وہ رات کافی طوفانی رات تھی۔ بجلی جانے کی
وجہ سے امی اور ابو کے درمیان تلخ کلامی جو کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی
تھی،وہ ختم ہو گئی۔ اب بس سارے گھر والے یہ دعا کر رہے تھے کہ یا اللہ !
بارش ختم ہو جائے اور بجلی بھی آ جائے۔ ہمارے گھرانے کی دعائیں رنگ لائیں
اور بارش تو تھم گئی مگر بجلی نے ہمارے گاؤں کا چکر لگانا مناسب نہیں
سمجھا۔ یہ ان دِنوں کی بات ہے جب ہم گاؤں میں رہتے تھے۔ بارش کے موسم میں
اگر لوڈشیڈنگ سٹارٹ ہوتی تو پورا دن اور پوری رات بجلی کا نام و نشاں نہیں
ہوتا تھا۔ یہ لوڈشیڈنگ تو تاریکی لاتی ہی تھی مگر میرے ننھے سے ذہن میں ایک
اور تاریکی نے بھی بسیرا کر رکھا تھا۔
٭٭٭
اس فیملی کے تمام افراد سوائے ابو اوربڑے بھائی کے ،گھر کے باہر کھڑے تھے۔
سب کے چہروں پر خوف اور پریشانی کے سائے صاف ظاہر تھے۔ گھر کے دروازے کو
اندرسے تالا لگا ہوا تھا۔ اندر میرے والد محترم اپنی پدرانہ شفقت اپنے بیٹے
پر نچھاور کرتے ہوئے اسے خوب زرد و کوب کر رہے تھے ۔ میرے ابو جان کا اصول
تھا کہ جب باہر سے کوئی شکائت لگا دے تو غلطی واقعی ان کی اولاد کی یا گھر
والی کی ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ باہر والے لوگ تو فرشتے ہوتے ہیں۔ کام تو باہر
لوگوں سے پڑنا ہوتا ہے۔ گھر کیا ہے ،بیگم کی بدزبانی اور اولاد کی بے فضول
باتیں ۔ ان کے لیے اچھا موقع ہوتا تھا کہ جب باہر سے کوئی اُن کی اولاد کی
شکائت لگاتا تو وہ سارا غصہ اپنی اولاد پہ اُتار لیتے تھے۔
٭٭٭
"میں آج ڈپریشن اور دل کا مریض ہو ۔مجھے ڈپریشن کا مرض کیونکر لاحق ہوا ؟
میں ذہنی مریض کیونکر بن گیا ؟ میں بلڈ پریشر کا مریض کیوں بن گیا۔؟
حالانکہ میں چوبیس برس کا نوجوان ہو۔ یہ انسان کی زندگی کا وہ حصہ ہے جس
میں ہر انسان روز اک نئی امید ، ایک نئے جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس
عمر میں خوابوں کی تکمیل کا پہلا مرحلہ سٹارٹ ہو تا ہے۔لیکن میرے خواب ،
میری امیدیں مجھ سے کیوں روٹھ گئی؟ میں بھی انسان ہو ، میرے اندر ایک دل
موجود ہے ، اس دل میں زندگی میں بہار لانے کے لیے جذبے موجود ہیں۔ لیکن
حقیقت اس کے بر عکس کیوں ہے؟ میں ناامید کیوں ہوں؟ "یہ سب میں نے اپنےبڑے
بھائی کے ایک رجسٹر پر پڑھا ۔ 12سالہ بچے نے سوچا کہ ایسا کیا مسئلہ ہے
اسکے بھائی کو جو وہ اتنا پریشان اور نا امید ہے؟
٭٭٭
انسان کے قول و فعل میں تضاد کیوں ہوتا ہے؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ میں
نے تو سن رکھا تھا کہ مسلمان کی ایک زبان ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص مسجد کے
منبر پہ خطبہ دیتا ہے کہ "حضور اکرم ؐنے فرمایا ! تم میں بہتر وہ ہے جو
اپنے گھر والوں سے بہتر سلوک کرتا ہے۔"لیکن وہ شخص جب گھر جاتا ہے اور اپنی
بیوی کو دو تین تھپڑرسید کر دیتا ہے کیونکہ اس نے انڈہ فرائی کرنے کی بجائے
اسے انڈے کا سالن بنا کر دے دیا۔ کیا تب اس کو حضور اکرم کا فرمان یاد نہیں
رہتا؟وہی شخص جب رسول اللہ کی وہ حدیث بیان کرتا ہے "جو چھوٹوں سے شفقت اور
بڑوں کا احترام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ۔" مگر اہنے ہی گھر میں وہ ان
سنہری اصولوں کو کیوں بھول جاتا ہے ۔اگر بیٹے سے غلطی سے پانی کا ایک گلاس
