حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے سب سے اہم ذمہ داری ہے
کہ وہ قوم کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے بہترین تعلیمی
نظام متعارف کروائیں ، جس کے ذریعے قوم کا ہر بچہ بہترین تعلیم حاصل کرسکے
۔ دنیا میں جتنے ممالک نے ترقی کی اُن کی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے
اپنی قوم کو بہترین اورسستی تعلیم دی ۔ لیکن بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ
پاکستان کے قیام کو 70 سال ہوگئے ہیں اور یہاں تعلیم کے فروغ کیلئے کبھی
بھی کوئی مناسب بندوبست نہیں کیا گیا ۔ ہمارے حکمرانوں کی ترجحات میں کبھی
بھی ایجوکیشن نامی کوئی چیز شامل ہی نہیں رہی ۔
کالجز اور ہائی سکول تو دُور کی بات پاکستان کے اکثر دیہی علاقوں میں
پرائمری سکول تک نہیں ہیں اور جدھر سکول ہیں وہاں اساتذہ نہیں ہوتے ۔ اور
کچھ علاقوں میں تو علم کے متلاشی کھلے آسمان کے نیچے مئی جون کی گرمی اور
دسمبر اور جنوری کی ازیت ناک سردی میں تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں ۔
حکمرانوں کی تعلیم کے فروغ میں سنجیدگی کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے
کہ جن کو ہاتھ میں قلم اُٹھانا تھا صبح سویرے سکول جانا تھا وہ مصموم پھول
دو وقت کی روٹی کیلئے در در کی ٹھوکریاں کھاتے ہیں کبھی ہوٹلوں میں برتن
دھوتے ہیں ، بوٹ پالش کرتے ہیں ، اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتے ہیں ، سخت
سردی میں لاری اڈوں پر منتیں منتیں کرکے دو دو آنے کی چیزیں بیچ رہے ہوتے
ہیں ۔
حکمرانوں کی تعلیم دشمن پالیسیو ں کی وجہ سے ہمارے ملک کا لٹریسی ریٹ 57
فیصد ہے اور ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے انڈیا کا لٹریسی ریٹ 74 فیصد ہے ۔اور
1971میں دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والے بنگلہ دیش کا لٹریسی ریٹ بھی پاکستان
سے زیادہ ہے ۔ دنیا میں کم پڑھے لکھے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 16ویں
نمبر ہے ۔
ملک میں تعلیم کی اس نازک صورت حال میں حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ تعلیم
دوست پالیسیوں کا آغاز کریں جس سے غریب کا بچہ بھی عمدہ تعلیم حاصل کرسکے
۔ لیکن حکومت کی تعلیم دشمنی کی ایک اور مثال تب سامنے آئی جب نام نہاد
حکمران جو مفت تعلیم کے دعوے کرتے تھے اُن نے طالب علموں کی ٹیوشن اور
ہاسٹل فیس پر 5فیصد ٹیکس عائد کردیا ۔ جب طالب علم اپنے بل بوتے پر ڈگمگاتی
راہیں پر چلتے ہوئے یونیورسٹی ایجو کیشن لیول تک پہنچائے تو حکمرانوں نے
ٹیکس کی ناقابل تسخیر دیوار ان کے سامنے کھڑی کردی ۔ یونیورسٹی میں طالبعلم
جو ان لائن جاب اور دوسری نوکریاں کرکے اپنی فیس ادا کرتے ہیں بھلا وہ یہ
ٹیکس کا اضافی بوجھ کیسے ادا کریں گے ۔ یہ طالب علموں پر ظلم نہیں تو کیا
ہے ؟
دنیا کے دوسرے ممالک میں ٹیکس تو دُور کی بات ٹیوشن فیس پر بھی ریلیف فراہم
کیا جاتا ہے ۔ جرمنی ، ناروے اور سوڈان میں مفت تعلیم دی جاتی ہے ۔ پاکستان
دنیا کا شاید وہ واحد ملک ہے جہاں جاگیرداروں ، فیکٹری ملکوں اور
سیاستدانوں پر عائد ٹیکس اور قرضے معاف کردیے جاتےہیں اور طالب علموں پر
ٹیکس لگا دیا جاتا ہے ۔
وزیر اعظم کی مثال لے لو میاں صاحب کی دولت جو کہ 1.4 بلین ڈالر ہے اس پر 5
فیصد کے حساب سے تقریبا 7 ارب پاکستانی روپے ٹیکس بنتا ہے ۔ لیکن بادشاہ
سلامت نے اپنےاوپر عائد ٹیکس کا بھی 5 فیصد ادا نہیں کیا صرف 21 لاکھ روپے
بطور ٹیکس حکومت پاکستان کو ادا کر دوسروں کو ٹیکس کے نام پر طعنے دیتے پھر
رہے ہیں یہ تو پھر وہی مثال ہوئی کہ
'' اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ''
حکمران اگر طالبعلموں کو تعلیم میں ٹیوشن فیس پر ریلیف فراہم نہیں کرسکتے
تو ان کو چاہیے کہ وہ ان پر ٹیکس عائد کر کے معاشی تشدد بھی نہ کریں ۔ اگر
حکمرانوں نے اپنی یہ روش نہیں بدلی تو ان کے ظلم و زیادتی کے خلاف ینگ
ڈاکٹرز،ٹیچراوروکیلوں کی طرح طالبعلم بھی اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئےسڑکوں
کا رخ کرنا پڑے گا ۔
ہم سے غریب کیا ہیں اُٹھیں تو ظلم اُٹھائیں
بولیں تو مارے جائیں
ڈنڈے بھی انکے کھائیں ،جھنڈے بھی ہم لگائیں
یہ جابسیں گے مکے، ہم کہاں کو جائیں
یہ منائیں خوشیاں ، ہم کیا خوشی منائیں
ہم کیوں خوشی منائیں؟ |