رات بڑی اضطراب اور بے چینی میں گزری، بار
بار ایک خواہش جنم لیتی رہی کہ کاش ان بارہ کی تعداد میں ہوٹل میں برجمان
لیکچرارز اور پروفیسرز کے جھرمٹ میں میرا جاننے والا کوئی ایک لیکچرر یا
پروفیسر ہوتا اور میں ان کی قہقہوں سے بھرپور محفل میں شامل ہو کر اپنے دل
کی بھڑاس نکال لیتا ۔۔۔کاش ایسا ہوتا ۔۔۔کاش ایسا ہوتا۔۔۔اور میری رات بے
چینی و اضطراب میں نہ گزرتی مگر۔۔۔مگر ایسا نہ ہوا، ان ’’پڑھے لکھے ‘‘ طبقے
میں میرا ایک جاننے والا بھی نہ تھا اور میں اپنی بھڑاس سینے میں دبائے گھر
آگیااور رات کے اس سناٹے میں اضطراب سے تنگ آکر ڈائری اٹھائی اور ایمرجنسی
لائیٹ کی روشنی میں اپنی بھڑاس کاغذ پر نکالنا شروع کر دی ۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ رات کے ۸ بجے اکیڈمی بند کی تو تین طالب علموں نے سخت
سردی کے پیش نظر سوپ کی فرمائش کی لہٰذا ان کو ساتھ لے کر ایک ہوٹل میں
پہنچا جو شدید سردی کی وجہ سے خالی تھا ، دیوار پر تھوڑی بلندی پرلگے ایل
سی ڈی ٹی وی پر ٹاک شو چل رہا تھا اور بارہ کی تعداد میں کچھ افراد دو تین
ٹیبلز کو جوڑ کر ایک لمبا ٹیبل بنا کر اس کے اردگرد بیٹھے کھانے کا انتظار
کر رہے تھے، ٹاک شو جو ٹی وی پر چل رہا تھا اس میں بھی زور و شور سے بحث چل
رہی تھی جب کہ لیکچرارز اور پروفیسرز کے جھرمٹ میں بھی کسی بات پر قہقہے
لگائے جارہے تھے ۔ ان بارہ افرادکے قہقہوں اور ٹی وی ٹاک شو کی وجہ سے ہوٹل
بھرا ہواسنائی دے رہا تھا ۔میں اپنے طالب علموں کے ساتھ ایک طرف ہو کر
خاموشی سے بیٹھ گیا کیوں کہ ہمارے دور میں جہاں استاد شاگردوں کو دیکھ کر
اپنے منصب کے تقدس کی خاطراحتیاط برتتے تھے وہاں شاگرد بھی عزت و احترام کی
خاطراپنی چال ڈھال اورآواز کے ساتھ ساتھ نظریں بھی نیچی کر لیتے تھے لہٰذا
میں نے بھی اساتذہ اور شاگردوں کی موجودگی میں اپنے منصب کے تقدس اور عزت و
احترام کو ملحوظ خاطر رکھا اور ویٹر کو آرڈر دے کر خاموش بیٹھ گیا۔
لیکچرارزاور پروفیسرز کے جھرمٹ میں ایک صاحب نے مجلس کو خاموش کرایا اور
ایک لطیفہ سنایا جس پرباقی پڑھے لکھے افراد نے زور دار قہقہہ ایسا لگا یا
کہ جیسے ان کے دل کی آواز اس لطیفہ کے ذریعے ان صاحب کے لبوں سے نکلی ہو،
قہقہوں سے جب یہ پڑھے لکھے افراد تھکے تو باری باری سب نے اس لطیفہ پر اپنے
اپنے’’ خیالات‘‘ کا اظہار کر کے اپنے اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور قہقہوں پر
قہقہے ہوٹل کے ماحول میں گونجنے لگے ۔جن لطیفوں پر یہ افراد قہقہے اور اپنے
اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے وہ اتنے اخلاق سے گرے ہوئے تھے کہ میں نے
اپنے منصب کے تقدس اور عزت و احترام کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر طالب علموں
