کرپشن ختم ، پیسہ ہضم
(Syed Amjad Hussain Bukhari, )
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے رپورٹ جاری کی جس
کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں کمی ہو ئی ہے، اور شفافیت میں پاکستان کا
درجہ بہتر ہوا ہے۔ جی خوش ہوا، قریب تھا کہ بھنگڑا ڈالتا ، لیکن پنجاب میں
کرپشن ختم نہیں ہوئی تو بھنگڑا کس خوشی میں ، پھر خٹک ڈانس کے لئے اپنے
ہاتھوں کو وارم اپ کر ہی رہا تھا خبریں ذہن میں گردش کرنے لگیں کہ خیبر
پختونخواہ حکومت کے ایک وزیر کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔ اسی شش و
پنج میں مبتلا تھا کہ ایک دوست نے سرگوشی کہ ارے بابا ’’مٹکا ڈانس‘‘ ہی کر
لو، ابھی مٹکا سر پر رکھا ہی تھا کہ عدالت کے ریمارکس لاڑکانہ کے حوالے سے
یاد آگئے کہ ’’ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے‘‘۔ بلوچ رقص کی ہمت ہی نہ
ہوسکی ، اس لئے رضائی لے کر بستر میں گھس گیا کیوں کہ لاہور میں بارش کے
بعد گلیوں میں پانی جمع ہو چکا تھا اور باہر نکلنا ناممکن تھا۔ رضائی جو ہے
ناں کبھی کرپشن نہیں کرتی، امیر کو بھی اتنی ہی حرارت فراہم کرتی ہے جتنی
تپش کوئی عام آدمی اس سے حاصل کرتا ہے، مگر یہاں بھی کرپشن تب ہوتی ہے جب
رضائی کا معیار بدل جاتا ہے، خیر بات کرپشن کی ہورہی تھی اور رضائی کا
تذکرہ کرنا مناسب بات نہیں ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کرپشن اور سیاست
کے بعد رضائی وہ واحد چیز ہے جس سے نکلنے کو جی نہیں کرتا۔چلیں جناب کچھ
تذکرہ کرپشن کے حوالے سے رپورٹ کا ہو جائے۔بدعنوانی پر نظر رکھنے والی ایک
موقر بین الاقوامی تنظیم "ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل" کی تازہ رپورٹ میں بتایا
گیا ہے کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر بدعنوانی میں کمی دیکھی گئی ہے اور
خطے کے دیگر ممالک کی نسبت اس کے نمبر میں بہتری آئی ہے۔دنیا کے 168 ممالک
میں بدعنوانی سے متعلق ماہرانہ آرا پر مشتمل رپورٹ بدھ کو جاری کی گئی جس
میں بتایا گیا کہ خطے کے دیگر ملکوں میں سے پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں
شفافیت میں بہتری آئی جب کہ دیگر ممالک کا نمبر یا تو وہی رہا یا پھر اس
میں تنزلی دیکھی گئی۔ایک بین الاقوامی تنظیم کی جانب سے رپورٹ آنا اور
پاکستان کی کارکردگی کا بہتر ہونا یقینا ایک نیک شگون ہے مگر اس رپورٹ پر
مجھے چند تحفظات ہیں۔ گذشتہ سال جس طرح نیب نے پلی بارگین کے ذریعے کچھ
مچھلیوں کو چند سانسیں ادھار دینے کا طریقہ اختیار کیا ہے اس کی گونج ایوان
بالا اور ایوان زریں میں سنائی گئی۔ مگر بلوچستان، سندھ ، پنجاب اور خیبر
کے چند اہم کردار اور ان کی سیاسی پشت پناہی کو اس رپورٹ میں کون سی جگہ
ملی ہے۔ ایک کلرک سے لے کر بیوروکریٹس اور سیاست دان سبھی کالے دھن کو سفید
کرنے میں مگن ہیں۔ اس کے لئے پلی بارگین کا قانون صاف دھلائی کا واحد راستہ
قرار پایا۔اب پاکستان نے کرپشن پر قابو پا لیا ہے تو لگے ہاتھوں ایف بی آر
کو بھی سلام ہے ۔جوپورے سال کا صرف ڈھائی ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع کرتا