اس کے بدن پر گر جائے تو اسے دو تین گالیاں اور تھپڑ ماردیتا ہے حالانکہ وہ
نہانے کے لیے نل کے نیچے بیٹھا ہوتاہے۔ ان باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم
مسلمان نہیں بلکہ منافق ہیں ۔ ہمارے لیے آپ کا اسؤہ حسنہ صرف کتابوں میں
پڑھنے کے لیے اور دوسرے لوگوں کو سنانے کے لیے ہے۔ میں سوچتا تھا کہ میرے
بابا امام مسجد ہیں مگر پھر بھی ہمارے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھتے ہیں ؟
٭٭٭
"میں آٹھ سال کا تھا جب امی روٹھ کر ہمارے ماموں لوگوں کے گھر چلی گئی تھی۔
میں نویں کلاس میں تھا۔ یہاں پر ماموں اور ممانی کی نفرت بھری باتیں سننے
کو ملتی تھی۔ میں احساس ِ کمتری کا شکار ہو گیا تھا۔ ان لوگوں کے گھر میں
ہر کوئی مجھ سے بہتر تھا ۔ کیونکہ انکے ماں باپ اکٹھے رہتے تھے۔ جب ان کی
اولاد دور کھڑے ہو کر آپس میں کھسر پھسر کرتے ہوئے میری طرف اشارے کرتے تھے
تو میں ویسے ہی اپنی موت خود مر جاتا تھا۔ میرے والدین کی ناچاقی کا پہلا
نقصان یہ ہوا تھا کہ میں نویں کے امتحان میں فیل ہو گیا تھا۔ تب بھی ہمارے
بابا ہم کو لینے نہیں آئے تھے۔ میں دوسری بار پھر فیل ہو گیا تھا ۔ لیکن
بابا پھر بھی لینے نہیں آئے تھے۔ "میں نے اپنے بھائی کے رجسٹر کا دوسرا
صفحہ پڑھا تو اس 12 سالہ بچے کے دماغ نے کچھ نہ سمجھ لیا کہ اس کا بھائی نا
امید کیوں ہے؟
٭٭٭
جب سے میں نے ہوش سنبھالا تھا میں نے ہمیشہ اپنی امی جان کو مظلوم ہی پایا۔
وہ اپنی مظلومیت کےقصے لوگوں کو سناتی رہتی ۔ میں دل ہی دل میں اپنے بابا
کو اپنا دشمن سمجھنے لگ گیا تھا ۔لوگوں کو اپنا مظلومانہ قصے سنا کر وہ
اپنا دل تو ہلکا کر لیتی تھی ۔ مگر اس کا فائدہ کیا ہوتا تھا ؟ یہ بات میرے
سوچ سے بالا تر تھی۔ لوگ امی جان کی بدکھ بھری کہانی سنتے ۔افسوس سے چچ چچ
کرتے ۔اور پھر بس ختم ۔ جاتے ہوئے امی جان لوگوں کو کہہ دیتی تھی کہ یہ
باتیں میرے سرتاج کو مت بتائیے گا۔ لیکن لوگ تو پھر لوگ ہوتے ہیں ۔ لوگوں
کے بارے میں سیانے کہتے ہیں کہ درانتی کے دندے ایک طرف اور لوگوں کے دندے
دو طرف ہوتے ہیں ۔ لوگ دو دھاری تلوار لیے آپ کے ارد گرد چکر کاٹ رہے ہوتے
ہیں ۔ کہ کب موقع لے کہ ہم ہمدرد بن کر بیوقوف بنائیں اور اپنی دو دھاری
تلوار سے ان کے گھر پر خاندان پر حملہ کرکے پھوٹ ڈال دیں ۔ یہ باتیں اپنا
مظلومانہ قصہ سناتے ہوئے امی جان کے ذہن میں آ جاتی ہوتی تو شائد ہمارے
والدین میں ناچاقی کی شدت میں زیادہ نہ سہی تھوڑی بہت تو کمی واقع ہوتی ۔
کاش ان کو اس بات کا بھی علم ہوتا کہ سب سے بڑا احمق وہ ہے جو خود اپنی
کمزوری کسی دوسرے انسان کو بتائے اور اس سے یہ بھی درخواست کرے کہ آگے کسی
کو مت بتانا۔
٭٭٭
طوفانی رات تھی۔ میں ایک کمرے میں بیٹھا تھا۔لا ئٹ نہ ہونے کی وجہ سےکمرے
میں اندھیرا تھا۔ میں پڑھنا چاہتا تھا۔ میں نے کوشش کرکے موم بتی ڈھونڈ ہی
لی۔ میں نے موم بتی کو جلایااور پڑھنا شروع کر دیا۔موم بتی کی روشنی کم تھی
۔اسلیے مجھ سے ٹھیک طرح سے پڑھا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ موم بتی
بجھا دو لیکن ایک آواز نے مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا۔
٭٭٭
"ماموں کے گھر تین سال رہنے کے بعد ہمارے ابو کو اپنی اولاد اور اپنی گھر
