سردی کا موسم ہو اورگھر سے کہیں باہر جانا
ہو ،تونکلنا کتنا مشکل ہو تا ہے۔ مگر یہ ساری امیدیں اس وقت ختم ہو جاتیں
ہیں جب بچوں کو سکول چھوڑنے کا وقت آتا ہے ۔ بیگم کی پٹاخے دار آواز بار
بار آرہی ہوتی ہے کہ جلد ی اٹھ جا ؤ ،بچے تیار ہو گے ہیں ۔سردی ہو یا گرمی
بچوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔
کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے ۔ مگر اب حالات ایسے پیدا
ہو گے ہیں کہ پتہ نہیں ہم نے اورہمارے بچوں نے گھر واپس آنا ہے یا پھر
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گہری نیند سو جانا ہے ۔ایک ایسی درد بھری داستان جو چند
دن پہلے میرے ایک دوست کو ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا کر گئی۔آپ سب کی
نظر کر رہا ہوں کہ شاید اس کو پڑھ کر ہی ہمارے حکمران کچھ عوام کو سہولیات
دے سکیں ۔اور بہت سی جانیں ضائع ہونے سے بچایا جا سکے ۔
قارئین! صبح کے سات بج رہے تھے ۔ندیم کی بیوی نے اپنے شوہر کو آواز دی کہ
اٹھ جاؤ بچے تیار ہو گئے ہیں ان کو سکول چھوڑ آؤ بہت دیر ہو رہی ہے ۔ ندیم
نے کروٹ لی او ر گرم گرم بستر سے بہت مشکل سے باہر نکلا بچوں کو سکول جانے
کی تیاری کی ۔موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور بچوں کو بیٹھا کر سکول کے لئے روانہ
ہو گیا ۔ اس کو پتہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کے گھر والوں کو خبر تھی کہ آج
کے بعد ہم ندیم سے مل پائیں گے یا نہیں ۔ وہ سکول کی جانب رواں دواں تھا۔اس
کے گھر سے چند منٹ کی دوری پر مین اوکاڑ ہ روڑ تھا جو دیپالپور شہراور بچوں
کے سکول کی طرف جاتا تھا ۔ جب وہ اس روڑ پرچڑھاٹریفک کا بہت زیادہ رش تھا ۔
سڑک ہر طرف سے گاڑیوں سے بھری پڑی تھی۔وہ بچوں سے بہت سی باتیں کرتا ہوا جا
رہا تھا۔ کہ میرے بچوسکول میں دل لگا کر محنت کرنا اور بڑے ہو کر اپنے
والدین اور پاکستان کا نام رورشن کرنا ،اس کو محسوس ایسا ہو رہا تھا کہ
شاید اس کی اپنے بچوں کو یہ آخری نصیحت ہے ۔ اس لئے وہ بچوں سے ایسی باتیں
کرتا اور اپنے بچوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھتا جا رہا تھا۔ اور ساتھ ہی
وہ اپنے بچوں کو یہ بھی کہہ رہا تھاکہ میں آج بہت جلدی آپ کو لینے آ جاؤں
گا۔ بس بچوں کو دلاسہ دیتے ہوئے سکول کی طرف جاہی رہے تھے کہ ایک تیز ٹرک
نے ان کو بڑی بے رحمی سے ٹکر دے ماری ۔محمد ندیم موقع پر ہی اپنے زخموں کی
تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا اور اس کے بچے شدید زخمی ہو گے
جن کو ریسکیوٹیم نے زخمی حالت میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال دیپالپور میں
طبعی امداد فراہم کروائی ۔
قارئین یہ تھی وہ داستان جو میرے دوست کی تھی ۔ آپ بھی ایسی بہت سی
داستانوں سے واقفیت رکھتے ہو ں گے۔اور کئی قیمتی جانیں آپ کی نظروں کے
