اصلاح معاشرہ میں والدین کاکردار

انسان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے‘ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
”وان تعدوا نعمة الله لاتحصوھا“
اور ان نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت اولاد بھی ہے، عام دستور ہے کہ نکاح کے بعد ہر مرد و عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری اولاد ہو، اس کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں لیکن الله تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے اس نعمت سے نواز دیتا ہے، کسی کو لڑکا اور کسی کو لڑکی اور کسی کو دونوں جبکہ بعض کو اپنی کسی حکمت کی بناء پر اولاد نہیں دیتا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :
”یہب لمن یشاء اناثاً ویہب لمن یشاء الذکور‘ او یزوجہم ذکراناً واناثاً ویجعل من یشاء عقیماً‘ ‘ (الشورٰی:۴۹‘۵۰)
ترجمہ:”جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا فرماتاہے یا ان کو جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جس کو چاہے بے اولاد رکھتا ہے“۔

اولاد کے متعلق شریعت کا حکم ہے :
”یا ایہا الذین اٰمنوا قوا انفسکم واہلیکم نارا۔“(التحریم:۶)
ترجمہ:”اے ایمان والوں تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) اس آگ سے سے بچاؤ“۔

دین اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اسلام انسانی زندگی کے لیے ایک ایسا جامع نظام پیش کرتا ہے جو ہردور کے لیے قابل عمل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام اپنے پیروکاروں کی ہر مرحلہ پر رھنمائی کرنے کی بھی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ ہر باشعور انسان یہ جانتا ہے کہ مستقبل میں معاشرے کی تخلیق اور ترقی میں بنیادی کردارنئی نسل کا ہی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اولاد کی صحیح تربیت کرنے کو ایک قابل تحسین بلکہ حد درجہ ضروری قرار دیا ہے،اور احادیثِ مبارکہ میں اس کے بے شمار فضائل آئے ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت ، ان کی دیکھ بھال اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا والدین کے لیے ضروری ہے اور یہ ایسا پاکیزہ عمل ہے جو والدین کو جنت میں لیجانے کا باعث بنتا ہے، چنانچہ امام مسلم اپنی کتاب صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
”من عال جاریتین حتی تبلغا جاء یوم القیامة أناوھو،وضم أ صابعہ“
(مسلم:ج:۲ص :۳۳۰،باب فضل الاحسان الی البنات)
ترجمہ : ۔”جو شخص دو بچیوں کی بالغ ہونے تک کفالت کرے گا تو وہ قیامت میں اس طر ح آئے گا کہ میں اور وہ اس طرح ہوں گے ،اور آپ ا نے اپنی انگلیوں کو ملا کر اشارہ کر کے بتلایا ۔“
اسی طرح امام احمدبن حنبل رحمہ الله اپنی کتاب مسند احمد میں حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں :
” من کان لہ ثلاث بنات وصبر علیھن وکساھن من جدتہ (أی مالہ)کن لہ حجابا من النار۔“(الأدب المفرد،باب :من عال جاریتین أو واحدة)
ترجمہ : ۔”جس شخص کی تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کو خوش دلی سے برداشت کرے اور اپنے مال سے ان کو کھلائے پلائے اور پہنائے تو وہ لڑکیاں اس شخص کے لیے دوزخ سے بچانے کا ذریعہ بنیں گی ۔

یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ ان احادیث مبارکہ میں جو فضائل وارد ہوئے ہیں وہ زیادہ تر لڑکیوں کی تربیت سے متعلق ہیں ،جس سے کسی کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہ فضائل صرف لڑکیوں سے متعلق ہیں ،حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ فضائل لڑکے اور لڑکی دونوں کی تربیت کے حوالے سے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کی پیدائش کو برا سمجھا جاتا تھا ،جس کی وجہ سے جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے لڑکیوں کے حقوق کو نہایت وضاحت کے ساتھ ذکر کیا۔ اسلیے کہ بیٹے کی محبت زمانہ جاہلیت میں بھی بہت تھی، البتہ بیٹی کو زمانہ جاہلیت میں موجب عار گردانا جاتا تھا اور یہ ایک ایسی رسم تھی جس کا قلع قمع کرنا نہایت ضروری تھا، اسی لیے اولاد کی تربیت کے حوالہ سے احادیث میں بیٹی کی تربیت کی ترغیب زیادہ وارد ہے۔جس طرح اسلام نے اولاد کے لیے والدین کے حقوق مرتب کیے ہیں، اسی طرح اسلام بچوں کی تربیت کے حوالے سے والدین کے ذمہ بھی کچھ اصول وضع کرتا ہے اور ان کی پاسداری کی تلقین کرتا ہے،جن کا جاننا والدین حضرات کے لیے نہایت اہم ہے۔ مسلمان قوم جو ابتداء میں صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے علم و فضل اور مکارم و محاسن کے نور سے روشنی حاصل کرتی رہی اور تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بھی انہی کے طور طریقوں کو اپنایا،جس کی وجہ سے ایسا پاکیزہ معاشرہ وجود میں آیا جس نے آگے چل کر ایک تاریخ رقم کی تاآنکہ وہ دور آگیا جب اسلامی معاشرے سے اسلامی احکام ختم ہونے لگے اور روئے زمین سے خلافت اسلامیہ کے نشانات زائل ہونے لگے اور دشمنان اسلام سمجھنے لگے کہ اب ہم اپنے مذموم مقاصد اور ناپسندیدہ اغراض کی تکمیل کر لیں گے، دشمنان اسلام کی یہ آرزو عرصہ دراز سے ان کے دلوں میں پوشیدہ تھی لیکن یہ اسی وقت ممکن تھا جب مسلمان اسلام کے بنیادی اصولوں اور اس کے احکامات سے دور ہو جائیں اور ان کی ساری توجہ دنیاوی خواہشات اور لذتوں کے حصول کی طرف مبذول ہو جائے تاکہ ان کے سامنے کوئی واضح مقصد اور منزل موجود نہ ہو۔ چنانچہ وہ دور آگیا جب مسلمان دین سے دور ہٹنے لگے اور ان میں باہمی اتحاد کی جگہ نفرتوں اور تفرقہ بازی نے لے لی تو اعداء اسلام نے ان پر یلغار کردی ،یہاں تک کہ ان کی سوچ اور تہذیب کو بدل ڈالا ،جس کی وجہ سے معاشرے کاامن و سکون تہہ و بالا ہو کر رہ گیا۔ چنانچہ جب مسلمان قوم اپنے مقصد حقیقی سے پیچھے ہٹ گئی اور ان لادین ملحدین کے نرغے میں آگئی جنہوں نے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے خوشنما نعروں کے ذریعے مسلمان قوم کو ورغلا کر انہیں اپنی تہذیب اور ثقافت سے دور کر دیا جس کے اثرات سے پورا معاشرہ متاثر ہوا، اور وہ مسلمان جو کل تک توحید کی امانت کوسینے میں لے کر پوری دنیا پر حکمرانی کا فریضہ انجام دے رہا تھا آج وہی مسلمان اپنے دین و مذہب کے دفاع کے لیے بھی غیروں کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے ۔آج اگر ہم معاشرے کے زوال کے اسباب پر نظر دوڑائیں تو منجملہ اور اسباب کے ایک بڑا سبب یہ بھی نظر آتا ہے کہ مسلمان قومیں اسلامی تعلیمات سے ہٹ گئیں ہیں ،انہیں یہ احساس ہی نہیں کہ اسلام زندگی کے تمام شعبو ں کے لیے واضح لائحہٴ عمل رکھتا ہے ،تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو مستقبل کے معماروں کی تربیت اوراصلاح پر توجہ دیتی ہیں کیونکہ نئی نسل ہی قوم کا مستقبل ہوا کرتی ہے اور اس سلسلے میں والدہ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے ،جیسا کہ عربی کا ایک شعر ہے :

والأم مدرسة إذا أعددتہا
أعددت شعباً طیب الأعراق
ترجمہ:ماں ایک ایسا مدرسہ ہے اگر تم نے اسے تیار کر لیا ،تو ایک ایسی جماعت کو تیار کرلیا جو بہترین جڑوں اور بنیاد والی ہے۔