والی کی یاد آ گئی۔ابو نے کہا و ہ صرف اپنے بچوں کو لینے آئے ہیں ۔گھر والی
کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت تھی لیکن ابوجان کو اپنی انا بہت پسند تھی۔ اُن کو
پتہ تھا کہ جب اولاد میرے ساتھ جائے گی تو اولاد تو ماں کا جگر کا ٹکڑا ہوا
کرتی ہے۔ بھلا کوئی اپنے جگر کے ٹکڑے سے دور رہنا پسند کر سکتا ہے؟اس طرح
تین سال بعد ہماری گھر میں واپسی ممکن ہو پائی۔ میں نے پھر سے پڑھنا سٹارٹ
کیا لیکن کوشش کے با وجود میں میٹرک کو کلئیر نہ کر سکا۔ میری اس ناکامی
میں کس کا دوش تھا؟ ؎تیر کھا کے جو دیکھا کمیں گاہ کی
طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری پہلی شکست نے نفسیاتی طور پر مجھے اکیلا کر دیا
تھا۔ " میرا بھائی کتنے مشکل حالات سے گزرا ہے مجھے شائد اندازہ نہ ہوتا
اگر میں ان کے رجسٹر کا مطالعہ نہ کرتا۔
٭٭٭
شک کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ اگر کہیں بھی شک کا سایہ پڑ جائے تو وہاں ہر سب
ختم ہو جاتا ہے۔ خوبصورت لوگ ،بلند کردار ، بہترین سوچ کو جب شک کی آنکھ سے
دیکھا جاتا ہے تو سب کچھ جعلی لگتاہے۔ اپنوں کا اپنا پن بھی دھوکہ لگتا ہے۔
یہانتک کہ ماں کا پیار بھی ایک فریب لگتاہے۔ اسی طرح ہماری امی جان کو
ہمیشہ سے اس بات کا شک تھا کہ ان کے سر تاج ان سے دھوکہ کر رہے ہیں ۔ ان کا
یہ شک اس وقت یقین میں بدل جاتا تھا جب ہمارے ابو جان باہر تو سب سے بہت
مٹھاس سے بات کرتے لیکن اپنے گھر والوں سے ہمیشہ ہی بے رخی برتتے تھے۔شک کی
اس بیماری نے ہمارے گھر میں کبھی پیار و یگانگت کا پودا اگنے ہی نہیں دیا۔
"جب گاڑی کے دونوں پہیے اپنی انا پر مر مٹنے کے لیے تیار ہو ۔ جب دونوں
پہیوں کا رخ ایک دوسرے کی مخالف سمت میں ہو ۔ایک دوسرے کو ہرانے کی لگن میں
مصروف دونوں پہیے اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ان کے درمیان ایک انجن بھی
ہوتا ہے جو ان کی باہمی رقابت کی وجہ سے بے کار ہو سکتا ہے۔ "
٭٭٭
"صرف والدین کے حقوق نہیں ہوتے بلکہ اولاد کے بھی حقوق ہوتے ہیں ۔ آج
والدین کی ناچاقی کی وجہ میں نفسیاتی مریض بن چکا ہوں۔ میں نے تعلیم حاصل
کرنے کی عمر میں نفسیاتی احساس کمتری کی تعلیم حاصل کی ہے۔ میں اپنے لڑکپن
میں سیکھا ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا کیسے دکھانا ہے؟اگر کوئی مجھ سے زیادہ
بہتر ہے تو وہ ایسا کیوں ہے؟ اپنی اس محرومیت کا شکوہ کیسے کرنا ہے؟ خود
بہتر بننے کی بجائے اس کو بُرا کیسے ثابت کرنا ہے؟ سکول کی کتابیں پڑھنے کی
بجائے میں رسالوں سے سیکھا کہ اپنے والدین سے کیسے بدلا لینا ہے۔ رسالوں نے
مجھے بتایا کہ ان کا قصور ہے کہ انہوں نے مجھے دنیا کی تمام نعمتوں سے
محروم کر دیا۔ میں اپنی تمام ناکامیوں کا ذمہ وار اپنے والدین کو سمجھتا
ہوں۔ لیکن پھر بھی وہ میرے والدین ہیں ۔ اس لیے میں ان کو معاف کر رہا
ہوں۔" یہ رجسٹر کا آخری صفحہ تھا جو میں نے پڑھا۔
٭٭٭
میری امی جان مجھے بتایا کرتی تھی کہ جب میں بہت چھوٹا تھا تو انہوں نے
میرے کچھ کپڑے جو کافی پرانے ہو گئے تھے ان کو باہر پھینک دیا۔کچھ دنوں بعد
انہوں نے دیکھا کہ وہ پرانے کپڑے بالکل صاف ستھرے لگ رہے تھے اور مجھ پر جچ
