۱۹ مارچ ۲۰۰۲ کی دوپہر کومیں لنچ کے
لئے اٹھنے ہی والا تھا کہ ہماری کمپنی کا پرسنل مینیجر عبداﷲ زہرانی ایک
میلی کچیلی توب(عربی لباس) میں ملبوس ایک شخص کے ساتھ میرے ٹیبل پر آن کھڑا
ہوا۔مجھے فوکس ویگن کے انچارج کی پوزیشن سے ہٹا کر سروس ایڈوائزر کی پوسٹ
دے کر اوڈی سیکشن میں ٹرانسفر کر دیا تھا جہاں میر اانچارج ایک شامی یونس
نامی شخص تھا۔شامی پرلے درجے کے کمینے لوگ ہوتے ہیں اپنے محسن کو ڈسنا ان
کا کام ہوتا ہے اسے میں نے کام سکھایاتھا ۔لیکن ساماکو(جس کمپنی میں کام
کرتا تھا) کو پتہ چل گیا تھا کہ انجینئر افتخار چودھری پاکستانی حکومت کو
مطلوب ہے۔شائد وہ مجھے مین ایرئے سے ہٹا کر ایک ایسے سیکشن میں بھیجنا
چاہتے تھے کہ ہلہ گلا نہ ہو۔میں نے عبداﷲ الزہرانی سے پوچھا کہ کوئی
خدمت؟اس نے سہمے سے انداز سے کہا نہیں ۔میرا اقامہ مانگا گیا اس منحوس عربی
نے دیکھا اور کہا یہی وہ بندہ ہے۔سارے لوگ لنچ کے لئے نکل رہے تھے میری سرخ
رنگ کی اوڈی میرے دفتر کے سامنے کھڑی تھی شارع علی المرتضی سے میرا گھر
عزیزیہ کوئی دس منٹ کی ڈرائیو پر تھا میں دوپہر کا کھانا گھر کھاتا
تھا۔مجھے پتہ چل گیا میرے اوپر ہاتھ ڈال دیا گیا ہے اور میں گرفتار کر لیا
گیا ہوں۔ ان دنوں اسد درانی سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر تھا انتہائی
مغرور اکھڑ اور بد تمیز شخص۔اس نے نواز شریف کے ساتھیوں پر گرفت ڈال رکھی
تھی۔میری پہلی ملاقات قونصلیٹ میں ہوئی تو میں نے اندازہ لگا لیا اس بندے
سے نہیں بنے گی۔اﷲ کا کرنا ایسے ہوا کہ ان دنوں پاکستانی اسکول کی پیرنٹس
کمیٹی کے انتحابات ہو رہے تھے پاکستانی کمیونٹی میں اﷲ کے فضل سے میری جان
پہچان بہت اچھی تھی ہم اس سے پہلے سردار شیر بہادر کے ساتھ مل کر ڈاکٹر
ارشد قیصرانی کو انگلش سیکشن کا انتحاب جتوا چکے تھے۔میرا مقابلہ جماعت
اسلامی کے مسعود جاوید سے تھا۔جماعت تو میرے دل میں تی لیکن ہم چونکہ نظم
سے باہر ہی رہا کرتے تھے لہذہ فاروق ساہی وغیرہ بھی ہمارے ساتھ نہ تھے
البتہ الیاس فاروقی اﷲ غریق رحمت کرے وہ میرا ساتھ دیا کرتے تھے۔درانی اور
ایک طارق جو جدہ میں ہوا کرتے تھے یہ لوگ نواز شریف کے ساتھیوں پر برق بن
کر گر رہے تھے قاری شکیل مرحوم ارشد خان مرحوم عظمت نیازی آفتاب میرزا یہ
پکڑے جا چکے تھے۔میں خبریں کا نمائیندہ تھا میں نے ان کی گرفتاری پر شور
مچا رکھا تھا ۔قونصل جنرل نواز چودھری تھے انتہائی زیرک پیار کرنے والے
دوست تھے گجر برادری کے تھے گھر میں آنا جانا بھی تھا۔ان سے ملاقات ہوئی تو
انہوں نے کہا کہ سفیر صاحب آپ کی ڈائری سے بڑے تنگ ہیں۔میں نے کہا اﷲ کی
زمین کی بڑی ہے کسی اور جگہ چلے جائیں گے انہیں کہیں جو کرنا ہے کر
لیں۔اسکول کی کمیٹی کے لئے کمیونٹی کا اجلاس جاری تھا کہ کسی وجہ سے میں
جنرل درانی سے ٹکرا گیا وہ سٹ سٹینڈ کا کہہ رہے تھے میں نے کہا جنرل صاحب
یہ گجرانوالہ کینٹ نہیں ہے کہ حوالدار افتخار کو اٹھک بیٹھک کروا دیں گے۔اس
بندے کو نیچے اتارو جس کے خلاف میں نے درخوسات دی تھی۔انہوں نے میری بات
نہیں مانی اور میں بہت سے لوگوں کو لے کر اٹھ آیا۔ہوا یوں کے سب ہی اٹھ گئے