ماں کی گود اولاد کے لیے پہلا مکتب اور مدرسہ ہے اولاد کو جو کچھ سکھایا جاتا ہے اس کا اثر بچے کی زندگی میں ہمیشہ نمایاں رہتا ہے ان کی صحیح دینی تربیت کے ذریعے سے ہی معاشرے کے لیے وہ افراد تیار کیے جاسکتے ہیں جو معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ کرسکیں اور معاشرے کو ایک صحیح نہج پر ڈھال سکیں۔ ہم میں سے ہرایک جب اس بات کا خواہاں ہے کہ اسلام کی نشاة ثانیہ قائم ہو اور ایک مثالی معاشرہ وجود میں آئے جس کے اثرات وثمرات سے پوری دنیا میں امن و امان کا بول بالا ہوتو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان اسباب کو اپنائیں جو مثالی معاشرے کی تخلیق کا باعث ہوں اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری ان والدین کی بنتی ہیں جو آنے والی نسل کے سربراہ ہیں کہ وہ اولاد کی ایسی تربیت کریں کہ آگے چل کر یہ نسل معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو ، آج اگر ہم ان کی ایسی تربیت کریں گے جو تربیت اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوگی تب تو بہتری کی امید رکھی جاسکتی ہے ورنہ حسرت ہی رہ جائے گی ۔اس سلسلے میں کچھ نگارشات والدین کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

۱:۔ تربیت کرنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی کیا کیا ذمہ داریاں ہیں۔ جب مربی اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہو گا تب ہی وہ اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نبھا پائے گا۔
۲:۔انہیں گھر کے اندر ایسا دینی ماحول فراھم کیا جائے جس میں وہ پروان چڑھ سکیں اور ساتھ ساتھ اپنے مذہب اور دین کے بارے میں بھی آگاہ ہو سکیں۔
۳:۔اسی طرح وہ والدین جو اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرتے ہیں جو اسکول غیر مسلموں کی نگرانی میں قائم ہوں ان اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے میں احتیاط برتنی چاہئے کیونکہ اگر بچہ ایک ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کرے گا جہاں کا ماحول اور اساتذہ لادین ہوں تو یقینا اس کا اثر اس بچے کے ذہن پر بھی پڑے گا اور آگے چل کر اس کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہوں گے جو دین سے دوری کا سبب بنیں گے۔
۴:۔اسی طرح آجکل اسکول کالجز میں مخلوط تعلیم کا جو سلسلہ چل نکلا ہے اس سے بھی از حد احتیاط کی ضرورت ہے ،کیونکہ ماحول کا اثر بچے کی شخصیت پر فوری اثر انداز ہوتا ہے، مردو عورت کے باہمی اختلاط کیوجہ سے جو قباحتیں ہیں ،وہ سب کے سامنے ہیں ،جس کی وجہ سے بچہ کی توجہ تعلیم سے زیادہ دیگرغیر اخلاقی سرگرمیوں میں صرف ہوتی ہے۔
۵:۔والدین اپنی ناپختہ ذھن اولاد کو موبائل فون سے دور رکھیں،جس کے غلط اور بے جا استعمال نے معاشرے کو اخلاقی پستی کی جانب دھکیلنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے،افسو س اس بات کا ہے کہ آج پوری قوم ان موبائل فونوں کے زیرِ اثر آچکی ہے اور بچے ہی نہیں بڑے بھی اس شکنجے میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں اور لاکھوں روپے اس گناہ بے لذت میں اڑائے جا رہے ہیں ،اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین اولاد کو اس فتنے سے دور رکھیں اور بالفرض محال اگر اس کے دینے کی اشد ضرورت پیش آ بھی جائے تب بھی والدین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بچوں کی نگرانی کریں ،اس لیے کہ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ والدین نے بچوں کو موبائل فون خرید کر دیا اور بے فکر ہو گئے جس کا نتیجہ یوں نکلتا ہے کہ وہ بچہ غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتا ہے اور والدین کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی۔
۶:۔اسی طرح والدین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی تعلیم کے ساتھ اس کے اخلاق اور سیرت و کردار پر بھی توجہ دیں، اس لیے کہ جناب کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
”مانحل والد ولداً من نحل أفضل من أدب حسن ۔“
(مسند احمد ،ج : ۱۲،ص:۱۶۰)
ترجمہ : ۔”کسی باپ نے اپنے بیٹے کو عمدہ اور بہترین ادب سے زیاد ہ اچھا ہدیہ نہیں دیا ۔“
ابن ماجہ حضرت عبد الله بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
”أکرموا أولادکم وأحسنواأدبھم“(سنن ابن ماجہ ،ج:۴ص:۱۸۹)
ترجمہ :۔”اپنے بچوں کا اکرام کرو اور انہیں اچھی تربیت دو۔“
ایک اور روایت میں آتا ہے :
”علموا أولادکم وأھلیکم الخیر وأدبوھم۔“
(: اسلام اورتربیت اولاد…مکمل…مولانا ڈاکٹر محمد حبیب الله مختار شہید)
ترجمہ:۔” اپنی اولاد اور گھر والوں کو خیر وبھلائی کی باتیں سکھاوٴاور ان کی اچھی تربیت کرو۔

غور کیجئے کہ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کس قدرسہل انداز میں بچوں کی تربیت کے متعلق زریں ارشادات فرمائے ہیں ،یقیناً جو کوئی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی روشنی میں اس عزم کے ساتھ اپنی اولاد کی تربیت کرے گا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے یہ فرامین ہماری اولاد کی بہترین تربیت میں مدد گار ثابت ہوں گے توانشاء الله امید رکھی جاسکتی ہے کہ آنے والا وقت برکتیں لے کر آئے گا۔

آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے مستقبل کے یہ معمار اعداء اسلام کی نقالی اور ان کے حلیوں کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کی تہذیبوں سے ثقافتوں سے پوری طرح باخبر ہوتے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ اور ناآشنا ہوتے ہیں،شاید کہ انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ترقی کی علامت یہی ہے کہ لادین ملحدین کی نقالی کیجائے، ان کے بیہودہ اور غیر اسلامی تہذیبوں اور ثقافتوں کو اپنا یا جائے ،ایسا معلوم ہو تاہے کہ ان کے لیے نہ دین کی طرف سے کوئی رکاوٹ ہے اور نہ ضمیر کی طرف سے کوئی روک ٹوک ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل اہل باطل سے مقابلہ کرنے سے قبل ہی خود اپنی شخصیت اور ارادے سے شکست کھا چکی ہے ،جس کی وجہ سے اہل مغرب کو آج کی نوجوان نسل سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ،کیونکہ وہ اس با ت کو جانتے ہیں کہ آج کا مسلمان ہم سے اس درجہ متاثر ہو چکا ہے کہ وہ ہماری تہذیب اور ثقافت کو اپنانے میں ذراسی بھی عار محسوس نہیں کر تا ۔اس میں قصور کس کا ہے ؟
بقول اکبر الہ آبادی مرحوم :
بچوں میں کیا خوآئے ماں باپ کے اطوار کی
دودھ ہے ڈبے کا اور تعلیم ہے سرکار کی
۷:۔ والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود بھی ایسے کاموں سے اجتناب کریں جن کا غلط اثر ان کی اولاد پر پڑسکتاہے اور اپنی اولاد پر بھی نظر رکھیں اس لیے کہ بچہ اپنے اردگرد کے ماحول کا اثر فوری قبول کرتا ہے۔
۸:۔اسی طرح والدین کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ابتداء ہی سے بچے کی دینی اور اخلاقی تربیت ایسی کریں کہ جن کاموں سے الله اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے منع کیا ہے ان کامو ں سے خود بھی رکیں اور اپنی اولاد کو بھی شروع سے یہ بات سمجھائیں اور اس چیزکا خوف ان کے دلوں میں بٹھائیں کہ وہ کام جن کے کرنے سے الله اور اس کے رسول ناراض ہوتے ہوں ان کاموں سے بچو،ورنہ الله تعالیٰ ناراض ہو جائیں گے۔

اس وقت المیہ یہی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت اس انداز میں نہیں کرتے، جو انداز تربیت مسلمانوں کا شعار رہا ہے ، حالانکہ شریعت مطہرہ نے اس سلسلے میں بھی بنی آدم کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ بچے کی تربیت سے متعلق تمام تر باتیں نہایت وضاحت کے ساتھ ذکر کیں ہیں ،جناب نبی کریم ا کا جو مشفقانہ رویہ اور محبت بچوں کے ساتھ ہوا کرتی تھی اس کا ذکر احادیثِ مبارکہ میں کثرت کے ساتھ موجود ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ الله جل شانہ نے ماں باپ کے دلوں میں جو قابل قدر جذبات ودیعت رکھے ہیں ان میں سے بچوں پر رحم ،شفقت و محبت اور الفت و پیار بھی ہے اور یہ ایسا جذبہ ہے جو بچوں کی تربیت و اصلاح کے سلسلے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کا دل رحم سے خالی ہوتا ہے وہ شخص ترشروئی ،سختی اور قساوت جیسی بری خصلتوں کا مالک ہوتا ہے جن کا اولاد پر نہایت برا اثر پڑتا ہے اور ان میں بغاوت او ر انحراف کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے شریعت مطہرہ نے انسان کے دلوں میں محبت اور رحم کے جذبے کو راسخ کیا اور بڑوں کو خواہ وہ اساتذہ ہوں یا ماں باپ یا پھرکسی بھی شعبے کے سربراہ سب کوان اوصاف کے اختیار کرنے اور ان سے آراستہ ہونے کی ترغیب دلائی ،اس سلسلے میں چند احادیث ملا حظہ کیجئے کہ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے رحم کے موضوع کو کتنی اہمیت دی اورلوگوں کے اندر اس وصف کو پیدا کرنے کے لیے آپ نے کس قدر اسلوب حکیمانہ کے ساتھ متوجہ کیا،چنانچہ ابو داوٴد اور ترمذی میں حضرت عبدالله بن عمر و بن العاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
”لیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یعر ف حق کبیرنا“
(ترمذی،ابواب البر والصلة،ص:۱۴ط:قدیمی کتب خانہ)
ترجمہ : وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کے حق کو نہ پہچانے۔

