چائے میں تندور کی روٹی کچھ خاص مزا نہیں
دے رہی تھی---ہوٹل کےTabaleوالے بچے نے جو کہ صرف کپڑا مارا کرتا تھا یا
پھر پانی کا جگ بھر کے پیٹ پوجا کرنے والوں کے حلق میں نوالا پنسنے سے
بچاتا تھا سلمان کے زرد ہوتے ہوئے چہرے کو بار بار دیکھا تھا--اس نے اپنی
چھوٹی سی عمر میں جتنی عزت سلمان سے پایا تھا اپنے گھر سے بھی اسے ایسا
برتاؤ نصیب نہیں ہوا تھا--پھر اس کو پتا ہے سلمان بھائی بڑا یتیم ہے اور وہ
خود چھوٹا یتیم ہے اسی طرح ان دونوں میں ایک رشتہ سا بن گیا تھا--بچے نے
جیسے سب چھوٹوں کہتے تھیں جانپ لیا کہ سلمان بھائی کو چائے کے ساتھ تندوری
روٹی مزا نہیں دے رہی اس نے زرا سی دال پلیٹ میں ڈال کے سلمان کے سامنے رکھ
دی-- سلمان نے حیرت سے اسے دیکھا ---چھوٹوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے
خاموش رہنے کو کہا اور پلٹ کر دوسرے ٹیبل کے چلا گیا سلمان نے بھی دال کو
زیادہ دیر پلیٹ میں ٹکنے نہیں دیا وہ لمہوں میں سلمان کے میدے میں گم
ہوگئی--ہوٹل میں بھی سلمان کا کھاتا لمبا ہوگیا تھا--کئی دفعہ ہوٹل کا مالک
اشاروں میں سلمان سے پیسوں کا تقاضہ کر چکا تھا مگر اس کو حقیقت کا ادارک
تھا---اس لیے وہ سلمان کی عزت نفس کو ہرٹ نہیں کرتا تھا--
سلمان نے پانی کا لمبا گھونٹ لیا---اور کرسے کے ساتھ کمر ٹکا لی دن بھر کے
دکھے ڈراونے خواب سے تھے وہ خود کو منفی سوچوں اور مایوسی سے دور رکھنا
چاہتا تھا مگر اب زیادہ دیر ہورہی تھی وہ سوچ رہا تھا کہ کل پھرIndusterial
ایریا جائے یا مزدوروں کے ساتھ بازار کے چوک پر بیٹھ جائے اور کوئی مزدوری
ہی ہاتھ آجائے جس سے اس کی کھانے پینے کا سلسلا چلتا رہے--جسم میں روٹی
دال، اور پانی جیسی چائے نے تھوڑی بہت Heat پیدا کر دی تھی اب وہ کچھ کچھ
ایسا سوچ رہا تھا کہ اس کی زندگی کی گاڑی آہستہ آہستہ کم سی کم رینگتی تو
رہے کمرے کا رینٹ ہوٹل والوں کا بل تو دور کی بات تھی---یا اللہ مالک مکان
کے میکے میں کوئی فوتگی ہوجائے کم سے کم ایک ہفتہ تو آرام سے رہا جائے ورنہ
وہ عورت اس کو جینے نہیں دینگی--پورے محلے میں اس کا تماشہ بنا دے گی سب
اتنے دور سے سلمان کو ملنے والی گالیاں سنتے تھے جیسے وہ کوئی بریکنگ نیوز
ہوں اب کوئی نہ کوئی حل نکلنا ہی ہوگا
|