اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ کی ہمہ وقت کی تگ و دو کس
مقصد کے لئے ہے۔ تو کیا آپ اس سوال کا جواب ایک لفظ میں دے سکتے ہیں؟ میری
رائے میں جی ہاں ایسا ممکن ہے اور وہ لفظ ہے ‘‘ سکون ’’ ۔ ہم تعلیم، ملازمت
، شادی، کاروبار، اولاد کی پرورش، عبادات اور دیگر معاملاتِ زندگی اسی لئے
سرانجام دیتے ہیں کہ ہم خود اپنے لئے اور اپنے رُفقاء کے لئے پُر سکون
زندگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ آپ سب میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اسی تگ
ودو میں ہم جلد یا بدیر سکون حاصل کئے بغیر دُنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس
مقصد کو پانے کے لئے زندگی بھر ہم بے شمار طریقے اپناتے ہیں۔ کبھی دولت کو
سکون کا ذریعہ سجھتے ہیں۔ اور کبھی اقتدار و سیاست کی غلام گردشیں ہماری
گزرگاہ ہوتی ہیں اور کبھی مذہب کا سہارا لیتے ہوئے عبادات کرتے ہیں۔ چونکہ
ہمارا ذہن مادہ پرست ہوتا ہے، اس لئے ہم عبادات میں بھی خالق ِ کائنات کی
طرف متوجہ ہونے کی بجائے اپنے روزمرہ کے مسائل اور الجھنوں کے ساتھ خالق کے
روبرو حاضر ہوتے ہیں۔ اس لئے پُر سکون زندگی سے نا آشنائی ہمارے لئے تا
دمِ آخر شجرِ ممنوعہ ہی رہتی ہے۔ سائنس ہمارے لئے پُر آسائش زندگی کی
نوید لے کر آتی ہے۔ لیکن حیران کُن بات یہ ہے کہ مستند شماریات کے مطابق
وسائل و ایجادات کی بہتات نے ہماری بے سکونی اور پریشانیوں میں مزید اضافہ
کیا ہے۔ جی ہاں وہی سائنس جس نے ذرے کو چیر کر اس کے جوہر تک رسائی حاصل
کی، ‘‘ ناقابلِ تقسیم ذرے’’ ایٹم کو توڑ کر ‘‘نظر نہ آنےوالے’’ الیکٹران
کی موجودگی کا اعلان کیا گیا۔ زندہ جسم میں خلیے کا تجزیہ کرتے ہوئے جِین
تک جا پہنچی اور پھر من پسند کے بے موسمی پھل سبزیاں اگانا شروع کر دیں۔
تباہ کُن ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کی ایجادات کو ترقی اور فلاح کا
خوبصورت نام دیا گیا۔ انہی ہتھیاروں کی بدولت گزشتہ اور موجودہ صدی میں
کروڑوں بے گناہ اور معصوم انسان لقمہ اجل بنے۔ ترقی کی اس بے مقصد دوڑ ،
سائنسی ایجادات اور ترقی یافتہ اقوام کی پالیسیوں نے بنی نوعِ انسان کو
تباہی، بے چینی اور بے سکونی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ گزشتہ صدی میں عالمی جنگ
اول و دوئم، روس افغانستان جنگ، ایران عراق جنگ اور حالیہ صدی میں شام،
لیبیا اور دیگر ممالک میں جس طرح انسانی خون ارزاں گردانا گیا اس نے ترقی
اور امن کے نام پر سیاہ دھبے چھوڑے ہیں۔ یہ منظم جنگوں کی صرف چند مثالیں
ہیں ۔ جنگوں کے علاوہ ہلاکتوں کی تعداد بھی تشویش ناک ہے۔ ورلڈ ہیلتھ
آرگنائزیشن کے مطابق 8 لاکھ لوگ سالانہ دنیا بھر میں خودکشی کرتے ہیں۔جب
کہ خودکشی کی بُنیادی وجہ بھی بے سکونی اور ڈپریشن کی زیادتی ہے۔
الہامی کتابوں نے اللہ تعالیٰ کے عرفان کو مقصدِ حیات قرار دیا ہے۔ اور
اللہ سے ملاقات کو منزل قرار دیا ہے۔
اور تمہاری انتہا تمہارا رب ہے ۔ سورۃ النجم 42
اور ہم اسی کی طرف سے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ البقرہ
اس مقصد سے روشناسی کے لئے اور اس کی ترویج کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیغمبران
علیہ السلام کو دُنیا میں بھیجا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر نبوت ختم
ہوئی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے وارث اولیاء کرام نے اللہ کے اس پیغام
دُنیا کے کونے کونے میں پہنچایا۔
علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔ بخاری و ابن ماجہ
ان علماء کرام کو قرآن اللہ کے دوست قرار دیتا ہے۔
اور اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی غم ۔ سورۃ یونس
اولیاء کرام نے پیغمبرانِ کرام کے مشن اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات کی ترویج
کے لئے اپنی زندگیاں اللہ کی راہ میں صرف کی ہیں۔ ایسی مقدس ہستیوں میں ایک
نام سید محمد عظیم المعروف حضور قلندر بابا اولیاءؒ کا بھی ہے۔ حضور قلندر
بابا اولیاءؒ کی تعلیمات نوعِ انسانی کو سکون اور مقصدِ حیات سے روشناس
کرواتی ہیں۔ قلندر بابا اولیاءؒ کی تعلیمات تصوف کے اس عمومی گمراہ کُن
تصور کی نفی کرتے ہیں۔ کہ جس کے مطابق تصوف کے طالبِ علم کو معاشرتی زندگی
میں اپنی خواہشات کو فنا کر کے ٹاٹ کا لباس اور روکھی سُوکھی کھانی پڑتی
ہے۔ اس ضمن میں قلندر بابا اولیاء ؒ فرماتے ہیں:
‘‘ زاہدانہ زندگی یہ نہیں ہے کہ آدمی خواہشات کو فنا کر کے خود فنا ہو
جائے۔ آدمی اچھا لباس پہننا ترک کر دے ۔ پھٹا پُرانا اور پیوند لگا لباس
پہننا ہی زندگی کا اعلیٰ معیار قرار دے لے۔ اگر ایسا ہو گا تو دُنیا کے
سارے کارخانے اور تمام چھوٹی بڑی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی۔ اور لاکھوں
کروڑوں لوگ بھوک زدہ ہو کر ہڈیوں کا پنجر بن جائیں گے۔ اللہ نے زمین کی
کوکھ سے وسائل اس لئے نہیں نکالے کہ ان کو بے قدری کی جائے۔ ان کو استعمال
نہ کیا جائے، اگر روکھا سُوکھا کھانا ہی زندگی کی معراج ہے تو بارش کی
ضرورت نہیں رہے گی، زمین بنجر بن جائے گی۔ زمین کی زیبائش کے لئے اللہ نے
رنگ رنگ پھولوں ، پتوں، درختوں، پھلوں ، کوہساروں اور آبشاروں کو بنایا
ہے’’
روحانیت محض کسی مخصوص طرزِ زندگی کا نام نہیں ہے۔ بلکہ روحانیت ایک طرزِ
فکر ہے۔ ایسی طرزِ فکر جس سے متعارف کروانا انبیاء کرام اور صوفیاء کرام کا
مشن رہا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
‘‘ کہہ دو بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا
الله ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے’’ سورۃ الانعام
انبیاء کرام کی اس طرزِ فکر کی تعلیم دیتے ہوئے قلندر بابا اولیاء ؒ فرماتے
ہیں :
‘‘انبیائے کرام کسی چیز کے متعلق سوچتے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی
رشتہ براہِ راست قائم نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ ان کی طرزِ فکر یہ ہوتی تھی کہ
کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی چیز کارشتہ ہم
سے براہ راست نہیں ہے۔ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے’’
طرزِ فکر میں اللہ کو شامل کر لینا، ہر کام اللہ کی معرفت سے کرنا
انبیاءکرامؑ کی طرزِ فکر ہے۔ اسی طرزِ فکر کو اپنانے کا نام روحانیت ہے۔
قوت ارادی کی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ دماغ میں شک کی موجودگی ہے۔ آدمی
زندگی کے تمام مراحل وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں طے کرتا ہے یعنی ایک
سیکنڈ کے دوسرا سیکنڈ ایک منٹ کے بعد دوسرا منٹ وغیرہ۔
وسوسوں اور شک کی بنا وہم اور یقین پر ہے۔ بہت سی باتیں ہیں جن کو آدمی
دشواری، مشکل، پریشانی، بیماری، بیزاری، بے عملی، بے چینی وغیرہ وغیرہ کہتا
ہے۔ دوسری طرف وہ ایک چیز کا نام رکھتا ہے۔سکون، یہی وہ سکون ہے جس میں وہ
ہر قسم کی آسانیاں تلاش کرتا ہے۔
آدمی کے دماغ کا محور وہم اور شک پر ہے۔ یہی وہ وہم اور شک ہے جو اس کے
دماغ کے خلیوں میں ہر وقت عمل کرتا رہتا ہے۔ جس قدر اس شک کی زیادتی ہو گی
