“جب میرے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی، میں ان
دنوں مہر ہاؤس ہی تھی ۔ تب بابا میرے بیٹے کو گود میں لیے بیٹھے تھے ۔تو
ارمو بابا ایک لفافہ ہاتھ میں لیے آئے اور بابا کو کہا یہ کوئی عورت دے گئی
ہے۔ انہوں نے والی کو مجھے پکڑا کر وہ خط دیکھنے لگے،،،،کچھ دیر بعد انہوں
نے مجھے آپی کے ہاں بیٹی پیدا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ اور ارمو بابا کو اس
لڑکی کا پوچھا؟ مگر آپی جا چکی تھی ۔ بابا نے انہیں ہر جگہ تلاش کیا مگر وہ
کہی نہیں ملی۔
جب والی تین سال کا ہوا تب بابا اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔
بابا نے مجھے بلایا اور وکیل کو تب ، جو انہوں نے وصیت کی اسنے میرے ساتھ
سب کو حیران کر دیا،،،،حسنہ کا تجسس بھرا فوراً“ بولی “ آنٹی کیا وصیت کی “
شازمہ نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑا،اور بولی “بابا نے کہا،،،اگر ماہم کی
بیٹی یا ماہم لوٹ آئے تو والی اور ماہم کی بیٹی کی شادی کر دی جائے،،،،اگر
ماہم کی بیٹی ،،،یا والی میں سے کوئی بھی ایک ،،،،شادی کے لئے انکار کرے تو
اسکو جائداد سے بے دخل کر دیا جائے،،،،ہاں اگر ،،،،،ماہم کی بیٹی شادی کرلے
ملنے سے پہلے تب کوئی پابندی نہیں ،،،،،اور والی کی شادی 20 سال نہیں کی
جائے ،،،،ماہم کا انتظار کیا جائے۔
شازمہ نے ایک سانس میں سب بتا دیا ۔ حسنہ کو لگا آج سے 17 سال پہلے اسکے
نانا ابو نے اسکی زندگی کا فیصلہ کر دیا ،،،اسنے آہستگی سے شازمہ کے ہاتھوں
سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور چھو ٹے چھوٹے قدم اٹھاتی سٹڈی سے باہر چلی گئی
۔شازمہ نے بھی اسے جانے دیا کیونکہ وہ اسکی حالت اچھے سے سمجھ سکتی تھی ۔
اسنے اسے روکا نہیں اور اسے جاتا دیکھتی رہی ۔طوفاں تو تب آنا تھا جب والی
کو یہ سب پتا چلنا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں آکر سکتے کے عالم میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔ آخر ایسا کیسے
ہوسکتا ہے میری زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اتنے سال پہلے کر دیا گیا،،،،، اور
مجھے ایک ایسے انسان ساتھ جوڑ دیا ،،،جس کی آنکھوں میں ،،،،ًمیں نے نفرت کے
علاوہ اپنے لیے کوئی جذبہ نہیں دیکھا“۔ آنسوں اسکی آنکھوں سے بہنے لگے جو
نا جانے کب تک بہتے رھے ۔۔۔(جاری ہے)
|