الحمد ﷲ 20 سال کا عرصہ ہوا کے مختلف
اداروں میں اُستاد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں انجام دی جا رہی ہیں اور اس
تمام عرصے میں کچھ مشاہدات ہیں جو میں نے کئے اُن کو ذکر کر کے اتمام ِ حجت
کر رہا ہوں تا کہ اگر کوئی بھی مستقبل میں اُستاد بننا چاہے تو میرے خیال
سے ان تمام نکات کا خیال رکھنا آپ پر لازم ہو گا،ورنہ ایک اچھا عالم تو ہو
گا پر ایک اچھا اُستاد نہیں۔ملاحظہ فرمائیں اور اگر میں غلطی پر ہوں تو
اپنے Comments میں میری تصیح فرمائیں :
۱)اچھا اُستاد وہ ہوتا ہے جو اپنے مضمون کا عالم تو ہوتا ہے پر بچوں کو
بچوں کے لیول پر جا کر Deliver کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
۲)ہر ماہ پرنسپل کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کے اپنے اسکول کے بچوں سے پوچھے
کے ٹیچر کا رویہ آپ کے ساتھ کیسا ہے اور جو وہ پڑھا رہا ہے وہ کس حد تک
سمجھ میں آتا ہے اور کس حد تک سمجھ میں نہیں آتا،پرنسپل ٹیچر کو اپنی مرضی
سے نوکری دے دیتا ہے اس بات سے بے خبر کے بچوں کی سمجھ میں کس حد تک اُس کی
باتیں آتی ہیں۔
۳)ٹیچر جب کلاس میں جائے تو اگر مرد ہو تو باپ بن کر جائے اور اگر عورت ہو
تو ماں بن کر کلاس میں جائے کیوں کے ٹیچر صرف پڑھاتا ہے ماں باپ پڑھانے کے
ساتھ ساتھ دوسری تکلیفوں کا بھی خیال رکھتے ہیں ،ممکن ہے آپ پڑھاتے اچھا
ہوں ،کوئی اور مسئلہ ہو جس کی وجہ سے وہ بچہ صحیح پڑھ نہیں پا رہا تو ایسے
مسائل بھی سُنے جائیں اور اپنے طور پر جہاں تک ممکن ہو اس مسئلے کو بھی حل
کرنے کی کوشش کرے۔
۴)بعض ٹیچر بچوں کو Ignore کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں پر اچھا اثرنہیں
پڑتا ،بچوں کے ساتھ مل جُل کر رہا جائے تا کہ بچے اپنی مشکلات ٹیچر سے بیان
کر سکیں۔
۵)بعض ٹیچر کلاس میں بہت سختی کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے ڈر کے مارے آتا
بھی ہے تو بھول جاتے ہیں۔اتنی سختی بھی نہ کریں۔
۶)کلاس میں بچوں کو اس انداز میں پڑھائیں مثالوں کے ساتھ کے بچے خوشی خوشی
پڑھیں ۔
۷)ہلکا پھلکا ہنسی مذاق بھی کرتا رہے تا کہ بچے بور ٹیچر نہ سمجھیں۔
۸)بچوں کا ذہن طوطے کی مانند ہوتا ہے جو پڑھائیں پڑھ لیتا ہے اگر ٹیچر
دیکھے کے بچہ کوئی ایسی بات کر رہا ہے جو اُس کو یا ٹیچر کو زیب نہیں دیتی
تو فوراً اس معاملے کو حل کرے،مثال کے طور پر ہمارے میٹرک کے بچے کسی بھی
Femail ٹیچر کو پسند کرنے لگتے ہیں یا اگر لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھتے ہیں تو
کسی بھی لڑکی کو کوئی لڑکا پسند کرنے لگتا ہے تو ٹیچر فوراً ایکشن لے ،معاملہ
ٹیچر کا ہو یا کسی بھی لڑکی کا کا ٹیچر پہلے خود بچے کو سمجھائے اگر لڑکا
پھر بھی نہ سمجھے تو فوراً اسکول کے حکام ِ بالا کو بتائے تا کہ جلد از جلد
اس مسئلے کو ماں باپ کے زریعے حل کیا جا سکے پاکستان میں ایسے واقعات ہو
بھی چکے ہیں اور بچے خودکشی جیسے گھناونے فعل کو بھی انجام دے چکے ہیں۔
۹)بچے پیار کے بھوکے ہوتے ہیں جہاں سے پیار ملتا ہے اُس کی بات غور سے
سُنتے اور سمجھتے ہیں۔
۱۰)بعض ٹیچر اپنے Syllabus کو مکمل کروانے کے چکر میں جلدی جلدی پڑھاتے ہیں
بچوں کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے، یہ غلط ہے اس انداز میں پڑھائے کے نہ
زیادہ تیز اور نہ زیادہ آہستہ
۱۱)ہر کلاس میں کچھ شرارتی بچے بھی ہوتے ہیں جو نہ خود پڑھتے ہیں نہ دوسروں
کو پڑھنے دیتے ہیں ایسے بچوں کو سمجھانے کے لئے فوری اقدامات کیے جائیں،اگر
ٹیچر نے ان کو Ignore کر دیا تو یہ شرارت بعد میں عادت بن جائے گی۔
۱۲)پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل بھی ضروری ہے تو ٹیچر بچوں کو کھیل کود کی طرف
بھی مائل کرے تا کے بچے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کی طرف بھی توجہ دیں۔
یہ وہ مشاہدات ہیں جو خود بچوں نے اپنی مشکلات بیان کرتے ہوئے بیان کی
ہیں،ان باتوں کا خیال رکھیں تو بے شک آپ ایک اچھے ٹیچر بن سکتے ہیں۔ |