رہے تھے۔ یہ ایک بہن کی ایک بھائی کے لیے محبت تھی۔ میرے خاندان بہت مختصر
سا تھا۔ ہم دو بھائی اور ایک بہنا۔ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا۔
٭٭٭
میں تقریبا ً ایک ، دو سال کا تھا ۔ جب ہماری فیملی ایک شاد ی پر گئی تھی۔
وہاں پر ایک خالہ نے مجھے بیس روپے دیے اور مجھے گود میں لے لیا۔ انہوں نے
میری بہنا سے کہا کہ میں اس کی نانی لگتی ہوں۔ یہ اب میرے پاس رہے گا۔ میری
بہنا کو یہ بات بالکل گوارا نہ تھی کہ ان کا پیارا سا بھائی کوئی بیس روپے
دے کے لے جائے۔ انہوں نے امی جان سے کہا "(امی جی! اے کوڑی موچی دی نانی
اے،اینہاں دے وی روپے دیو تے میراویرا واپس لے لوو)۔"یہ جھوٹ موٹ کی نانی
ہے ، ان کے بیس روپے واپس کر دیں اور میرا بھائی لے لیں ان سے۔
٭٭٭
موم بتی بجھانا مت! اسے جلتا رہنے دو۔ انہیں لفظوں کے ساتھ مجھے موم بتی
بجھانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ یہ الفاظ ایک کام کے کرنے اور دوسرے کام سے
روکے جانے کے احکامات پر مشتمل تھے۔ میری زندگی کا یہ خواب میرے لیے ہمیشہ
مشعل راہ بنا ہے۔ میں نے یہ خواب اس وقت دیکھا تھا جب میں دوسری کلاس میں
تھا۔ انیس سالوں کی اس زندگی میں جب کبھی میں مایوس ہو جاتا ہوں کہ یہ خواب
مجھے جھنجھوڑتا ہے کہ اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تو مایوس ہو گا تو موم بتی بجھ جائے
گی۔ اگر موم بتی بجھ جائے گی تو تیرا یہ خواب ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے گا۔ یہ
خواب مجھے ہمیشہ نئی ہمت ، جذبہ دیتا ہے۔ میرے خواب کے الفاظ محبت سے اپنی
باہوں میں لے لیتے ہیں اور میں اسی خواب کو ان کی لازوال محبت سمجھتا ہو
اور سمجھتا رہوں گا۔
٭٭٭
ہم دونوں چھوٹے تھے۔ امی جان ہمیشہ بڑے بھائی کی طرف داری کرتی تھیں ۔ اگر
مجھے کبھی ڈانٹ پڑنی تو میری بہنا ہمیشہ میرے دفاع کے لیے آکھڑی ہوتی تھے۔
اسی طرح جب ان کو ڈانٹ پڑتی تو میں خود محاذ میں بلا خوف خطر کود جاتا تھا۔
یہ میرے بچپن کے دن تھے۔ جب میں نے تھوڑی ہوش سنبھالی تو اپنے ارد گرد ماں
کے بعد بہنا کو اپنی مختصر سی دنیا کا سب سے بڑا ہمدرد اور خیر خواہ پایا۔
بعض اوقات ان کا درجہ امی جان سے بھی بڑھ جاتا تھا جب مجھے امی جان سے مار
پڑتی تھی اور بہنا مجھے بچانے کےلیے میدان کارزار میں کود جاتی تھی۔ مجھے
وہ دن بھی یاد ہے کہ جب میں پڑھتا نہیں تھا اور صرف گھر کے سامنے چھوٹی
چھوٹی نہریں بنانے کا کام میں نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا ۔ میں اسی کام میں
مصروف تھا کہ امی جان نے مجھے پیاری اور ننھی سی سزا دینےکا سوچا۔
٭٭٭
میں ایک نہر میں پانی چالو کرنے کے بعد دوسری نہر بنانے کی پلاننگ کر رہا
تھا کہ اچانک میرے اوپر ایک پیاری سی افتاد ٹوٹ پڑی تھی۔ میری امی جان مجھے
جھاڑو کے تنکے سے مار رہی تھی۔ وہ تنکا اس وقت اس وقت کروز میزائل جنتا
اثرا کر رہا تھا۔ اس لیے میرا اینٹی کرافٹ سسٹم زیادہ مزاحمت نہ کر سکا
۔میں نے چارپائی کے نیچے پناہ لی۔ سکھ کی سانس صرف کچھ سیکنڈ ہی نصیب ہوئی
تھی کہ چارپائی نے مزید پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ میں پھر جھاڑو کے
تنکوں کی زد میں تھا۔ پھر اقوام متحدہ اگر جنگ بندی نہ کرواتی تو شائد میری
