آجکل جو پانامہ لیکس کا کیس چل رہا ہے۔میرے نزدیک تو اس
کی تین عدالتیں لگتی ہیں۔ایک عدالت تو روزانہ سپریم کورٹ میں لگتی ہے،دوسری
اسی عدالت کے مین گیٹ کے باہر پیشی کے بعد برپا ہوتی ہے اور شام کو رات گئے
تک ٹی وی شوز میں دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ کیس ایسا ہے کہ وکلاء کے دلائل ختم
ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ہر روز کوئی نیا خط آجاتا ہے۔
پانامہ پیپرز میں کسی ہما شما کا نام تو ہے نہیں،ایک سے بڑھ کر ایک امیر
لوگ ہیں۔اس قدر دولت کے ساتھ دنیا بھر میں یہ امراء مختلف انداز میں ٹیکس
بچانے یاچھپانے کے راستے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔اپنی دولت کے بل بوتے پر سیاست
اور جمہوری نطام پر کچھ یوں اژ انداز ہوتے ہیں کہ نظام ان کا تسمہ استحقاق
بن کر رہ جاتا ہے۔پاکستان میں بھی کچھ اس طرح کا نظام رائج ہے یا ترتیب دے
دیا گیا ہے کہ غریب طبقہ کیا،درمیانے درجے کا کوئی شخص انتخابات میں حصہ
نہیں لے سکتا۔اب انتخابات کے عمل میں دولت کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے۔اب جب
وہ انتخاب جیت جاتے ہیں تو وہ ایسی پالیسیاں بناتے ہیں کہ صرف جو ان کے
مفاد میں ہوں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نظام میں عدم مساوات جیسی بیماری پورے نظام کو فیل
کر دیتی ہے۔اسکی مثال کچھ یوں ہے کہ امراء کے بچوں کو بہترسکول،بہتر معیار
تعلیم،اعلی تعلیم کے مواقع بھی بہترمہیا ہوتے ہیں۔اسکے بعد اعلی آسامیوں پر
بھی ان کے بچے فائز ہوتے ہیں۔اسکے برعکس غریب طبقات کے بچے میں یہ پہیہ الٹ
چلتا ہے نہ اسکول اس معیا ر کے نہ معیار تعلیم نہ اعلی تعلیم لے مواقع جو
ان کے بچوں کو اشرافیہ کے بچوں کے ہم پلہ کھڑا کر دے۔یہ عدم مساوات ہمیشہ
ختم نہیں ہونیجب تک یہ نظام تبدیل نہ ہواعدم مساوات اک نہ ختم ہونے والا
سفر ہے جس طرح ریل کی پٹری کے دونوں ٹریک ساتھ ساتھ چلے لیکن آپس میں ملتے
نہیں۔
پانامہ کیس سے پہلے بھی کرپشن کم نہ تھی،پہلے بھی کئی خوفناک کیس سامنے آئے
لیکن اس نظام کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔پانامہ میں وزیراعظم اور ان کے
بچوں کا نام آیا ورنہ یہ بھی چند ہیڈلائنز کے بعد ختم ہو جاتا۔کرپشن کسی
صورت ہو اس کا اثر میرٹ پر پڑتا ہے۔اس کا پہلا شکار میرٹ پھر شفافیت اور
پھر انصاف ۔
پانامہ کیس کا کیا فیصلہ نکلتا ہے یہ مجھے نہیں معلوم لیکن اس بات کا
اندازہ ضرور ہء کہ موجودہ نظام میں وسائل کی تقسیم اور حصول کا یہ سلسلہ
اسی طرح جاری رہے گا |