معاشرے کی تباہ کاریاں

قاسم ندیم (ٹلہ جوگیاں جہلم)
جب زمین میں سے ایک درخت پیدا ہوتا ہے تو پہلے اس کی جڑ قائم ہوتی ہے اگر جڑ تندرست و توانا ہے تو درخت اچھا پھلتا پھولتا ہے اگر جڑ ناقص ہے تو یقیناً درخت بھی ناقص ہو گا اور وہ درخت تیز آندھیوں اور طوفانوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گا ۔کبھی اس کی یہ شاخ ٹوٹی کبھی وہ شاخ ٹوٹی اور کرتے کرتے اسی طرح ایک دن یہ درخت ختم ہو جائے گا اس درخت کو اب بچانے کے لیے ہم طرح طرح کے جتن کریں گے اسے مزید زندگی دینے کی کوشش میں ہم اس درخت سے منسوب شدہ کتب کا انتخاب کر کے وہاں سے مناسب مشوروں کو مد نظر رکھ کے اس کی پرورش پے دھیان دیں تو گے یہ درخت اپنی موت سے پہلے مرنے کو بچ سکتا ہے ٹھیک اسی طرح سے ہم اپنے بچوں کی بنیاد یقینی بنائیں گے تو ہم ایک اچھا معاشرہ ترتیب دیں سکتے ہیں اور اس معاشرے کو ایک اچھا معاشرہ یقینا ایک ماں ہی دے سکتی ہے ۔کسی بھی معاشرے کو بنانے یا بگاڑنے میں عورت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہماری مائیں آج کل ایک بہت بڑی غلطی کرتی ہیں اسے اچھائی سمجھ کر کہ بچہ ابھی ٹھیک سے قدم نہیں اٹھا سکتا اسے سکول میں بھیجنا شروع کر دیتی ہیں جو کہ سراسر غلط کرتی ہیں کیونکہ اﷲ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ سات سال تک بچے کو نماز کے لیے بھی نہ کہو کیونکہ سات سال تک بچہ جتنی بھی خصوصیات اس کے ماں باپ کے اندر ہوتی ہیں وہ انہیں دیکھ کر محسوس کر کے اپنے اندر انہیں منتقل کرتا رہتا ہے چاہے وہ اس کے ماں باپ میں اچھی خصوصیات ہوں یا بری تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ بچہ سکول میں سے شروع سے ہی اچھی تربیت پا سکے ۔اور یہ سات سال تک عمر بھی ایسی ہوتی ہے بچہ کسی بھی معاملے کو دیکھ کر یا محسوس کر کے اس سے سیکھ سکتا ہے البتہ باتوں سے اسے کچھ بھی سمجھانا بے سود ہوتا ہے ۔ اور اب اس بات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے مسائل اکیلے ہو کے حل کریں بچوں کے سامنے ہرگز نہیں کیونکہ مسائل حل کرنے میں آنے والی اونچ نیچ کا اثر بچے پے نہ پڑے ۔مگر ہمارا معاشرہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ کیے بغیر ان پر عمل درآمد کرتا ہے جس کا خمیازہ انہیں اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں بھگتنا پڑتا ہے ۔ اﷲ نے قرآن مجید میں ایک اچھی نسل کو بڑھانے کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ نسخے عطا کر رکھے ہیں مگر ان نسخوں کا تب تک کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک ہم لوگ قرآن سے جڑ نہیں جاتے ۔

اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جن کے باعث ہمارا معاشرہ نقصان اٹھا رہا ہے۔ اپنے خاندان میں اختلافات کی وجہ سے بچوں پے گہرا اثر ہوتا ہے زیادہ تر مائیں اپنے رشتہ داروں کے خلاف اپنے منفی خیالات سے بھی اپنے بچوں کے ذہن کچھ اس طرح سے بنا دیتی ہیں کہ بچے کو سدھرنے کے لیے اس کی اپنی عمر بھی کم پڑ جاتی ہے ۔ انہی منفی رویوں کو لے کر معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس سے ایک تو بندہ خود اس بگاڑ سے متاثر ہوتا اور اپنوں ساتھ دوسروں کو بھی اس لعنت میں ڈبو دیتا ہے اور اسی وجہ سے گھروں میں بھی لوگ اپنا سکون قائم کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔اور سب سے بڑی بات یہ کہ آجکل کی مائیں اپنے بچوں کو دنیاوی کامیابی سے روشناس کرواتی ہیں جس سے انسان دنیا میں تو دولت پیسہ اکٹھا کر لیتا ہے مگر اپنے اصلی امتحان میں فعل ہو جاتا ہے ۔ ہماری کامیابی کا انحصار دنیاوی کامیابی پے ہرگز نہیں ہے بچوں کو ڈاکٹر سائنس دان یا کوئی بھی عہدہ دار بنانے سے پہلے ایک انسان بنایا جائے تو پھر بیشک ہم ایک اچھے اور سلجھے معاشرے کے باشندے ہو سکتے ہیں ۔ اگر بچوں کی اسلامی نظریات کے تحت پرورش کی جائے تو ایک اچھا معاشرہ بھی ہماری تحویل میں آتا ہے اور اپنی آخرت بھی بن جاتی ہے ۔ بیشک بچوں کی تربیت میں عورت کا بڑا ہاتھ ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ مرد بالکل سرخرو ہو جائے اپنی ذمہ داریوں سے ۔ ماں باپ کو چاہیے کہ جس قدر ہو سکے اپنے بچوں کی پرورش قرآن مجید کی روشنی میں کریں تو ایک اسلامی معاشرہ ہونے کے ساتھ ایک آزاد معاشرہ بھی ہمارے عمل میں آئے گا ۔
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143703 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.