حالت کافی بگڑ جاتی۔ اقوام متحدہ (میری بہنا) نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
اس طرح میری جان بخشی گئی ۔تب جا کے میں نہر کی منصوبہ بندی منسوخ کر کے
الف انار اور ب بکری والا قاعدہ ہاتھ میں لے لیاتھا۔ ہر میدان میں میری
بہنا نے مجھے سپورٹ کیا تھا۔
٭٭٭
میں اپنی کلاس میں فرسٹ آیا تھا۔ میرے سارے گھر والے بہت خوش ہوئے تھے۔
میرے بڑے بھائی نے مجھے کرکٹ بیٹ تحفے میں دیا تھا۔ میری امی جان نے گاؤں
میں مٹھائیاں تقسیم اور وصول بھی کی تھیں ۔ لیکن میرے ابو جان نے میرے اس
کارنامے پر مجھے داد ِ تحسین نے نہیں نوازا تھا۔ میں ان کے اس رویے پر بہت
پریشان رہتا تھا۔ اگر ابو کے کسی دوست کا بچہ پاس بھی ہو جاتا تو ابو جان
ان کو بڑی مبارک باد اور بچے کی محنت کی داد دیتے نہ تھکتے تھے۔
٭٭٭
ہم دونوں سکول سے پیپر دے کر گھر آئے تو دیکھا کہ امی اور ابو جان کے
درمیان تلخ کلامی جاری تھی۔ ابو جان کو کسی نے بتایا تھا کہ امی جان نے ان
کے بارے میں بتایا ہے وہ گھر میں ناجائز جھگڑا کرتے اور مارتے رہتے ہیں۔ہم
تو ابھی چھوٹےتھے ، لہذا امی جان اپنا دکھ سکھ اپنے گاؤں والوں سے بانٹ
لیتی تھی ۔ مگر یہ دکھ سکھ باٹنا ہمیشہ مہنگا پڑتا تھا۔ ابو جان کو کوئی
بتا دیتا تھا اور امی جان کی ایک بار پھر شامت آ جاتی تھی۔ امی جان کا دکھ
بانٹنا بھی جائز تھا ۔کیونکہ انہوں نے اپنے چھ بیٹے کھوئے تھے۔ جن میں
بھائی میرا ہم نام بھی تھا۔ ان سب کو گنوانے کا قصور وار ابو جان کو ہی
سمجھا جاتا تھا۔
٭٭٭
بہنا کوئی وجہ بھی نہیں بتاتی تھی ۔ سب سے الگ تھلک سٹور روم میں جا کر
بیٹھ گئی تھی۔ گھر والوں نے ان کی لاکھ منتیں کی تھیں مگر وہ ٹس سے مس نہ
ہوئی تھی۔ میں نے بھی لاکھ منانے کی کوششیں کی تھی مگر بے سود۔ والدین کی
نا چاقی نے آج میری بہنا پر بھی یہ اثر ڈالا تھا کہ وہ اس درجے تک احساس
کمتری کا شکار ہو گئی کہ خود کو بے بس اور بے سہارا سمجھنا شروع کر دیا۔
شائد ان کے دماغ پر بچپن سے جوانی تک جاری و ساری والدین کے لڑائی جھگڑے کا
بھوت پوری طرح سوار ہو گیا تھا۔ وہ ہمیشہ سے بہت کم بولتی تھی۔ کانفیڈنس تو
ان سے کوسوں دور تھا۔ اگر والدین گھر سے سکول بھیجنے کے لیے زبر دستی
سائیکل چلانے کا زور ڈالیں اور نہ چلائیں تو والدہ صاحبہ پیچھے سے جوتا
رسید کریں تو وہ لڑکی کیا خاک کانفینڈنس حاصل کرے گی۔ جس کو سکول کی لڑکیاں
اس کا غریب ہونے کا مذاق اڑاتی ہو۔ یہاں تک کہہ اس کے ٹیفن میں موجود کھانے
کا مذاق اڑایا جاتا ہو۔پھر گھر میں ڈانٹ پڑتی ہو کہ کھانا کیوں نہیں کھایا۔
ٹیچر اسے نہ بولنے پر دو تین تھپڑ لگا دیتی ہو۔جس کا بچپن خوشی کے احساس سے
محروم گزرا ہو۔ اس نے زندگی میں والدین کی ناچاقی کے سوا دیکھا ہی کچھ نہ
ہو تو آخر کار وہ کچھ ایسا ہی کرنے کا سوچے گی۔ لڑکیاں ویسے بھی کافی حساس
ہوتی ہیں ۔ ان حالات میں بہنا نے سوچ لیا تھا کہ یا تو زندہ ہی نہیں رہنا
اگر رہنا ہے تو اپنے قریب رہنے والوں سے دور رہنا ہے۔ اپنے والدین کے سائے
سے دور رہنا ہے۔ بس صرف اللہ کے ساتھ لو لگانی ہے ۔
٭٭٭
"اگر تم دونوں میں سے (ماں یا باپ ) یا دونوں کو پڑھاپے میں پاؤ تو ان کو
اف تک مت کہو۔ ان کے ساتھ شفقت سے پیش آؤ۔ان کے دعا کرو کہ اے میرے اللہ !