کے ساتھ اونچا اونچا بولنا شروع کر دیا تا کہ طالب علموں کے کانوں میں ان
افراد کے قہقہے اور لطیفے نہ گھسیں مگر میری یہ کوشش اس وقت بے سود رہی جب
ایک طالب نے میرے سے یہ سوال کیا ’’سر یہ پروفیسرز جو لطیفے سنا رہے ہیں
کیا آپ نے سنے ہیں ؟‘‘ میں اس سوال کا کیا جواب دیتا دوسرے طالب علم نے
پوچھا کہ سر یہ لوگ کیوں مولویوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اتنے اخلاق سے
گرے ہوئے لطیفے ان سے منسوب کر کے کیوں ہنس رہے ہیں ؟ان دو سوالات کے جواب
تیسرے طالب علم نے اس مختصر سے جواب میں دے دیا ’’صرف اپنے آپ کو مطمئن
کرنے کے لیے‘‘تیسرے طالب علم کے اس جواب کے ساتھ ہی میں نے سوپ کا آخری سپ
لیا اور اپنے دائیں طرف بیٹھے پڑھے لکھے افراد کو دیکھا جوٹی وی پر چلنے
والے ایک کریم کے اشتہار میں نیم برہنہ عورت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے
میں انھیں’’ مطمئن ‘‘ دیکھ کر ہوٹل سے نکل تو آیا مگر میرا ذہن منتشر تھا
کہ آخر مولوی کا قصور کیا ہے ؟ اور یہ اپنے آپ کو ’’مطمئن‘‘ کرنے کے لیے
اتنے اخلاق سے گرے ہوئے لطیفے کیوں اسلامی معاشرہ کے قابلِ عزت واحترام اس
طبقہ سے منسوب کر رہے ہیں ۔
شاید مولوی کا قصور یہ ہے کہ وہ ٹھٹھرتی صبح ٹھنڈے یخ پانی سے وضو کر کے
لوگوں کو اٹھاتا ہے اور بار بارگرم کمروں کے گرم بستروں میں سوئے ہوؤں کو
جگاتا ہے اور صدا لگاتا ہے ’’حی الصلوٰ ۃ حی الصلوٰۃ، حی الفلاح حی
الفلاح‘‘۔۔۔شاید یہی مولوی کا قصور ہے کہ وہ خواب غفلت میں مخمور لوگوں کو
فلاح کی طرف بلاتا ہے کامیابی و کامرانی کی طرف بلاتا ہے ۔شاید مولوی کا یہ
قصور ہے کہ جب بڑے بڑے ناموروں کے نام و نشان،ہیبت ، جاہ و جلال ختم ہو
جاتا ہے اور وہ بے جان ہو کر ایک چارپائی پر بے سدھ پڑا ہوتا ہے تو مولوی
اس کو سامنے رکھ کر اس کے لیے نماز پڑھاتا ہے اور اس کی بخشش کی دعائیں اﷲ
کو واسطے دے دے کر مانگتا ہے ۔۔۔شاید مولوی کا یہ قصور ہے کہ وہ اپنے کام
کاج چھوڑ کر در در جاتا ہے اور لوگوں کودنیا کے لیے بے سود اندھی بھاگ دوڑ
سے بچانے کے لیے مقصد حیات یاد دلاتا ہے ۔مولوی کا یہ قصور ہے کہ حج و عمرہ
پر جانے والے ان افراد کے لاکھوں روپوں کی فکر کرتا ہے انھیں حج وعمرہ کا
طریقہ سکھاتاہے کہ کہیں ان کا حج وعمرہ اور لاکھوں روپے ضائع نہ ہوں ۔
مولوی کا یہ قصور ہے کہ ہم سایوں کے حقوق یاد دلاتا ہے معاشرے میں دولت کی
مساویانہ تقسیم کے لیے زکوٰۃ و خیرات اور صدقات کا درس دیتا ہے ۔ مولوی کا
یہ قصور ہے کہ وہ دولت مندوں کو اپنی دولت پاک وصاف کرنے اور ا س دولت کی
وجہ سے عذاب سے بچانے کے لیے تلقین کرتا ہے ، مولوی کا یہ قصور ہے کہ وہ
معاشرے میں ظلم ، نا انصافی ، زیادتی و تشدد کم کرنے کے لیے ہر فرد کو اس
کی استطاعت کے مطابق ہدایات قرآن و سنت کے مطابق دیتا ہے ۔ مولوی کا یہ
