لوگ کیا جانیں

شمو کی شادی کو چھے سال ہو گئے تھے۔ یہ اس کے پیار کی تیسری شادی تھی۔ اس کی گود ابھی تک خالی تھی۔ پہلے پیار سے حمل ہوا تھا جو اس نے دوسرے پیار میں اندھی ہو کر گرا دیا تھا۔ دوسرا تین سال چلا لیکن امید سے نہ ہوئی۔ تیسرے پیار سے ابھی تک کوئی پیار کی نشانی سامنے نہ آ سکی تھی۔ پھر وہ اچانک ایک مقامی بابا صاحب کے مزار پر حاضری دینے لگی۔ بگو نے سمجھا بےچاری کی گود خالی ہے اسی لیے بابا صاحب کے دربار پر حاضری دینے لگی ہے۔ بگو کا دل بھی گھر کی رونق کے لیے مچل مچل رہا تھا لیکن یہ اس کے اختیار میں نہ تھا۔ یہ تو اللہ کریم کی مہربانی ہوتی ہے کہ وہ گھر کو رونقیں بخش دے یا وہ ویرانہ رہے۔ اگر یہ شخص کے بس کا روگ ہوتا تو دھن دولت ہی نہیں اولاد کا میوا بھی اہل ثروت اپنے تک محدود رکھتے۔

ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ دیکھا جائے کہ شمو بابا صاحب کے دربار پر کس طرح سے اور کیا دعا مانگتی ہے۔ وہ دربار کے عقب میں چھپ گیا۔ شمو کی دعا سن کر حیرت میں گم ہو گیا اور کچھ نہ سمجھ پایا۔ وہ بڑی آہستگی سے بڑے قدموں اس سے پہلے گھر آ گیا اور سوچنے لگا کہ وہ اس قسم کی دعا کیوں مانگ رہی ہے۔ اس کا سوچ سوچ کر دماغ پھٹنے لگا۔ اس نے اگلے روز دوبارہ سے دربار پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اتنی دیر میں شمو گھر لوٹ آئی۔ وہ چپ رہا اور شمو کو کچھ نہ جتایا۔

اگلے دن وہ شمو سے تھوڑا پہلے دربار پر پہنچ گیا۔ شمو بھی تھوڑی دیر کے بعد دربار کے اندر داخل ہوئی۔ اس نے دوبارہ سے دعا مانگنا شروع کر دی۔
پیرا بگو کو اندھا کر دے میں میٹھے چاولوں کی دیگ چڑھوا چڑھاؤں گی۔
بگو نے آواز بدل کر کہا: ٹھیک ہے بچہ ہم تیری دعا قبول کرتے ہیں۔ پر ایک شرط ہے۔
حکم کر سوہنیا پیرا
جا بچہ تیس دن اپنے شوہر کو دیسی گھی میں دیسی مرغا بھون کر کھلا۔ اس کی آنکھوں میں چربی چڑھ آئے گی اور وہ کچھ بھی نہ دیکھ سکے گا۔
ٹھیک اے پیرا میں آج سے ہی یہ کام شروع کر دیتی ہوں۔

اس نے گھر آ کر دیسی مرغا ذبح کروایا اور اسے دیسی گھی میں بھونا۔ بگو کو بڑی پلیٹ میں ڈال کر دے دیا۔ بگو جعلی حیرانی سے کہنے لگا۔ بھئی بڑی خدمت کر رہی ہو خیر تو ہے۔

شمو نے بھرپور اداکاری دیکھاتے ہوئے کہا: میں نے سوچا کام بہت کرتے ہو تمہیں اچھی اور زبردست خوراک کی ضرورت ہے۔ کچھ دن دیسی گھی میں بھنا مرغا کھاؤ گے تو تمہاری جان بن جائے گی۔
واہ بھئی واہ۔ کیا بات ہے۔
پھر وہ کچھ دیر تک جعلی پیار محبت کی باتیں کرتے رہے۔

دیسی گھی میں بھنا مرغا کھا کھا کر بگو کی واقعی جان بن گئی۔ مرغا کھاتے وہ بائیسواں دن تھا۔ بگو کہنے لگا۔ شمو یار یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ جی گھبرا رہا ہے اور آنکھوں میں تارے سے ناچنے لگے ہیں۔ شمو جی میں خوش ہوئی کہ پیر کی کرامت سامنے آ رہی ہے۔
وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ سچے پیر کسی کا کسی بھی صورت میں برا نہیں کرتے۔
اس نے قیامتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کچھ نہیں ہوا بس تمہیں وہم ہو رہا ہے۔

