ عرصہ بعد ملک خدا یار نے بنوں کی ایک خاتون سے شادی کی لیکن کچھ عرصہ کے بعد ہی جدائی ہو گئی - اس کے بعد اس کا رشتہ اور سلسلہ بہت عرصہ تک کہیں اور رہا ، وہ معاملہ بہت عرصہ اسی طرح چلنے کے بعد شاید رخصتی سے پہلے یا اس کے ساتھ ہی ناکام ہوگیا - ان رشتوں میں اس کی کوئی اولاد نہیں ہوئی - 1966 میں آکر ملک صاحب نے جو شادی کی وہ کامیاب ثابت ہوئی اور اس سے ان کی اولاد ہے -

ذوالفقار بھچر نے میری پوسٹ اور کال کے جواب میں بہت دلچسپ بات کہی - اس نے کہا ، کہ ہم سمجھے شاید ہمارا کوئی بھائی بہن انڈیا سے ہم سے رابطہ کر رہا ہے - اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں اس خاتون نے اس خاندان پر کتنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں -

اس ساری گفتگو سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس کہانی میں ساس کا کوئی منفی کردار نہیں اور نہ ہی اس خاتون کے باپ کا ذکر شامل ہے جس کا تذکرہ پہلی پوسٹ میں تھا کہ وہ کندیاں اسٹیشن پر اپنے باپ کی منتیں کر رہی تھی کہ اسے یہیں رہنے دو ، وہ بہت خوش ہے - علو والی میں زیادہ امیر ہندو تھے اور سب سے بڑا سیٹھ روچی نامی ایک ہندو تو ان کا پڑوسی تھا - روچی انتہائی اچھا اور دیالو شخص تھا - اس کا اپنا بڑا آباد کنواں تھا جو اب بھی علو والی میں روچی دا کھوہ کے نام سے مشہور ہے - اس نے کنویں پر عوام اور ان کے مویشییوں کیلئے پانی پلانے کا خاص بندوبست کر رکھا تھا - اس میں ہندو مسلمان کی کوئی تفریق نہ تھی - ملک صاحب نے بتایا کہ اس کے گھر پر حملہ ہوا تو ہم نے اسے اپنے گھر میں چھپا لیا اور کئی دن تک اپنے گھر میں چھپائے رکھا - لالچ نے لوگوں کو اندھا کر دیا تھا اور کسی کو روچی کی نیکی بھی یاد نہیں آرہی تھی - بہرحال وہ ان کی کوشس سے آخر کار بحفاظت انڈیا پہنچ گیا - اس نے جاتے یوئے ملک خدا یار کو ایک رنگین پیڑھا دیا تھا جو ابھی تک ان کے پاد اس کی نشانی ہے - ملک خدا یار کو اس بات کی بہت خوشی ہے کہ اس طرح روچی کی جان بچ گئی تھی - وہ کہتے ہیں میں ستر سال میں بھی ہرنولی کا وہ خوفناک منظر کبھی نہیں بھولا - میرے سامنے اب بھی وہ خون خرابے کا نقشہ آجاتا ہے اور پھر مجھے وہ بچہ یاد آجاتا ہے ، کہ کاش میں اس کو ساتھ اٹھا لاتا - اﷲ جانے اس کا کیا حشر ہوا ---ملک ذولفقار بھچر کہتے ہیں ھم خاندان والے آج تک اس عزت ماب خاتون کو نھیں بھولے کاش!آپ کے توسط سے اس کی کوئی خبر آئے-ٖظفر نیازی صاحب نے یہ داستان ایسے بیان کی ہے کہ آنکھیں بھر آئیں۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555053 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More