اسی قدر دماغی خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہو گی۔ یہی وہ دماغی خلئے ہیں جن کے
زیر اثر تمام اعصاب کام کرتے ہیں اور اعصاب کی تحریکات ہی زندگی ہیں۔
قلندربابا اولیاءؒ شک کو روحانیت کے راستے کی ایک اہم رُکاوٹ قرار دیتے
ہیں۔ آپ فرماتے ہیں :
‘‘جس فرد کے دل میں شک جاگزیں ہوا وہ عارف کبھی نہیں ہو سکتا۔ شک شیطان کا
سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ جس کے ذریعے سے وہ آدم زاد کو اپنی روح سے دور کر
دیتا ہے ۔ روحانی قدروں سے دوری ، آدمی کے اوپر علم و آگاہی اور عرفان کے
دروازے بند کر دیتی ہے’’
عرفانِ الہٰی انسانی مقصدِ حیات ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے
الہامی کتابوں میں اپنی پسندیدہ اور ناپسندیدہ طرزِ فکر سے نوعِ انسانی کو
آگاہ کیا ہے۔ پسندیدہ طرزِ فکر کے پرچار کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود اس
طرزِ فکر کے مطابق زندگی گزار نے کی کوشش میں ہوں۔ قلندر باباؒ فرماتے ہیں
‘‘نیکی کی تبلیغ کرنے والا خود نیک ہوتا ہے۔ اور بدکردار آدمی دل کا خود
بُرا ہوتا ہے۔ تب اس سے بدی یا دوسروں کی بربادی کے کام رونما ہوتے ہیں۔ جو
خود عارف نہیں ہے وہ کسی کو عارف کیسے بنا سکتا ہے۔ جو خود قلاش اور مفلوک
الحال ہے وہ کسی کو خیرات کیا دے گا’’
سربراہ سلسلہ عظیمیہ خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد یہ
ہے اوّل آخر، ظاہر باطن، بندہ کی مرکزیت خالقِ کائنات اللہ ہو۔ یہی وہ طرزِ
فکر ہے جس کو مستحکم کرنے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔ مگر
المیہ یہ ہے کہ نَوعِ انسانی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی بات پر
دھیان نہیں دیا۔ ایک شیطان کے پُرفریب جال میں پھنس کر بے سکون ہو گئی۔
مذہب ہمیں یقین کے اس پیٹرن میں داخل کر دیتا ہے جہاں شک و شبہات اور وسوسے
ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ خالق کی صفات کو اپنے اوپر محیط دیکھتا ہے۔ روحانی
نقطۂ نگاہ سے اگر کسی بندے کے اندر باطنی نگاہ متحرّک نہیں تو ایمان کے
دائرے میں داخل نہیں ہوتا۔ جب کوئی بندہ ایمان کے دائرے میں داخل ہو جاتا
ہے تو اس کی طرزِ فکر میں سے تخریب اور شیطنیت نکل جاتی ہے اور اگر بندے کے
اوپر یقین منکشف نہیں ہوتا تو ایسا بندہ ہر وقت تخریب اور شیطنت کے جال میں
گرفتار رہتا ہے۔ مذہب پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے
ہیں:
مذہب یہ ہے کہ آدمی کے اندر ایمان ہو ، ایمان یومنون بالغیب ہے۔ ایمان
یقین ہے اور مشاہدے کے بغیر یقین کی تکمیل نہیں ہوتی۔ یقین کی دُنیا میں
داخل ہو کر انسان یہ جان لیتا ہے کہ انسانوں کی برادری کا حاکم اعلیٰ اللہ
ہے حاکمِ اعلیٰ کو جاننے اور پہچاننے والے اس کے دوست ہیں اور دوست اس بات
پر یقین رکھتا ہے کہ دوست ، دوست کو تکلیف نہیں پہنچاتا ۔
قلندر بابا اولیاءؒ نوعِ انسانی کو بلا تفریق مذہب و ملت بے سکونی ، بے
قراری اور اضطراب سے نجات کا لائحہ عمل پیش کرتے ہیں۔ موجودہ دَور بے یقینی
کا دور اس لئے بن گیا ہے کہ آدمی کا عقیدہ واحد ذات اللہ کے ساتھ کمزور ہو
گیا ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ کی روحانی تعلیمات پر عمل کر کے نوعِ انسانی
سکون آشنا زندگی سے متعارف ہو سکتی ہے۔ بابا صاحب ؒ نے رسول اللہﷺ کی غارِ
حرا کی سُنت یعنی مُراقبہ اور قرآن و سیرتِ طیبہﷺ پر تفکر کا پروگرام
متعارف کروایا ہے۔ مادی زندگی ہو یا روحانی زندگی تفکر کے بغیر بے معنی ہے