اس دن کے بعد اس نے نظر کے کم اور پھر تقریبا ختم ہونے کی خبر سنائی۔ آخر تیسویں دن کچھ بھی ںظر نہ آنے کی خوش خبری سنا ہی دی۔ وہ دن شمو کی خوشیوں کا دن تھا۔ اس کا زمین پر پیر ہی نہیں آ رہا تھا۔

بگو نے کہا: اب میں کسی کام کا نہیں رہا ڈیوڑی میں میرا منجا بچھا دو اور میرا کھونڈا دے دو کتے بلے اندر نہ آنے دوں گا۔ آ کر چیزوں کا ستیاناس مار دیتے ہیں۔

شمو نے کہا: ٹھیک ہے۔

اس نے ڈیوڑی میں اسے منجا بچھا دیا۔ وہ جانتا تھا کہ شمو جاگ رہی ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ جعلی خراٹے بھرنے لگا۔ شمو گھر سے چپکے سے باہر نکل گئی اور کچھ دیر کے بعد واپس آ گئی۔ اس نے اچھی طرح دیکھا۔ بگو گہری نیند سو رہا تھا۔

کچھ ہی دیر ہوئی ہو گی کہ ایک مشٹنڈا چپکے چپکے گھر میں داخل ہونے لگا۔ وہ ذہنی طور پر تیار تھا۔ بگو نے اس کے سر پر ایسا کھونڈا مارا کہ وہ چوں بھی نہ کر سکا اور پاؤں پر ٹکی ہو گیا۔

گھنٹہ ہی گزرا ہو گا ایک اور مشٹنڈا گھر میں داخل ہونے لگا اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا۔ غرض سرگی ویلے تک گیارہ ڈھیر ہو گئے۔ اندر شمو چارپائی پر کرواٹیں لے رہی تھی۔ اسے اپنے ان پیاروں کے پیار پر سخت غصہ آ رہا تھا۔ پھر وہ تھک ہار کر سو رہی۔

بگو چارپائی سے اٹھا اور اس نے ڈبو چرسی کو جا اٹھایا۔ اس کے مال پانی کا اس نے پہلے ہی بندوبست کر رکھا تھا۔ جب وہ آسمانوں کی سیریں کرنے لگا تو اس نے اسے نوٹ وکھائے اور کہا یار یہ لاش دریا میں پھینک آؤ اور آ کر سارے نوٹ لے لو۔ ڈبو چرسی دریا میں لاش پھینکنے چلا گیا تو اس نے دیوار کے ساتھ دوسری لاش کھڑی کر دی۔

واپس آ کر کہنے لگا لاؤ نوٹ تو بگو نے کہا لاش تو پھینک کر آؤ دوبارہ سے آ گئی ہے۔ ڈبو چرسی رات بھر اسی کام میں مصروف رہا۔ جب آتا لاش وہاں کھڑی ہوتی۔ گیارویں لاش ٹھکانے لگاتے تقریبا دن چڑھ گیا تھا اور ایک بندہ دریا نہا کر گھر واپس جا رہا تھا۔ ڈبو چرسی کو بڑا قہر آیا کہ یہ اب پھر دوبارہ سے واپس جا رہا ہے۔ اس نے اسے گردن سے پکڑا اور گالیاں بکتا ہوا دریا کے اندر لے گیا۔ اسے خوب ڈبکیاں دیں جب مر گیا تو واپس بگو کے پاس آ گیا اور کہنے لگا سالا دریا سے نکل کر واپس آ رہا تھا‘ اب نہیں آئے گا‘ میں اسے مار کر ہی واپس آیا ہوں۔

بگو ہنسا اور کہنے لگا گیارہ شمو کے ایک تمہارا۔ ڈبو چرسی کچھ نہ سمجھا اور مطلب پوچھنے لگا۔ خیر چھوڑو تم یہ کش لگاؤ اور نوٹ جیب میں پا کر غائب ہو جاؤ۔ صبح علاقے میں کہرام مچ گیا لوگ کیا جانیں کہ گیارہ جنسی پیار کی بھینٹ چڑھ گئے جب کہ باہرواں ان حدویں جنسی پیار کی غرقابی کی راہ میں آنے کے سبب دریا برد ہو گیا۔

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.