حب الوطنی ایک ایسی اصطلاح ہے۔ جو ہر
سمجھدار (مطلب یہ کہ جب ایک انسان کو یہ سمجھ آجائے کہ وطن کیا ہوتا ہے)
انسان کی رگوں میں یہ جذبہ اور محبت سرایت کر جائے۔ کہ میری گلستان جیسی
دھرتی کی محبت کے تقاضے کیا ہیں۔ اس محبت اور لگاؤ کا پہلا عجیب احساس ہوتا
ہے۔ جب کسی مخالف ملک کے ساتھ کھیل کے میدان میں پنجہ آزمائی ہوتی ہے۔اور
بچے ، جوان اور بوڑھے سب مل کر قومی ٹیم کی ہار کی صورت میں مرجھائے چہروں
کے ساتھ ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔اور جیت کی
صورت میں میٹھائیاں تقسیم کرتے اور ڈھول کی تاپ پر ناچتے ہیں۔یہاں ایک
ریٹائرڈ فوجی کا حوالہ دیتا چلو۔جو کہ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں
کا حصہ رہ چکی ہے۔وہ کہتا ہے کہ ایک وقت تھا جب ہمارے اوپر پاکستانیت کا
ایسا جنون سوار تھا۔ جب ہمارے زیادہ تر ساتھی پاک بھارت ہاکی میچ کے دوران
اپنے کانوں کے ساتھ ریڈیو سیٹ لگائے ہوتے تھے۔اور جب گول سکور ہوتی تو سب
ملکر نعرہ ِ تکبیر لگاتے۔
دوسرا احساس تب بیدار ہوتا ہے۔جب ایک طالب علم سے سوال کیا جاتا ہے۔ کہ آپ
نے مستقبل میں کیا بننا ہے۔تو اس کا انتخاب ہوتا ہے۔کہ سرَ جی! انشاء اﷲ
میں پاک فوج کو جوائن کروں گا ۔ چنانچہ اس طالب علم کے ذہن میں پاک فوج کی
تقدس اور احترام رچ بس جاتی ہے۔اب یہ بچہ پاک فوج کا حصہ بن کر حب الوطنی
کاایک ہیرو بن جاتا ہے۔
بندہ کے دل میں ایک اور احساس تب اُبھرنے لگتا ہے۔جب گریڈ سترہ سے اوپر کے
عہدہ پر فائز ایک ایماندار آفیسر کو دیکھا جاتا ہے۔جو کہ دفتر میں بنڈل کے
حساب سے پڑے سرکاری کاغذات کو گِن گِن کر اس طرح استعمال کرتے ہیں ۔گویا اس
آفیسر نے اپنے گھر کے استعمال کیلئے لیے ہو۔ پھر جب وہ مقررہ دفتری وقت سے
ایک گھنٹہ پہلے گھر سے پیدل نکلتا ہے۔اور کرایے کی گاڑی میں بیٹھ کر دفتری
وقت سے دس یا پندرہ منٹ قبل دفتر میں حاضری دینا اس کا معمول ہو۔لمبے چوڑے
خود ساختہ بِل بنا کر یا کمیشن لیتے وقت یہ جُملہ کہے۔ کہـ"میں اپنے بچوں
کو حرام خور نہیں بننے دوں گا" اور پھر جب دفتر سے چھٹی کراتے وقت یہ دعا
کرتے ہیں ۔کہ یا اﷲ اگر اپنی ذمہ داری میں مجھ سے کوئی کوتاہی رہ گئی ہو۔تو
مجھے درگزر کرنا۔ اس جملہ کو کہتے ہوئے سابق صدر غلام اسحاق خان یاد آتے
ہیں۔جب اُسے اپنے بیٹے نے کہا۔کہ ابو مجھے گاڑی کی چابی چاہیئے۔ جواب ملا"
بیٹا! یہ پیسے لو اور ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنا کام پورا کرلو۔سرکار کا مال
صرف سرکار ہی کے کاموں کیلئے ہے" ۔
چوتھا احساس تب جنم لیتا ہے۔جب امیرِ وقت "قرض اتارو ملک سنوارو" جیسے
نعروں پر اپنی رعایا کے سامنے جھولی پھیلاتے ہیں۔پھر حب الوطنی سے سرشار
لوگ بھاگ کر پیسہ امیر ِ وقت کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔یہاں تک کہ حب
الوطنی کی زنجیر میں جھکڑے خواتین زیورات جمع کر دیتے ہیں۔تاکہ اس چمن جیسے
ملک پر قرضے کا بوجھ ختم ہو۔
پانچواں احساس تب دستک دیتا ہے۔ جب ایک بوڑھی ماں اور معذور باپ کے سامنے
اپنے شہید فوجی بیٹے کی لاش رکھ دی جاتی ہے۔اور وہ شکرادا کرتے اور فخر
محسوس کرتے ہیں۔کہ ہمارے بیٹے نے اپنے وطن کیلئے جان دیدی ۔پھر اپنے چھوٹے
سے نواسے کو یہ تسلی دے کر سلاتے ہیں ۔کہ اُس کا ابو مرا نہیں ۔بلکہ وہ
زندہ ہے۔اور پھر بیچاری شہید کی بیوی ساری رات اپنے شوہر کی تصویر دیکھتی
ہے۔
چھٹا احساس تب اُجاگر ہوتا ہے۔ جب ایک اُستاد بچوں کو قومی ترانہ گانے اور
اپنے دل پر دایاں ہاتھ رکھ کراس کے احترام کا گُر سکھاتے ہیں۔اور مقررہ وقت