سامنے ہم سے جدا ہو رہی ہوتی ہیں ۔ جو ان سڑکوں کے تنگ ہونے اور زیادہ
ٹریفک کے ہونے کے سبب ہوتی ہیں ۔
میری چند گزارشات حکمرانوں ،سیاستدانوں اور ان اداروں کے آفسیرز کے نام یہ
ہیں کہ جب سڑک کو بنانے کیلئے منصوبہ بنایا جاتا ہے کہ فلاں روڈ کو وسیع یا
رپیئر کرنا ہے تو ہم کیوں بھول جاتے ہیں ۔ کہ کل کو اس پر ٹریفک کا رش
زیادہ ہو جانا ہے تاکہ ہم اس کو اسطرح وسیع بنائیں تاکہ اگر ٹریفک بڑھے بھی
تو کنڑول ہو سکے ۔ ہم کیوں آگے کی سوچ نہیں رکھتے اسی لئے سڑکوں پر سڑکیں
بن رہی ہیں اور بہت سا پیسہ تباہ وبرباد ہو رہا ہے ۔یورپی ممالک میں ہر
منصوبہ کو اگلے دس سال کے ورک پلان کے ذریعے بنایا جاتا اور آج وہ کامیاب
ہیں اور ہم صرف سڑکوں پر اپنی تمام انرجی ضائع کیے جا رہے ہیں ۔اگر ہم کچھ
سوچ سمجھ کر ان کو بنائیں تو ایسا نہ کرنا پڑے ۔ اب ہم نئی بنی ہوئی سڑکوں
کو اکھاڑ کر ان کے اوپر دوبارہ نئی سڑکیں تعمیر کیے جا رہے ہیں ۔ اور ان کو
وسیع بھی کر رہے ہیں ۔ اگر ہم شروع سے ہی ایسے منصوبے بنائیں جن کے تحت کم
از کم دس سال آگے کام لینے کی سوچ رکھی ہو ۔ توکروڑوں روپے کی لاگت بھی بچ
جائیگی اور ہم بھی محفوظ رہیں گے ۔ اگر ہم نے اس ملک کا پیسہ اور عوام کو
بچانا ہے تو پھر ایسے منصوبے بنانے ہو گے ۔ جو زیادہ دیر چلیں اور ون وے
ہوں ۔ یہ نہیں کہ ہر رو ز ہم سڑکوں کو توڑیں اور بنانے پر لگے رہیں ۔اورپیسہ
بھی خرچ ہو پریشانی بھی ہو اور ہم ممحفوظ بھی نہ رہ سکیں ۔یہی حالت دیہی
علاقوں میں بھی ہے ۔ سڑکوں کا برا حال ہے اس کی طرف بھی حکومت کو دھیان
دینا چاہئے۔
عوام الناس اپنے حکمرانوں اور اداروں کو کئی بار باور کر اچکے ہیں کہ
دیپالپور اوکاڑہ روڑ کئی قیمتی جانیں لے چکا ہے اس کو ون وے کر دیا جائے ۔
مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی اور ہم ہر روز اپنے پیاروں کو مرتے دیکھ
رہے ہیں آخر کب تک ہم سے اپنے بچھڑتے رہیں گے اور ہم ان اداروں اور
حکمرانوں کا منہ دیکھتے رہیں گے ۔ میں عوام الناس کویہ بھی بتا دوں کہ جب
اس منصوبے کو پاس کیا جا رہا تھا ۔تو اس کو ون وے کے لئے ہی منظور کیا جا
رہا تھا۔ مگر ہم اپنی بدقسمتی کہہ لیں یا پھر سیاسی سازش ۔ جب یہ روڑ بنا
تو سیاست کی نظر ہو گیا اور اس کو ون وے نہ بنا یاگیا ۔جس کا نتیجہ آج
ہمارے سامنے ہے۔ اگر اس کو ون وے بنا دیا جاتا تو آج ہم محفوظ رہتے ۔ اور
ہماری کئی قیمتی جانیں بچ جاتیں ۔
حکومت ،ہمارے سیاسی نمائندوں اور روڑز ڈیپارمنٹ کو اس کے بارے میں ضرور
سوچنا چایئے کہ یہ ظلم اور خون کا کھیل کب تک جاری رہے گا۔ اس لئے کوئی
لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس کو ون وے بنانے کے لئے ثمری تیاری کی جائے
۔ جس کی عوام کو بہت ضرورت ہے ۔ تاکہ عوام الناس روڑ ایکسیڈنٹ سے بچ سکیں ۔اور
باآسانی اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ |