تحریر:
محمد رضوان فاروقی، جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ
شہر قائد کو پاکستان میں سب سے زیادہ خوب صورت اور ایک صاف ستھرا کراچی
ہونا چاہیے تھا لیکن افسوس یہ شہر ملک کو سب سے زیادہ ریونیودینے کے باوجود
کئی مسائل کا شکار ہے ۔کہنے کو شہر میں بلدیاتی حکومت اور صوبائی حکومت کے
بیانات کے مطابق کراچی میں کئی میگا پروجیکٹ شرو ع کیے ہیں جس پر عوام
پریشان ہے کہ یہ کیسے پروجیکٹ ہیں جو روزمرہ کی زندگی میں آسانی آنے کے
بجائے روز بروز مشکلات سے دوچار کررہے ہیں۔ کہا تو جاتا ہے کہ شہر میں
یونیورسٹی روڈ تعمیر ہورہی ہے لیکن اس کے بارعکس روڈ کی تعمیری مراحل سے
طلبہ سمیت دیگر مسافر بھی اذیت کا شکار ہیں۔
شہر قائد میں انتظامیہ کی جانب سے بیشتر سٹرکوں پر بیک وقت تعمیراتی کام کے
آغاز کردیا گیا ہے جس کے باعث پورادن خصوصاًشام 6 بجے سے لے کر رات 11بجے
تک ٹریفک جام معمول بن گیا ہے ۔اس ٹریفک جام سے نہ صرف شہریوں کا قیمتی وقت
بلکہ اضافی ایندھن بھی استعمال ہورہا ہے جسے سے شہریوں کی جیب پر بھی بوجھ
پڑرہا ہے ۔ٹریفک جام کے باعث شہریوں کے درمیان آپس میں جھگڑے بھی عام ہوگئے
ہیں،کراچی کی مشہور ترین شاہراہوں پر ٹریفک جام سے صوتی آلودگی اور نفیساتی
بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔
سندھ حکومت نے بغیر کسی منصوبندی کے ترقیاتی اسکیموں پر کام شروع کردیا ہے
۔ یونیورسٹی روڈ، شارع فیصل، لسبیلہ، گرومندر سمیت دیگر علاقوں میں ٹریفک
کی روانی متاثر رہی۔شہریوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ
شہر کی زیادہ تر سٹرکوں پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ جس کی وجہ سے ایک جگہ سے
دوسری جگہ جانے میں شدید دشواری ہوتی ہے۔ٹریفک جام کا یہ مسئلہ شہریوں کا
لیے وبال جان بن چکا ہے۔ارباب اختیار اور متعلقہ اداروں سے التماس ہے کہ
ترقیاتی کاموں کے آغاز سے قبل متبادل راستے مختص کئے جائیں تاکہ شہریوں کا
قیمتی وقت اور ایندھن کی بچت ہوسکے ۔ٹریفک پولیس کی جانب سے پلاننگ تو تیار
کی گئی ہے لیکن ابھی تک ٹریفک کے معاملے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
کراچی شہر کی متعدد اہم شاہراہو ں پر چارجز پارکنگ مافیا بس چکے ہیں جس کی
سربراہی خود حکومتی ادارہ کراچی میونسپل کارپوریشن ٹھیکے عوض کررہا ہے ،جس
یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھی کے دانتھ دکھانے کے کچھ اور۔۔۔۔۔کھانے کے کچھ اور
کہا جاتا ہے کہ میونسپل کارپوریشن نے اب تک چارجز پارکنگ کے زریعے اربوں
روپے سرکاری خزانے کے بجائے مافیاز کے ہاتھوں میں جارہے ہیں جو عوام کے
ساتھ سراسر ناانصافی ہے ،جس کا حساب حکومت وقت اور عوام کے اسمبلیوں میں
بیٹھے منتخب نمائندے ہیں۔
|