سے پہلے قومی جھنڈہ کو سرکاری عمارت پر آویزاں کیا جاتا ہے۔
ساتواں حب الوطنی کا وہ محرک جذبہ ہے۔جب ایک سبزی فروش ریڑھی پر ٹماٹروں کے
اوپر قومی جھنڈہ لہراتا ہے۔یا پھر ایک دیہاڑی دار مزدور اپنے سینہ کے بائیں
طرف چھوٹی سی جھنڈی لٹکائے پھیرتا ہے۔یا پھر کسی قومی دِن کے موقع پر
منچھلے نوجوان اپنے چہروں کو جھنڈیوں سے مزین کرتے ہیں۔
ایک احساس اُس وقت قید ہو گیا۔ جب کھیل کے شعبے میں نہ صرف رشتہ داری اور
سیاست کا عنصر داخل ہُوا۔بلکہ کھلاڑی انتظامیہ سمیت سب بدعنوان ہو گئے۔اور
دھرتی کے نام کو دنیا بھر میں داغدار کر دیا۔قومی کھیل ہاکی کو اب شاید صرف
وہاں بیٹھے تماشائی ہی دیکھیں گے۔کھیل کوئی دیکھے یا نہ ، لیکن اس سے
وابسطہ جذبہ حب الوطنی کا سورج غروب ہونے والی ہے۔
ایک محب وطن اور با ضمیر آفیسر کا قلم اُس وقت اپنا اختیار کھو بیٹھا۔جب
ایک ناجائز سرکاری دستاویز پر اس لیے دستخط کرنے سے انکار کیا۔کیونکہ وہ
اپنے عہدہ کو سرکارِ پاکستان کا ایک مقدس امانت سمجھتا تھا۔ پھر اس کے
نتیجے میں اس آفیسر کو مختلف مشکلات سے گُزرنا پڑا۔ خاندان والوں نے بھی اس
کی مشکلات کو دیکھ کر کہا۔کہ جناب آپ بھی وہی کرے۔ جو پاکستان کے دیگر
افسران کررہے ہیں۔لیکن اس نے انکار میں سَر ہلایا۔کہا مجھے جو بھی مشقت
جھیلنا پڑے۔ لیکن میں نے اِن کرپٹ لوگوں کے سامنے سَر نہیں جھکانا۔چنانچہ
قائداعظم کی اس ملک میں اب باضمیر آفیسر کیلئے جینا بھی مشکل ہو گیا۔
ایک جذبہ اس وقت قید کی زنجیروں میں جھکڑا گیا۔جب عوام نے حاکمِ وقت کو
ملکی اور قومی وقار کی خاطرسب کچھ عطیہ کر دیئے۔لیکن پھر وہ ملکی خزانے کی
بجائے انفرادی اکاونٹس میں چلے گئے۔اور قوم کو یہ سوال کرنے کی مقدرت نہ
ہوئی۔کہ ہمارا پیسہ کہاں گیا اور کہاں استعمال ہوا۔
ایک نوجوان کا جذبہ اس وقت جواب دے بیٹھتا ہے۔جب ایک غریب باپ کا بچہ اپنی
تعلیم مکمل کرتا ہے۔پھر اوورایج ہونے تک سرکاری ملازمت اس کے ہاتھ نہیں
لگتی۔بعد میں غُربت اور تنگدستی کی وجہ سے وہ خلیجی ممالک میں ڈرائیور،
مزدور یا سیکیورٹی کے ویزہ پر کام کرتا ہے۔پھر اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں
کو بھی میٹرک کے بعد عرب ممالک میں مزدوری کرنے کی دعوت دیتا ہے۔غریب بیٹا
اگر گولڈ میڈلسٹ بھی ہو۔ بیروزگار پھیرتا ہے۔ اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں
میں پڑھا پڑھا کراووریج ہو جاتا ہے۔ایم پی ایز، ایم این ایز ، سینیٹرز اور
وزاراء کی اولاد بیچلرز کرکے گریڈ سترہ پر براجماں ہو جاتے ہیں۔
افواجِ پاکستان ایک ایسا ادارہ ہے۔جس نے اب تک ملک کیلئے بیشمار قربانیاں
دیں ۔ اندرونی و بیرونی خطرات کا دلیرانہ مقابلہ کیا۔گو کہ دشمنانِ ملت نے
بہت سی کوششیں کیں۔لیکن وہ ان کی جذبہ حب الوطنی کو کم نہ کر سکیں۔
عوام کی حب الوطنی کے جذبات مقیّد ہو گئیں۔اور اب تو ان کا یہ حال ہے۔گویا
یہ ملک ان کی عارضی رہائش گاہ ہے۔عوام کی اکثریت نے اب ملک کو لوٹنے کا عزم
کیا ہوا ہے۔بدعنوان اور غلط کام کرنے سے منکر افسران OSD کے طور وقت گزار
رہے ہیں۔رعایا کا اعتماد امیر پر نہیں رہا۔امیر منتخب ہوتاہے۔ تو درباریوں
سمیت لوٹ مار میں مصروف ہو جاتا ہے۔سرکاری وزاراء کو اب یہ یقین ہو گیا
ہے۔کہ پانچ سالہ دور میں پیسہ نہ کماؤ تو اگلے انتخابات میں حریف کا مقابلہ
کیسے کروں گا۔
حب الوطنی کو ان قیود سے آزاد کرنا ملکی بقا کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ایسا
نہ ہو۔کہ مستقبل میں ان قیدیوں کو کوئی بغاوت پر اُکسائے اور پھر جواب ہاں
میں آجائے۔ |