ہم بحثیت ایک پاکستانی بہت سادہ لوح اور
بھولے بادشاہ ہیں ۔پہلے تو بھولے بادشاہ کا مطلب سمجھا دوں ورنہ ایڈیٹر
صاحب نے کلاس لگا دینی ہے ۔گاوں کے لوگ بھولے بادشاہ اس مست الست انسان کو
کہتے ہیں جو کھانا کھاتا ہے ،سوتا تو ہے مگردنیا داری کی کوئی فکر نہیں
ہوتی اور تو اور اس بھولے بادشاہ کو لوگ مختلف طریقوں سے تنگ بھی کرتے ہیں
مگر وہ اپنی ہی دھن میں مست رہتا ہے ۔ پاکستانی عوام بھی مست الست بھولے
بادشاہ کی مانند رہ کر بہت خوش ہے ۔
کل سے میڈیا پر امریکی ایمیگریشن پالیسی کا رونا رویا جا رہا ہے سب نیوز
چینل، اینکر پرسنز کو بولنے کا موقع مل چکا ہے ویسے دیکھا جاے تو یہ امریکہ
کا ذاتی معاملہ ہے وہ کس کو اپنے ملک آنے دیں یا روک دیں ہم بھولے بادشاہوں
کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ ہمارے ملک میں تو ہمسایہ ملک کا پورا
جہاز بناء ویزہ کے شاہی مہمان بن کر واپس چلا جاتا ہے ہم کو کوئی فرق نہیں
پڑتا ۔ہمارے ملک کے اپنے بہت سے مسائل ہیں ہم ان کو زیر بحث کیوں نہیں لاتے
۔ہم ان مسائل کے حل کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے ہم اپنے معاملات میں مست
الست ہیں اور امریکہ کے ہم وکیل بن جاتے ہیں ۔آج میں کچھ مسائل آپ لوگوں کے
سامنے رکھتا ہوں بتائیں ان کو حل کرنا بہتر ہے یا کسی دوسرے ملک کی پالیسی
کو زیر بحث لانا بہتر ہے ۔
حیران ہوں کہ چند دن پہلے حکومت ہی نے رپوٹ جاری کی کہ ملک میں چلنے والے
‘‘صرف پچاس‘‘ بناسپتی گھی کے کارخانے مضرِ صحت گھی تیار کر رہے ۔یہ ۔صرف۔
اس لیے کہا ہے کہ شاید ان کی تعداد دوگنا ہو ۔ملتان میں جعلی خون کی بوتلیں
برآمد ہوئیں، جو پورے ملک میں زیر استعمال تھی ۔
ملک میں بکنے والا اسی فیصد دودھ دودھ نہیں بلکہ مختلف کیمیکلز کا مرکب ہے،
جو کہ حکومتی اداروں کی رپورٹ اور اشتہارات سے ہی پتا چلا ہے ۔ مردار گدھوں
اور کتوں کا گوشت کئی ہوٹلوں اور قصابوں سے پکڑا گیا ہے، شوارمے والے تازہ
چوہے پکڑ کر ان کا قیمہ تیار کرواتے ہیں اور ہم مزے لے لے کر کھاتے ہیں ،سیوریج
کے پانی سے سبزیاں اگائی جارہی ہیں، ان کے لیے کوئی مستقل لائحہ عمل تیار
نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹرز گردے نکال کر بیچ دیتے ہیں، پاکستان میں دو نمبر سٹنٹ کا دھندہ عروج
پر ہے سٹنٹ بنانے والی کپمنیاں اپنی پراڈکٹ کے لیے رقص و سرور کی محفل
سجاتی ہیں غیر ملکی ٹور کرواے جاتے ہیں تاکہ ان کے ناقص سٹنٹ فروخت کرواے
جائیں ۔ ماؤں نے نارمل طریقے سے بچے جننے چھوڑ دیئے ہیں کیونکہ ڈاکٹرز کے
پیٹ نہیں بھرتے،نارمل طریقے سے کوئی بھی اتنی رقم ادا نہیں کرتا جتنی رقم
ایک آپریشن کے بعد وصول کی جاتی ہے ۔ شہد کے نام پر چینی، شکر اور گُڑ کا
شیرہ فروخت ہو رہا ہے مگر ہم بھولے بادشاہ ہیں ہم نہیں بولیں گے۔
سنتالیس لوگ طیارہ حادثے میں جانبحق ہوے اور ایم ڈی پی آئی اے فرمارہے ہیں
کہ امید تھی کہ طیارہ ایک انجن سے لینڈ کرلے گا،مطلب ان کو خبر تھی اگلے
جہاز بکروں کی قربانی دے کر پرواز کرواے گے ۔
بلوچستان میں جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں وہ بھی میلوں
سفر کے بعد اگر کوئی گھاٹ مل جائے، اسی بلوچستان کے ایک بائیس گریڈ کے افسر
کے گھر سے ایک ارب روپے کے قریب کیش برآمد ہوا اور اس افسر کے صرف ڈیفنس