ان پر رحم فرما ، جس طرح انہوں نے مجھ پر رحم کیا۔ "ادھر قرآن مجید کی یہ
آیات مبارکہ تھی ، ادھر ہم مسلمان تھے۔بڑے بھائی صاحب والدین کو معاف کرنے
سے قبل حساب چکانہ چاہتے تھے۔ اُدھر اللہ کے پاک پیغمبر ﷺ کا فرمان تھاکہ
والدین کی فرمانبرداری کرو ، ایک صورت میں نا فرمانی جائز ہے اگر وہ تمہیں
کفر کی جانب گامزن کریں ۔ اس کے علاوہ ہر حال میں ان کی فرمانبرداری واجب
ہے۔ لیکن صورتحال یہ تھی کہ امی جان لوگوں کو بلانے کے لیے باہر بھاگی جا
رہی ہیں کہ میرے خاوند اور بڑا بیٹا آپس میں دست و گریباں ہیں ۔ بیٹے کے
ہاتھ باپ کی ڈاڑھی کو کھینچ رہے ہیں۔ قصور کیا ہے کہ انہوں نے کہ باپ نے
اُسے باغی کیوں کہا ہے؟ کیونکہ انہوں نے تو سارے گھر کا سرکٹ چلایا ہوا ہے۔
لیکن باپ پھر بھی باغی کہے تو سزا دینی بنتی ہے؟؟؟؟؟باپ کے گریباں تک ہاتھ
پہنچانے سے قبل وہ یہ کیوں بھول گئے کہ اگر باپ راضی ہے تو اللہ راضی ہے۔
اگر باپ راضی نہیں تو اللہ بھی راضی نہیں ۔
٭٭٭
بڑے بھائی صاحب نے کمرا اندر سے بند کر رکھا تھا۔ پنکھے کے ساتھ رسی لٹکی
دکھائی دے رہی تھی۔ چھوٹے بھائی کے رنگ اڑ رہے تھے۔ امی اپنے بیٹے کی منتیں
کر رہی تھیں کہ بیٹا باہر آجاؤ ، ہم کون سا جان بوجھ کر آپ کی شادی نہیں کر
رہے۔ اب آگے سبب نہیں بن رہا تو اس میں ہماری کیا غلطی ہے۔ نہیں یہ سب
اباجان اور آپ کی غلطی ہے ، آپ نے چوبیس سال ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑا کرتے
گزار دیے کبھی اولاد کا خیال نہیں کیا۔ آپ لوگوں کے جھگڑوں کی وجہ سے مجھے
آج رشتہ نہیں دے رہا ہے۔ مجھے مر جانا ہی بہتر ہے ۔ بھائی صاحب کا جواب
تھا۔ وہ یہ بات بھول گئے تھے کہ وہ آج اس ہستی کے سامنے اپنی زبان دراز کر
رہے تھے جس نے اسے بولنا سکھایا تھا۔ اسے چلنا پھرنا اور کھانا پینا سکھایا
تھا۔ خود گیلے بستر پر لیٹ کر اسے گرم اور صاف بستر پر لٹایا تھا تاکہ میرا
بڑھاپے کے سہارے کو ٹھنڈ نہ لگ جائے ۔ وہ اپنی اوقات ہی بھول بیٹھے تھے کہ
جب انہیں رونے کے سوا کچھ نہیں آتا تھا۔
٭٭٭
بابا جان ہمیں سائیکل پر بٹھا کر روز سکول چھوڑ کر آتے تھے اور چھٹی ٹائم
سائیکل پر واپس لینے کے لیے آتے تھے۔ یہ ذمہ داری وہ تقریباً دس سال تک
نبھاتے رہے تھے۔ ہم جو کھانا ساتھ لے کے جاتے تھے اور گھر میں جو کھانا
کھاتے تھے ۔ وہ آسمان سے نہیں ٹپکتا تھا بلکہ بابا جان کی خون پسینہ کی
کمائی سے حاصل ہوتاتھا۔ ہماری جرابوں سے لے کر ہماری سر کی ٹوپی تک ہمیں
کچھ بھی فری نہیں ملتا تھا۔ یہ سب کچھ میری بابا جان کی محنت کا نتیجہ تھا
۔یہ ان کی ہمارے لیے محبت تھی ۔ہم نا جانے کون سی محبت اپنے بابا جان میں
ڈھونڈتے رہے۔
٭٭٭
اگر بہنا، امی یا ابو جان نے میری بیوی کےخلاف ایک بھی بات کی تو گھر کے
لیے اچھا نہیں ہوگا۔ میں خاندان تباہ کر کے رکھ دوں گا۔ بھائی جان کی یہ
دھمکی سن میرادل ڈر گیا تھا۔ امی جان میرے سارے دوستوں کے پاس سائیکل ہے