ہے جو کہ ساڑھے سات ہزار ارب ہو سکتا ہے۔ کرپشن کی وجہ سے پانچ ہزار ارب
ٹیکس جمع ہی نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے کم گو صدر صاحب بھی کرپشن کے خلاف
میدان عمل میں آگئے ہیں فرماتے ہیں میں اپنے نوجوانوں کو یہ تلقین کرنا
چاہتا ہوں کہ یہ بدعنوانی اور کرپشن نے پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹا ہے میں
اپنے بچوں کو یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بات گرہ میں باندھ لیں کہ اگر
پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو اس کرپشن اور بدعنوانی کو لگام دینا ہے اور
اچھے اچھے منصوبے اس ملک میں شروع جبھی ہوں گے جب ہم کرپشن اور بدعنوانی کو
لگام دیں گے اور اپنے وسائل کو ضائع ہونے سے بچائیں گے یا لوٹ مار سے
بچائیں گے تبھی ہم آگے بڑھ سکیں گے۔مجھے اس رپورٹ پر فخر بھی ہے جہاں قوم
کو ایک امید نظر آئی وہیں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے بھی
پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا سامان بھی ملا ہے۔ بھلے ہی
حکومت اور اپوزیشن پانامہ کیس میں الجھے ہوئے ہوں، مشتاق رئیسانی کا
رئیسانہ انداز بھی سبھی کو کھٹک رہا ہو، عام آدمی چھوٹے چھوٹے کام کے لئے
بڑی بڑی رشوت دیتا ہو۔ کیا ہے اگر ملک بھر میں ایف آئی آر کے اندراج کے لئے
اے ٹی ایم سے ہو کر آنا پڑتا ہے۔ کون سا آسمان پھٹ پڑا جو تقرری اور تبادلے
کے لئے ممبران اسمبلی کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔ ان حالات کے باوجود شفافیت
اور کرپشن کی کمی میں ہمارا نظام بہتر ہوا ہے۔ خوشی کے شادیانے بجانے چاہیں
کہ ایک گلی کے ٹھیکے سے لے کر اربوں کی سڑکوں کی تعمیر میں ہم اپنے لوگوں
کو نوازتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ ایک ہی ماہ بعد کنکریٹ اور تارکول وہاں
دکھائی نہیں دیتے۔ کرپشن حکومتیں ہی نہیں کرتی ، کرپشن کے کسی نہ کسی طرح
حصہ دار ہم بھی ہیں، نادرا آفس کے باہر چند منٹ لائن میں نہیں لگ سکتے، جیب
ڈھیلی کرتے ہی با ٓسانی چند منٹوں میں باری آجاتی ہے۔ تعلیمی ادارے میں
داخلے کے لئے پرچی کا سہارا لیتے ہیں۔ نوکری کے لئے بھی لاٹری ضروری ہے۔ سب
ہم اپنی آسانیوں کے لئے کرتے ہیں۔ یہی آسانیاں اگرسیاست دان ، بیوروکریٹس
اور کسی اور شعبہ سے منسلک افراد تلاش کریں تو مجرم ٹھہرتے ہیں۔ کرپشن کا
خاتمہ خود سے کریں، بلکہ خود اپنے آپ کو اگر آپ فری کرپشن کر لیں گے تو ملک
کرپشن فری ہو جائے گا۔ ملکی اداروں کی حالیہ کارکردگی یقینا لائق داد و
تحسین ہے۔ ملک میں شفافیت کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے کئے جانے والے
اقدامات قابل تسلی نہ سہی مگر بارش کا پہلا قطرہ تو ضرور ہیں۔ یہی پہلا
قطرہ ایک موسلا دھار برسات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔اداروں میں دیانت
دار افسران اور قابل افراد غیر سیاسی بنیادوں پر تعینات کرنے سے اداروں کی
کارکردگی بہتر سے بہترین ہو سکتی ہے۔پاکستان کی کارکردگی مزید بہتر ہو نے
سے غیر ملکی سرمایہ کارملک میں سرمایہ کاری کریں گے جبکہ ملکی سرمایہ کاروں
کو یہاں اپنے سرمایے کی تحفظ کا احساس پیدا ہوگا۔ |
|