کراچی میں اب تک آٹھ بنگلے دریافت ہوچکے ہیں،مگر ہم کیوں بولیں جی ہم بھولے
بادشاہ ہیں -
شاہراہ فیصل پر اسوقت الیکٹرک کے تاروں میں تانبے کے تاروں کی جگہ سلور کے
تار ڈالے جارہے ہیں جسکے باعث قیمتی عوامی جا نوں کو شدید نقصان کا خطرہ
لاحق ہے آئے دن الیکٹرک شاک سے اموات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام کو
علاج کے لیے ہسپتالوں سے دو دو سال بعد کا ٹائم ملتا ہے اور حکمرانِ وقت
دنیا کے بہترین ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے علاج کروانے ملک سے باہر جاتا ہے،
ہماری مائیں ہسپتالوں میں بیڈ نا ملنے کی وجہ سے مر رہی ہیں مگر ہم کیوں
بولیں ہم بھولے بادشاہ ہیں
اس ملک میں بھتہ ناملنے پر انسانوں نے ہی تین سو انسانوں کو زندہ جلادیا
مقدمہ چلا اب ایک گرفتار ملزم نے زبان کھولی اور اب پھر وہ اپنے بیان سے
مکر گیا ہے کہ یہ دباوٴ کی وجہ سے دیا تھا ۔
اس ملک کے وزیرِ اعظم کی پارلیمنٹ میں اللہ کے ننانوے ناموں کے نیچے کھڑے
ہوکر کی گئی تقریر کو ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سیاسی بیان کہہ دیا گیا،
وزیرِ اعلٰی انتخابات سے پہلے بڑے بڑے وعدے کرتا ہے اور انتخابات کے بعد
اسے جوشِ خطابت قرار دے دیا جاتا ہے،اور تو اور ہمارے ملک میں جان بچانے
والی ادویات بھی جعلی بنتی ہیں،اور معلوم ہونے کے باوجود ان کے خلاف کروائی
نہیں کی جاتی کہ ان کا اتنے ارب کا بزنس ہے اتنے ارب ٹیکس آتا ہے بس ان سے
التجا کی جاتی ہے جناب کوالٹی بہتر کر لیں ۔
ٹھیکیدار تعمیرات میں ناقص میٹریل استعمال کرتے ہیں اور بنی ہوئی سڑکوں کو
توڑنے کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے پھر ان کو بنانے کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے ہر کام
ٹھیکے پر کروایا جاتا ہے ۔ اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا ساٹھ فیصد بجٹ صرف
ایک شہر پر لگا دیا جاتا ہے اور باقی سات کروڑ لوگ اپنے حقوق کے لیے چُوں
تک نہیں کرتے، ہم کیوں بولیں جی ہم بھولے بادشاہ ہیں -
قبروں سے مُردوں تک کو نکال کر ہوس مٹائی جاتی ہے،بچوں کو پیدا کر کے
لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ناجائز بچے کچرے کے ڈھیر پر کتے اٹھائے پھرتے ہیں
کہ شاید کوئی انسان جاگ جاے ، بے گناہ عمر قید سے زیادہ قید کاٹ کر پھانسی
چڑھ جاتے ہیں اور ہماری عدالتیں بعد میں فیصلہ کرتی ہیں کہ وہ شخص تو بے
گناہ تھا۔ہماری عدالتوں میں من پسند فیصلہ نا آنے پر جج کی پٹائی لگائی
جاتی ہے ،دو دن شور کرنے کے بعد حالات پھر معمول پر آجاتے ہیں ۔
اب میں آتا ہوں اپنی خارج پالیسی کی طرف جس کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے
لگایا جا سکتا ہے کہ ہم آج تک کشمیر پر ہونے والے ظلم اور بربریت کی طرف
بھی دنیا کی توجہ ہی نہیں دلا سکے کشمیر کے لوگوں کو ان کا حق دلانا تو بہت
دور کی بات ہے ۔ہم سفارتی سطح پر بھارت سے ہار مان لیتے ہیں مگر کشمیری آج
بھی اپنی لاشوں پر پاکستان کا جھنڈا ڈال کر دفناتے ہیں ۔ہم پاکستانی بہت
اچھے اور سچے ہیں ہم کسی کے بھی کام میں دخل اندازی نہیں کرتے ہمارے ساتھ
جو بھی ہو رہا ہے وہ خدا کی طرف سے ہو رہا ہے ہم کیوں بولیں ۔ ہم بھولے
بادشاہ ہیں ۔ |