اسی طرح امام بخاری اپنی کتاب ”الادب المفرد “میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،ان کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا ،جس کو وہ اپنے آپ سے چمٹا رہے تھے توآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ”کیا تمہیں اس بچہ پر رحم آتا ہے ؟انہوں نے جواب میں عرض کیا جی ہاں! تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

” فاالله أرحم بک منک بہ وھو أرحم الراحمین “
( اسلام اورتربیت اولاد…مکمل…مولانا ڈاکٹر محمد حبیب الله مختار شہید)
ترجمہ: الله تعالیٰ تم پر اس سے زیا دہ رحم کرنے والا ہے جو تم اس بچہ پر کر رہے ہو اور وہ تو ارحم الراحمین ہے۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی صحابی کو اپنے بچوں پر رحم کرتا نہیں دیکھتے تو نہایت شدت سے ان صحابی کو تنبیہ فرماتے ،چنانچہ امام بخاری ”الادب المفرد “ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ ایک دیہاتی صحابی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت حاضر ہوئے اور عرض کیا : کیا آپ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟ہم تو نہیں چومتے ! تو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

”أوأملک لک أن نزع الله من قلبک الرحمة۔“
(الأدب المفرد…ص:۴۰،باب:قبلة الصبیان)
ترجمہ : ۔”اگر الله تعالیٰ تمہارے دل سے رحم نکال دے تو میں تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں ۔“

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بعض والدین بچوں کے ساتھ یا تو نہایت سختی کا معاملہ کرتے ہیں جس کا اثر بچے کے اوپر پڑتا ہے اور اس کے اندر احساس کمتری کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے یا پھر بعض والدین بچے کے ساتھ نہایت نرمی کا معاملہ کرتے ہیں اس کی کوتاہیوں کو یکسر نظرانداز کرتے رہتے ہیں چنانچہ یہ چیز بھی بچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

۹:۔والدین بچوں کی تربیت سے متعلق دینی کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ شریعت مطہرہ نے بچے کی نفسیات کو کس بہتر انداز میں سمجھ کر اس کے متعلق مختلف ایسے حکیمانہ اسلوب وضع کیے ہیں جن کی روشنی میں بچے کی تربیت بہت سہل انداز میں کی جاسکتی ہے ۔الغرض یہ تمام تر وہ ذمہ داریاں ہیں جو والدین حضرات پر عائد ہوتی ہیں لہٰذا والدین حضرات اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور سمجھیں کہ اس پرفتن دورمیں جو ذمہ داری اولاد کی تربیت کے حوالے سے ان کے کاندھوں پر عائد ہو تی ہے اس کا ادراک نہایت ضروری ہے ،اگر ہم آج اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنا فرض نبھائیں گے تو انشاء الله آنے والا وقت ہمارے لیے سکون و اطمینان اور برکتیں لے کر آئے گا۔

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ الله تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور سیدھے راستے کی جانب ہماری راہنمائی فرمائے اور ہماری اولاد کو نیک سیرت اور اعلیٰ کردار والا بنائے اور انہیں دنیا و آخرت میں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے ،آمین ۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال: ۱۴۲۹ھ اکتوبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 9
Mohammad Mubeen
About the Author: Mohammad Mubeen Read More Articles by Mohammad Mubeen: 24 Articles with 83384 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.