لیکن میں روزانہ پیدل جاتا ہو۔ مجھے بھائی کا بچپن یاد آ گیا تھا۔ جب وہ
کتنی معصومیت سے امی جان سے شکوہ کر رہے تھے۔ بیٹا کوئی بات نہیں ۔میں اپنے
بیٹے کو جلد ہی نئی سائیکل لا کر دوں گی۔ میں تیرے بابا کی کمائی میں سے
کچھ پیسے ان کی آنکھ سے بچا کر جوڑ رہی ہو ، بس پورے پیسے ہوتی ہی آپ کو
سائیکل لا دوں گی۔ اامی جان بہت شفقت سے اپنے بیٹے کو تسلی دیتی تھی۔ چھٹی
کے وقت جب وہ گھر آتے تو امی جان ان کے وارے نیارے ہوتی تھی۔ آگیا میرا
لال! کتنا تھک گیا ہو گا۔ جلدی سے بیگ اتاروں ۔ دیکھو تو میں نے اپنے من
موہنے کے لیے کیا بنایا ہے۔لیکن اب بھائی جان کو بیوی کی روٹی میں زیادہ
زیادہ سواد آنے لگ گیا تھا شائد جو خاندان ختم کرنے کی بات کر رہے تھے۔
٭٭٭
بیٹیوں کو کم اہمیت دینا شائد فرض عین سمجھا جاتا ہے۔ بیٹوں پہ بہت سی
امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اس لیے ان کی اچھی خاصی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور
ان کے ناز نکھرے اٹھائے جاتے ہیں تا کہ وہ خوبرو جوان ہو کر ان کر پڑھاپے
کا سہارا بنیں ۔ ان کے لیے ایک پیاری سی بہو لے کر آئے اور پھر دونوں ماں
باپ کی خوب خدمت کریں۔ لیکن جب بہو آ جاتی ہے تو بیٹا جی خدمت گار بن تو
جاتے ہیں لیکن اپنی بیگم جی کے۔ والدین وہی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ۔ بہنا
کے ساتھ بھی امی جان پرایا دھن سمجھ کر سلوک کرتی رہیں۔ بھائی کو دیکھنے کے
لیے آنا تو بہنا کو زبردستی سکول سے چھٹی کروائی جاتی۔ جب دل کیا ،ذرا سی
غلطی ہوئی نا تو چانٹا جڑ دیا۔ بات کرنے کی اجازت بھائی کو ہی ہوتی تھی اور
بھائی کی بات کو سننا لازمی سمجھا جاتا تھا۔ بہنا کی بات تو ایسے تھی جیسے
کوئی اختیاری مضامین ۔
٭٭٭
باہر جو بھی لوگ بولتے ہیں ، مجھے طعنے دیتے ہیں ۔میں ان کو جواب دیتی ہو۔
یہ میری بہنا کا موقف تھا۔ شائد احساس کمتری اس سٹیج پر پہنچ گیا تھا کہ اب
لوگوں گھر بیٹھے بہنا کے ذہن میں داخل ہو کر اسے طعنے دیتے تھے۔ شائد وہ
خود ساختہ ان طعنوں کو جواب دینے میں اپنی فتح سمجھتی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ
وہ دنیا کو سمجھ رہی ہیں ۔ تم سب لوگ پاگل ہو، جو مجھے پاگل کہتے ہو۔والدین
کی حوصلہ افزائی ان کو اس اسٹیج پر لے آئی تھی کہ وہ اب خود ہنستی اور
بولتی رہتی تھی۔ انہوں نے اپنے اندر ہی ساری دنیا کو بس لیا تھا اور اپنا
ایک جہاں بنا لیا تھا جہاں پہ وہ لوگوں کو باتیں سنا سکتی تھیں اور اپنے رب
کو ہاد کر تی رہتی تھیں۔
٭٭٭
امی جان نے جب یہ دیکھا کہ اُن کی بیٹی اللہ کو ہر وقت یاد کرتی رہتی ہے تو
ساری زندگی شک میں مبتلا شدہ ان کا ذہن نے ایک خیال اور جنم کے لیا۔ان کی
بیٹی اپنے ماں باپ اور بڑے بھائی کے خلاف بدعائیں کرتی ہے۔ امی ہمیشہ ان کو
کوستی رہتی ہیں کہ آج میرے گھٹنوں کوتکلیف دے دی تم نے بد دعائیں کرکے۔آج
میرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ تمہیں بتانا ہی نہیں چاہیے تھا ان کی آمد
