عہد و پیماں
(Zainab Amjad, Islamabad)
اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے وعدے کا سچا
اور اپنے عہد کا پکا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے،"بلاشبہ اللہ اپنے
وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔"
"اور اللہ سے ذیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے۔"(سورہ توبہ)
اسی طرح جو اللہ کے فرمانبردار بندے بھی کسی سے وعدہ کرتے ہیں تو اسے پورا
کرتے ہیں اور اپنے قول و قرار کے پابند رہتے ہیں۔ سمندر اپنا رُخ پھیر سکتا
ہے، پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے، مگر مومن اپنے قول سے کبھی نہیں پھرتا۔
اس لیے اللہ نے مومن کی ان الفاظ میں تعریف کی ہے،" وہ اپنی امانتوں کی
حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں۔" کیونکہ اس کا حکم ان کو اُن کے رب نے
دیا ہے۔
"اور عہد کو پورا کرو، کیونکہ عہد کی بازپرس ہو گی اور جب کوئی چیز ناپو تو
پیمانے کو پورا بھر دیا کرو اور ڈنڈی سیدھی رکھ کر تولا کرو، یہ بہتر ہے
اور اس کا انجام بھی اچھا ہے"
ہم عام طور پر عہد سے مراد یہ لیتے ہیں کہ روزمرہ کی زندگی میں کسی سے کوئی
وعدہ کیا جاۓ تو اُسے پورا کیا جاۓ۔ یہ معنی بھی درست ہیں، مگر قرآن میں اس
لفظ کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع ہے۔ عہد کا تعلق نہ صرف اخلاق اور دین سے ہے
بلکہ زندگی کے تمام معاملات سے ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم
میں عہد کا ذکر مختلف شکلوں میں کیا ہے۔
• کسی کی امانت کو رکھ کر اس میں کمی بیشی کیے بغیر ٹھیک وقت پر ادا کر
دینا۔
• وزن کرتے ہوۓ برابر تولنا۔
• کسی چیز کو ناپتے ہوۓ ٹھیک ٹھیک ناپ کر دینا۔
• کسی سے راز کی حفاظت کرنا۔
یہ سب بھی عہد کی پاسداری میں شامل ہے۔ عہد کی مزید وضاحت یوں بھی کی جا
سکتی ہے۔
ایک عہد تو وہ ہے جو اللہ تعالٰی اور بندے کے درمیان روزِ اول سے ہوا ہے کہ
وہ صرف اللہ ہی کی بندگی کرۓ گا اور اسی کا فرمانبردار بن کر رہے گا اور اس
کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرۓ گا۔
دوسرا عہد وہ ہے جو آدمی اللہ کا نام لے کر کسی دوسرے فرد، گروہ، یا ادارے
سے کرتا ہے اور اس کی پابندی بھی لازمی ہے۔
تیسرا عہد وہ ہے جو قول و قرار کی شکل میں بندے آپس میں کرتے ہیں اور اس
طرح لین دین کے معاملات اعتماد سے چلتے ہیں ۔
چوتھا عہد وہ ہے جو حقداروں کے درمیان قائم کیا گیا اور جن کے ادا کرنے کا
حکم اللہ تعالٰی نے دیا۔ اہلِ ایمان کے بارے میں قرآن حکیم میں ہے،" جو
اللہ کے ساتھ اپنا عہد پورا کرتے ہیں اور اپنے اقراروں کو نہیں توڑتے اور
اللہ نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا ہے اُن کو جوڑے رکھتے ہیں۔"
اللہ تعالٰی کو حاضر ناظر جان کر اور اللہ کی قسمیں کھا کر جو معاہدہ بندے
آپس میں کرتے ہیں یا نذر مانتے ہیں، اُس کے بارے میں اللہ تعالٰی ارشاد
فرماتا ہے،"اور اللہ کا نام لے کر جب تم آپس میں قول و قرار کرو تو اُس کو
پورا کرو اور قسموں کو پکی کرنے کے بعد توڑا نہ کرو اور اللہ کو تم نے اپنا
ضامن ٹھہرایا ہے۔"
صلح حدیبیہ کے موقع پر جو مسلمانوں اور کفار کے درمیان معاہدہ طے پایا ،
اللہ نے اس کی پابندی کرنے کا حکم دیا۔
آپس کے تعلقات کو خوشگوار طریقے کے قائم رکھنے کو بھی "حسنِ عہد " یعنی ایک
عمدہ اور خوب صورت عہد کہا گیا ہے۔ ایک بار ایک بڑھیا حضور ﷺ کی خدمت میں
حاضر ہوئی ۔ حضور ﷺ نے اس سے کہا کہ تم کیسی رہیں؟ تمھارا کیا حال ہے؟
ہمارے بعد تمھارا کیا حال رہا؟ جب وہ چلی گئ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے
کہا،"آپ ﷺ نے بڑھیا کی طرف اس قدر توجہ فرمائی؟" فرمایا،"عائشہ! یہ خدیجہ
کے زمانے میں ہمارے ہاں آیا کرتی تھی اور حسنِ عہد ایمان میں سے ہے۔"
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبہ کرہم ﷺ ہمارے سامنے جو بھی تقریر
فرماتے اُس میں یہ بات ضرور ارشاد فرماتے ،" خبردار رہو، جس میں کوئی امانت
نہین اُس کا کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کا پابند نہیں اُس کا کوئی دین
نہیں۔"
حضورﷺ نے فرمایا،"چار خصلتیں ہیں جس میں چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے
اور جس میں کوئی ایک پائی جاۓ اُس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ
اُسے چھوڑ نہ دے۔
• جب کوئی امانے اس کے سپرد کی جاۓ تو خیانت کرۓ
• جب بولے تو جھوٹ بولے
• جب عہد کرۓ تو توڑ دے
• جب کسی سے جھگڑا ہو جاۓ تو ساری حدیں پھلانگ دے
دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں نفاق سے بچاۓ رکھے اور حق راہ پر قائم رہنے کی
توفیق عطا فرماۓ (آمین) |
|