ماضی میں کہا جاتا تھا کہ “ دمہ دم لے کر ہی جاتا ہے“٬
لیکن الحمدﷲ آج کے دور میں نہ صرف اس مرض کی تشخیص ممکن ہے بلکہ اس کا مکمل
علاج بھی کیا جاسکتا ہے- لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ درست آگہی نہ ہونے کے
سبب دمہ (Asthma) کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد موت کا شکار بن جاتی ہے- ہم
آج صرف بچوں میں دمہ کی علامات٬ وجوہات اور ان کا علاج کے حوالے سے بات
کریں گے-اور اس سلسلے میں ہماری ویب کی ٹیم نے معروف چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر
مبینہ آگبٹوالہ سے خصوصی ملاقات کی اور ان سے دمہ کی علامات٬ وجوہات اور ان
کا علاج کے بارے میں دریافت کیا-ڈاکٹر صاحبہ اس مرض کے بارے میں کیا
معلومات فراہم کرتی ہیں٬ آئیے جانتے ہیں-
ڈاکٹر مبینہ کہتی ہیں کہ “ جیسے جیسے موسم بدل رہا ہے٬ سردی بڑھ رہی ہے
ویسے ویسے کئی بیماریاں بھی سر اٹھا رہی ہیں- ان بیماریوں میں چیسٹ انفیکشن
کے علاوہ ایک بیماری ایسی بھی ہے جو سردیوں کے علاوہ بھی سال بھر موجود
رہتی ہے لیکن اس موسم میں بڑھ جاتی ہے اور وہ ہے دمہ (Asthma) کی بیماری“-
|
|
“ تقریباً 80 فیصد لوگ دمہ کی بیماری کے حوالے سے الجھن کا شکار ہیں اور اس
بات سے ناواقف ہیں کہ آخر دمہ ہے کیا؟“
“ دمہ میں ہماری سانس کی نالی تنگ ہوجاتی ہے- جب سانس کی نالی سکڑنے کی وجہ
سے تنگ ہوجاتی ہے تو سانس کے ساتھ ایک سیٹی کی جیسی آواز آتی ہے- بچوں اور
بڑوں دونوں میں دمہ عام ہے اور جب اس کا حملہ ہوتا ہے تو سانس کے ساتھ سیٹی
کی آواز آنے لگتی ہے“-
“ سانس کی نالی سکڑنے کی وجہ سے پھیپھڑوں تک ہوا یا آکسیجن کم پہنچتی ہے
جبکہ ہمارے جسم کو آکسیجن کی اشد ضرورت ہوتی ہے- اسی لیے جب بچے پر جب دمہ
کا اٹیک ہوتا ہے تو وہ تیزی سے اور گہرے سانس لے رہا ہوتا ہے“-
|
|
ڈاکٹر مبینہ مزید کہتی ہیں کہ “ بچوں اور بڑوں کے سانس لینے کی رفتار میں
فرق ہوتا ہے- اگر بچے کی عمر 1 سال یا چھ ماہ سے کم ہے اور بچہ ایک منٹ کے
دوران 50 یا 60 ماہ سے زائد بار سانس لے رہا ہے تو یہ خطرے کی نشانی ہے-
اسی طرح اگر بچے کی عمر 2 سال سے زیادہ ہے اور وہ ایک منٹ میں 40 مرتبہ سے
زائد بار سانس لیتا ہے تو یہ بھی خطرناک ہے- آپ گھڑی سے وقت ملا کر سانس کی
رفتار چیک کرسکتے ہیں“-
“ دمہ کی دوسری علامت پسلیوں کا چنا ہے٬ یہ اوپر نیچے آگے پیچھے چلنے لگتی
ہیں- اس کے علاوہ تیسری علامت پسلیوں اور پیٹ کے درمیان پڑنے والا گڑھا ہے-
ایسی صورتوں میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور وہی آپ کو بتائے گا کہ یہ
واقعی دمہ ہے یا پھر نمونیہ“-
“ دمہ میں بخار چڑھتا بھی ہے اور نہیں بھی چڑھتا- اگر دمہ کسی انفیکشن کے
ساتھ ہو تو اس کے ساتھ بخار ہوتا ہے ورنہ نہیں ہوتا“-
“ صرف دمہ ہونے کی صورت میں دمہ کا ہی علاج کرنا چاہیے٬ اینٹی بائیوٹک نہیں