کا۔ گھر میں اگر کوئی نقصان ہوتا تو امی جان سب بہنا کے ذمہ ڈال دیتی تھی۔
نہ جانے ان کے ذہن کا یہ وہم کب جائے گا؟نا جانے بہنا کے ساتھ یہ بد سلوکی
کب ختم ہوگی؟
٭٭٭
والدین کا رتبہ بہت بڑا ہے۔ لیکن والدین کی بہت ساری ذمہ داریاں بھی ہیں ۔
ان میں سے سب سے اہم آپس میں سلوک کے ساتھ رہنا ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ بہت
نازک ہوتا ہے۔ جب اولاد ہو جاتی ہے تویہ رشتہ مزید قدروقیمت کا حامل ہو
جاتا ہے، ا ن کواس رشتے کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ ایک دوسرے کی رائے کا
احترام کرنا چاہیے۔ اگر ایک پارٹنر ایک زیادتی بھی کرتا ہے تو اسے برداشت
کرنا چاہیے ۔ ہو سکتا ہے اسے احساس ہو جائے ۔اس زیادتی کا بدلہ لینے کی تاک
میں رہیں گے تو اولاد کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔اگر کامیاب والدین اپنی انا
کو پس پشت ڈال دیتے ہیں تاکہ ان کی اولاد کی تربیت بہترین ہو سکے۔
٭٭٭
شک اور ناچاقی نے اپنا سایہ شفقت میرے سر پر بھی ہمیشہ رکھا۔ میرے جب بھی
ایگزامز ہونے والے ہوتے تھے تو گھر میں میرے والد محترم اور والدہ محترمہ
کی کوئی نہ کوئی چپقلش چل رہی ہوتی تھی۔ میں امتحان میں اول آتا تھا تو ابو
جان اپنی انا اور امی اپنی انا میں ، دونوں ہی مجھے بھول جاتے تھے۔ جب کچھ
بڑا ہوا تو بھائی جان نے گھریلو ناچاقی میں چار چاند لگا دیے تھے۔ کفر ٹوٹا
خدا خدا کرکے ! ان کی شادی ہو گئی تو گھر میں کچھ سکون ہوا۔ یہ سکون زیادہ
عرصہ تک بحال نہ رہ سکا ۔کیونکہ شک کی بیماری میرے والدین کو لگ چکی تھی ۔
ان کو میرے اوپر شک ہونے لگ گیا تھا کہ اے منڈا پڑھن نہیں جاندا بلکہ آوارہ
گردی کرکے واپس آ جاندا اے۔ یہی شک نے مجھے تعلیم سے دل برداشتہ کر دیا تھا
۔ کچھ میری غفلت تھی کہ اپنے دور کا ہونہار طالب علم ایک فیلئر سٹوڈنٹ میں
بدل گیا تھا ، اس میں کچھ والدین کی کرم نوازی بھی شامل تھی۔ کچھ حالات نے
مجبور کر دیا تھا۔لیکن کچھ بھی ہو جا ئے مجھے نفسیاتی مریض نہیں بننا ہے۔
کیونکہ میرا خواب میرے ساتھ ہے۔
٭٭٭
اس اندھیری رات کے اس خواب میں مجھے میرے ابو جان نے کہا تھا کہ بیٹا موم
بتی جلنے دو۔ اسے مت بجھانا۔ یہی خواب مجھے زمین کی گہرائیوں سے اٹھا کر
آسمان کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ میں ایک موم بتی ہو ، مجھے جلنا ہے ۔ مجھے
دنیا کو روشن کرنا ہے ۔ کیونکہ میرے ابو جان نے مجھے خواب میں کہا تھا ۔
اور جب والد راضی ہوتا ہے تو میرا اللہ راضہ ہوتا ہے۔ میرے والد کی محبت
میرے ساتھ ہے۔ ان کی گھریلو چپقلش ایک طرف لیکن ان کی لازوال محبت مجھے
جینے کا سلیقہ دے رہی ہے۔ وہ مجھے سکھا رہی ہے ہوا کے جھونکے تجھے بجھانے
کی کوشش کریں گے تو لیکن تو بے ہمت نہیں ہارنی ہے ۔ ہمیشہ جلتے رہنے کا ،
خود کو روشن کرنے کا اور دوسروں کو روشنی دینے کا فرض پورا کرنا ہے۔
کچھ تو بتا اے زندگی!
اپنا پتہ اے زندگی!
|