۔ مادے میں تفکر سے نت نئی ایجادات معرضِ وجود میں آتی ہیں۔ جب کہ اپنی
ذات و مقصدِ حیات پر تفکر انسان کو اپنی حقیقت سے رُوشناس کرواتا ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
جس قوم کا ایمان، کائنات کا اخلاص نہیں ہے وہ قوم کائناتی قدروں کا مشاہدہ
نہیں کر سکتی۔ نہ اس کی فہم کائناتی علوم تک پہنچ سکتی ہے۔ اس نے خود کو
کُل ذات سے منقطع کر لیا ہے۔ اس وضع کی قوم ہزاروں سال کی عمر پانے کے
باوجود پالنے کا بچہ رہے گی۔
قلندر بابا اولیاءؒ نوعِ انسانی کو اپنی بقا کے لئے قرآنی توحید کے پلیٹ
فارم پر مجتمع ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔
‘‘آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور
بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہوں گی۔ نتیجہ نوع انسانی کو کسی نہ کسی وقت
نقطۂ توحید کی طرف لوٹنا پڑ گیا تو بجز اس نقطہ کے نوعِ انسانی کسی ایک
مرکز پر بھی جمع نہیں ہوسکے گی۔ موجودہ دور کے مفکر کو چاہیے کہ وہ وحی کی
طرز فکر کو سمجھے اور نوعِ انسانی کی غلط رہنمائی سے دست کش ہوجائے۔ ظاہر
ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے جسمانی وظیفے جداگانہ ہیں اور یہ
ممکن نہیں ہے کہ تمام نوعِ انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہوسکے۔ اب صرف
روحانی وظائف باقی رہتے ہیں۔ جن کا مخذن توحید اور صرف توحید ہے۔ اگر دنیا
کے مفکرین جدوجہد کرکے ان وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کرسکے تو وہ اقوام
عالم کو وظیفۂ روحانی کے ایک ہی دائرہ میں اکٹھا کرسکتے ہیں اور وہ روحانی
دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔ اس معاملہ میں تعصّبات کو بالائے طاق
رکھنا پڑے گا کیونکہ مستقبل کے خوفناک تصادم، چاہے وہ معاشی ہوں یا
نظریاتی، نوعِ انسانی کو مجبور کردیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت دے کر اپنی
بقا تلاش کرے اور بقا کے ذرائع قرآنی توحید کے سوا کسی نظامِ حکمت سے نہیں
مل سکتے۔’’
27 جنوری 1979 اس عظیم ہستی کا یومِ وصال ہے ۔ اس دن کی مناسبت سے ہر سال
27 جنوری کو دُنیا بھر میں سلسلہ عظیمیہ کے پلیٹ فارم سے قلندر بابا
اولیاءؒ کی تعلیمات کو نوعِ انسانی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ سربراہ سلسلہ
عظیمیہ خواجہ شمس الدین عظیمی نے 16 برس قلندر بابا اولیاءؒ کی تربیت میں
گزارے۔ عظیمی صاحب نے معاشرت، سیرتِ طیبہﷺ، روحانیت، نفسیات و مابعد
نفسیات، تاریخ اور اسلامی علوم پر 70 سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ آپ کی
کی تحریر کردہ کُتب پاکستان میں سکولز، کالجز اور یونیورسٹییز میں پڑھائی
جا رہی ہیں ۔ سلسلہ عظیمیہ کی علمی و سماجی خدمات کے موضوع پر کراچی
یونیورسٹی ڈاکٹریٹ کی ڈگری جاری کر چُکی ہے۔ اور شعبہ علومِ اسلامیہ میں
‘‘قلندر بابا اولیاءؒ چیئر’’ کا قیام بھی اس عظیم ہستی کو خراجِ عقیدت ، ان
کے پیش کردہ روحانی طرزِ تفہیم کو سمجھنے اور مقصدِ حیات کی روشناسی کی طرف
ایک قدم ہے۔ بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی ، مُلتان عظیمی صاحب کی 2 کُتب شعبہ
علومِ اسلامیہ کے سلیبس میں نہ صرف شامل کر چُکی ہے ۔ بلکہ یہ دونوں کُتب
یونیورسٹی خود شائع کر رہی ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو رسول اللہﷺ اور آپ ﷺ کے وارث اولیاء کرام کے علوم پر
تفکر و عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین |