کالجوں پر ڈپٹی کمشنروں کے چھاپے
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
خبردار! ہوشیار! کالج اساتذہ تیار
رہیں، اب ان کی مانیٹرنگ ڈپٹی کمشنر صاحبان بھی کریں گے۔ کالجوں کے
سربراہوں کے لئے ڈائریکٹر کالجز کی جانب سے مراسلہ جاری کر دیا گیا ہے، بعد
میں نہ کہیں کہ خبر نہیں ہوئی۔ ہوا یہ کہ کسی مخالف نے یہ بات وزیراعلیٰ
پنجاب میاں شہباز شریف تک پہنچا دی کہ کالجوں کے اساتذہ کالج کے اوقات میں
کم آتے ہیں، کیونکہ اس دوران بہت سے اساتذہ مختلف اکیڈمیوں میں پڑھاتے ہیں،
اس سے کالج کے طلبہ کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے، جس کی بنا پر انٹر اور ڈگری
کلاسز کے نتائج پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ یہ
چھاپے اچانک ہونگے۔ دراصل اپنے ہاں احساسِ ذمہ داری کا باب مستقل بند ہوتا
جارہا ہے، اگر ہر فرد اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کام کرتا جائے تو سارے
معاملات ہی درست ہو جائیں، ٹکراؤ اور خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کوئی
اپنی حدود سے نکل کر دوسرے کے کام میں مداخلت کرتا ہے، یا اپنے فرض سے
کوتاہی برتتا ہے۔
استاد ہونا بنیادی طور پر معزز ترین پیشہ ہے، معاشرے میں سب سے زیادہ
احترام کئے جانے کے لائق یہی لوگ ہیں، اس احترام کی وجہ تعلیم کی اہمیت ہی
ہے، یہ لوگ نامعلوم سے معلوم کی طرف جانے میں مدد دیتے ہیں، جہالت سے نکال
کر روشنی کی جانب لے جانے میں رہنمائی کرتے ہیں، انسان کو زمین کی پستیوں
سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچاتے ہیں، بے علم کو عالم بناتے ہیں۔ عزت تو
معاشرے میں بے شمار طبقات کی ہے، حکمرانوں کو دیکھیں، شان وشوکت، پروٹوکول،
ہٹو بچو، مراعات وغیرہ جیسے سلسلے اُن کے ساتھ ہیں، لوگ اُن کی آمد پر کھڑے
ہو جاتے ہیں، ان کے گھروں ، ڈیروں اور دفاتر کے باہر سائلوں کا ہجوم رہتا
ہے، سفر ہے تو سکیورٹی کے پہرے میں، قیام ہے تو محافظوں کے ساتھ۔ اپنے
منتخب نمائندے بھی اسی قطار شمار میں آتے ہیں۔ یہی کام بیوروکریسی کا ہے،
افسر صاحب کے کمرے میں داخل ہونا محال ہوتا ہے، دربان اجازت مرحمت فرمائے
گا تو آپ اندر جاسکتے ہیں، اندر جا کر بھی احترام اور ادب کے دائرے میں
رہتے ہوئے مدعا بیان کریں اور واپسی کا راستہ لیں۔ کچھ اسی قسم کا معاملہ
جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا بھی ہے، کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں کو اُن کے
مقام پر ہی رکھتے ہیں، ہر طاقتور اسی قسم کے منصب پر فائز ہے، وہ اپنے سے
کمزور یا مجبور سے اپنی عزت کرواتا ہے۔
یہ سب لوگ معزز ہیں ، مگر دِل سے کون کس کی عزت کرتا ہے؟ اس بات کا جائزہ
لینے کی ضرورت نہیں، ایسے سوالوں کا جواب بہت آسان، سادہ اور واضح ہوتا ہے۔
بہت سے لوگوں کی عزت اس کے عہدہ اور منصب کی وجہ سے ہوتی ہے، کئی لوگ اپنی
طاقت اور اختیارات کی وجہ سے عزت کرواتے ہیں، کچھ لوگوں کے شر سے بچنے کے
لئے بھی لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔ مگر زبردستی کی عزت کرنے والے بعد میں
اپنی اس مجبوری اور بے بسی کا بدلہ برائیاں بیان کر کے حتیٰ کہ مغلظات
وغیرہ کے استعمال سے بھی لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دل سے عزت ہمیشہ استاد وں
اور بزرگوں کی ہی ہوتی ہے، ان کے لئے کسی قسم کا جبر یا دباؤ نہیں ہوتا۔
ضروری نہیں کہ جس استاد کی آپ عزت کر رہے ہیں آپ براہِ راست اس کے شاگرد
بھی رہے ہوں۔ اساتذہ کی عزت کرنے والے تو ہر استاد کا احترام کرتے ہیں،
خواہ وہ عمر میں برابر، حتیٰ کہ کم ہی کیوں نہ ہو، ہے تو استاد کے منصب پر
فائز۔ چونکہ یہ بھی آفاقی سچائی ہی ہے کہ اساتذہ کا احترام کرنے والے افراد
بلکہ قومیں ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں۔
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن کا احترام ہم سب پر لازم ہے، کیا وہ بھی خود
کو محترم ثابت کرنے کے لئے کوشاں ہیں؟ کیا وہ اپنے طریقہ تدریس، کردار،
لباس، چال ڈھال اور رویے سے دوسروں کو مجبور کردیتے ہیں کہ ہر کوئی انہیں
احترام کی نگاہ سے دیکھے؟ شاید اب ان معیارات پر قائم رہنا مشکل ہوتا جارہا
ہے، اب بہت سے شاگرد اساتذہ کے احترام کا دامن چھوڑ چکے ہیں، آنے والے وقت
میں احترام میں مزید کمی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ جب اساتذہ اپنے کردار سے
ہی معاشرے کی محترم ہستی نہیں بنیں گے تو اُن کی رہی سہی عزت ڈپٹی کمشنروں
کے ذریعے کم کر دی جائے گی۔ استاد اگر استاد بن کر رہیں تو اُن کا وقار اور
مرتبہ ڈپٹی کمشنر سے زیادہ ہے، مگر ثابت کرنے کے لئے عمل او رمحنت کی ضرورت
ہے۔
|
|