اس لئے کہ مسعود جاوید نے کہا کہ جن کے بچے نہیں ہیں وہ اٹھ جائیں میں نے
سوچا میرے دوست چودھری اکرم جہانگیر اور بہت سے کیسے اٹھیں گے اسی بہانے
بائیکاٹ ہو جائے تو کام ٹھیک رہے گا۔جنرل درانی کی بڑی سبکی ہوئی۔مجھے
ممتاز کاہلوں نے کہا چودھری معافی منگ لئے میں نے جواب دیا جتی نووں
بھیجاں۔میں نے کہا جو ہوگا دیکھا جائے گا۔در اصل اس کے ڈانڈے بہت دور جا کر
مل رہے تھے۔میرے گھر اکثر و بیشتر پارٹیاں ہوا کرتی تھیں سہیل ضیاء بٹ
کیپٹن صفدر قونصلرز غرض میں جس بلڈنگ میں رہتا تھا اس کا نام ہی پاکستان
بلڈنگ پڑ گیا تھا اس لئے کہ مارچ میں اس یوم پاکستان پر میں چراغاں بھی
کروایا کرتھا قومی نغمے گیت نعت خوانی غرض ایک منی پاکستان بن گیا تھا بچے
ہمارے پاکستانی لباس سلوا کر سماں بادھ دیتے تھے۔میں جس واقعے کو ذکر کر
رہا ہوں یہ ۲۰۰۲ کی بات ہے۔کرنل طارق بلی آنکھوں والا پنڈی گھیپ سے تعلق
رکھتا تھا ملک محی الدین کی وجہ سے میرے ساتھ بھی اچھے تعلقات تھے مگر جب
بیگم نصرت شہباز پاکستان آئیں تو اسے بڑی تکلیف ہوئی میں نے اسے گھر میں
ہونے والی دعوتوں سے بھی دور رکھا ۔میں میاں نواز شریف کا ساتھ اس لئے دیتا
تھا کہ وہ مظلوم تھے ان کی حکومت کا تختہ الٹ چکا تھا۔ویسے بھی کیپٹن صفدر
میرے بھتیجے فیصل ذوالفقار علی کا یار غار تھا فیصل این اے بارہ میں میاں
صاحب کا چیف کو آرڈینیٹر بھی تھا۔یہ ساری چیزیں ان کے قریب لے گئی تھیں۔
طارق پہلے ہی تپا بیٹھا تھا۔ریاض سے درانی جب جدہ آئے اور تقریب کا بائیکاٹ
ہوا تو دونوں نے فیصلہ کیا کہ افتخار کو بھی نواز شریف کے ساتھیوں کے ساتھ
اٹھا لیا جائے۔یہ فرق ہوتا ہے جمہوری ملکوں کا اوربادشاہت کا۔میں جمہوری
ممالک میں پاکستان کو نہیں سمجھتا تھا اس لئے کہ اس وقت مشرف کا دور
تھا۔مجھے ایک سینئر افسر شارق خان نے فون کیا اور کہا آپ نے آج تقریب میں
آنا ہے وہ تقریب جنرل درانی کی جانب سے ہے جس میں کمیونٹی کے سرکردہ لوگ
ہوں گے دوسرے دن میں چلا گیا میں نے دیکھا اس نے دیر تک میری آنکوں میں
آنکھیں ڈالیں اور خاموش رہا میں نے کہا کیا حال ہے سفیر صاحب؟جواب میں
خاموشی ملی میں نے اندازہ لگایا کام خراب ہو چکا ہے۔پھر ہوا یوں کہ ایک
صحافی جو ایک قومی روزنامے کا نمائیندے سے زیاادہ ٹاؤٹ تھا اس نے حامد
صدیقی کے گھر میں مجھ سے کہا کہ آپ کا نام جانے والوں میں شامل ہے۔میرا
کہنا تھا تمہارے ساتھ ہی جائیں گے۔میرے رہائیشی پرمٹ کی کاپی اس نے چند دن
پہلے ایک بہانے سے مجھ سے لے لی تھی۔وہ دور اتنا کمپیوٹر رائیزڈ نہ تھا وہ
کاپی میرا کام کر گئی اس بد بخت نے میرے اقامے کی کاپی قونصلیٹ میں بیٹھے
اس خبیث شخص کو دے دی جو پاکستانی سفیر کا پیادہ تھا۔میں نے ادھر ادھر سے
سنا پاکستانی پکڑے جا رہے تھے نواز شریف کے ساتھیوں پر قیامت ٹوٹ رہی تھی
انہوں نے قاری شکیل اور ارشد خان کو تو چھڑوا لیا لیکن کسی اور کو نہ چھڑوا
سکے۔
میں اس منحوس عربی کے ساتھ ورکشاپ کے اندر سے چلتا چلتا پیچھے والے گیٹ کی
طرف بڑھ رہا تھا میرے دوست مجھے ہیلو ہائے کر رہے تھے انہیں علم نہیں تھا
کہ ان کا ساتھی ایک مقتل کی جانب جا رہا تھا
|