قصور ہے کہ وہ حقوق العباد کی تلقین کرتا ہے ۔
ہاں مولوی کا یہ بھی قصور ہے کہ وہ مختصر سی آمدنی پر گزر بسر کرتا ہے
مستقبل کے لیے جائز و ناجائز طریقہ سے حق مار کر بچاتا نہیں ہے بچوں کے
مستقبل کے لیے گلے نہیں کاٹتا ہے ، آدمی کو پیسوں سے تول کر بولی نہیں
لگاتا ہے ، اچھے سے اچھے کا بہانہ بنا کر ہوس نہیں کرتا ہے ،جائیدادیں ضبط
نہیں کرتا ہے ، اپنی تجوری بھرنے کے لیے ڈاکے نہیں مارتا، قتل وغارت گری
نہیں کرتا ، دکھاوے اور دنیاوی ناک بچانے کے لیے فضول خرچی نہیں کرتا ہے
اور نہ ہی مولوی پر آوازیں کسنے والوں، مولوی کے بارے میں غیر اخلاقی لطیفے
سنانے والوں اور ان پر زور دار قہقہے مارنے والوں کی طرح حق مار کر گاڑیاں
، محل اور جائیدادیں بناتا ہے ۔
ان’’ پڑھے لکھوں ‘‘کی اس سے بڑی منافقت اور کیا ہو گی کہ پوری عمر یہ اس
طبقہ کے خلاف نبرد آزما رہتے ہیں ہر فورم پر یہ مولوی کواپنے اندر کی خلش
اور بغض کو’’ مطمئن‘‘کرنے کے لیے تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں اور مرنے کے بعد
جنازہ اسی طبقہ سے پڑھاتے ہیں ، قرآن خوانی اسی طبقہ سے کرواتے ہیں ، بخشش
کی دعائیں اسی طبقہ سے کرواتے ہیں حتیٰ کے بچے کی پیدائش پر یہ مولوی کے
پیچھے بھاگتے ہیں کہ بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہی جائے کیوں کہ اذان
یاد کرنے کے لیے روزانہ پانچ وقت کی پکار ان پر گراں ہوتی ہے اور اقامت یاد
کرنے کے لیے نماز باجماعت پڑھنے کا وقت کاروبار کا وقت ہوتا ہے ۔
مولوی کے خلاف صف آراء یہ ’’پڑھے لکھے ‘‘ افرادزندگی کے ہر شعبہ میں آج کل
باکثرت پائے جاتے ہیں ان کے پاس دلائل بہت ہیں جن کو زبان پر لا کر اور ہر
فورم پر چیخ و پکار کر کے اپنے اندر کی خلش اور بغض کو’’ مطمئن ‘‘کرنے کی
اپنے تئیں بھر پور کوشش کرتے ہیں ان کو کرپشن ، قتل وغارت گری ، چوری و
ڈاکہ زنی اور بے شمار معاشرتی قباحتوں کے سرچشمہ افراد نظر تو آتے ہیں مگر
یہ ان کو غلطی کا پتلا سمجھ کر ’’مطمئن‘‘ ہو جاتے ہیں، جب کہ مولوی سے ہونے
والی ذرہ سی غلطی کوتائی کو گناہ عظیم سمجھ کر اپنے اندر کی دشمنی کو
’’مطمئن ‘‘ کرنے کے لیے ہر فورم پر صف آرا ء ہوتے ہیں ، کیا مولوی انسان
نہیں ہے ؟ کیا مولوی سے دوسرے انسانوں کی طرح غلطی نہیں ہو سکتی ہے ؟ اگر
ایسا ہے تو پھرزندگی کے دوسرے شعبہ جات سے منسلک افراد نفرت و بغض کے شکنجے
میں کیوں نہیں کسے جاتے ہیں ان پر لطیفے سنا کر قہقہے کیوں نہیں لگائے جاتے
ہیں اور مولوی کو ہی نفرت و بغض کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ شاید کے اپنے
آپ کو مطمئن کرنے کے لیے ،شاید کے اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لیے کیوں
کہ۔۔۔کیوں کہ انسان بڑا خسارے میں ہے ۔۔۔بے شک انسان بڑا خسارے میں ہے۔ |