دینی چاہیے- ہر دفعہ بچوں کو اینٹی بائیوٹک دوائیں دینے کی ضرورت نہیں ہوتی-
انفیکشن کے ساتھ ہونے والے دمہ کے اٹیک میں اینٹی بائیوٹک دوائیں دی جاتی
ہیں- بعض اوقات خود گلے کے انفیکشن کی وجہ سے بھی دمہ کا اٹیک ہوسکتا ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کا کہنا تھا کہ “ دمہ کا مرض لاحق ہونے کی 2 سے 3 وجوہات ہوتی
ہیں- ایک یا تو فیملی میں کسی کو یہ مرض ہے٬ یا آپ کو کوئی الرجی ہوتی ہے
اور چھینکیں آتی ہیں اور ساتھ آنکھوں اور ناک سے پانی بہتا ہے یا پھر جلد
کا کوئی انفیکشن ہے“-
|
|
“ ایک الرجی دھول مٹی سے ہوتی ہے٬ موسم تبدیل ہوتے ہی دھول مٹی اڑتی ہے اور
دمہ کا اٹیک ہوجاتا ہے- پالتو جانوروں کی کھال کے رووئیں جب ناک میں داخل
ہوتے ہیں تو الرجی ہوجاتی ہے اور دمہ کا اٹیک ہوجاتا ہے- اس کے علاوہ گھر
میں بہت زیادہ لگے پردے اور قالین بھی دمہ کے اٹیک کا باعث بنتے ہیں“-
“ اس لیے جن بچوں کو الرجی یا پھر دمہ ہو ان کے گھر سے یہ تمام چیزیں دور
رکھیں“-
دمہ کے علاج کے حوالے سے ڈاکٹر مبینہ کا کہنا تھا کہ “ عموماً لوگ سمجھتے
ہیں کہ اگر ہم نے بچے کو زیادہ Nebulize کروایا تو اسے اس کی عادت لگ جائے
گی- لیکن یہ دیگر دواؤں سے بہتر ہوتا ہے کیونکہ Nebulize میں دوا براہ راست
پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہے اور خون میں شامل نہیں ہوپاتی- جس کی وجہ سے اس
کے مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے“-
“ دمہ کی بعض دوائیاں دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھا دیتی ہیں جس سے دیگر مسائل
پیدا ہونے لگتے ہیں- اس لیے آج کل دمہ کے علاج کے طور پر Nebulize کیا جاتا
ہے“-
|
|
“ اس کے علاوہ دمہ میں انہیلر بھی دیا جاتا ہے- چونکہ چھوٹے بچوں کو انہیلر
دینا آسان نہیں ہوتا تو اس کے لیے انہیلر کے ساتھ ایک خاص باکس منسلک کر
دیا جاتا ہے- انہیلر چھوٹے بچوں کو کم دیا جاتا ہے- یہ صرف انہیں دیا جاتا
ہے جنہیں بار بار دمہ کا اٹیک ہوتا ہے- بچوں کو زیادہ تر Nebulize کیا جاتا
ہے“-
ڈاکٹر مبینہ اس حوالے سے مزید بتاتی ہیں کہ “ اس کے علاوہ ڈاکٹر دمہ کے
مریض کو اینٹی الرجی کی دوائیاں بھی دیتے ہیں- اور بچبچے کو بھاپ بھی ضرور
دینی چاہیے“-
“ بچاؤ کے طور پر بچوں کو سرد ہواؤں اور ایسی وجوہات سے دور رکھیں جو دمہ
کے اٹیک کا سبب بن سکتی ہیں“-
“ عموماً 5 سے 6 کی عمر تک پہنچنے پر بچوں میں دمہ کم ہوجاتا ہے اور 10 سال
کی عمر میں مزید کم ہوجاتا ہے- البتہ بالغ عمر میں بھی اس کے کچھ نہ کچھ
اثرات باقی رہتے ہیں“-
“ دمہ سے بچنے کے لیے الرجی کو فروغ دینے والی وجوہات سے دور رہیں٬ ڈاکٹر
کے پاس فوراً جائیں٬ کوئی انفیکشن ہو تو اس کا علاج کروائیں٬ ہر مرتبہ
اینٹی بائیوٹک استعمال نہ کریں اور صرف ضرورت کی دوائیں استعمال کریں“- |
|
|