ماں
(Dr B.A Khurram, Karachi)
تحریر ۔۔۔صوفیہ کنول
میں اپنی ماں سے بہت بہت بہت پیار کرتی ہوں۔میری ماں میری بہت اچھی دوست
ہونے کے ساتھ ساتھ میری ہمراز بھی ہے۔ میں آج بھی اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی
بات اور ہر جزبات اپنی ماں سے شیئر کرتی ہوں اور وہ ہمیشہ میری اصلاح کرتی
ہے۔ میری ماں کی ایک بہت پیاری سی عادت۔میرا جب دل نہیں کرتا گھر آئی کوئی
چیز کھانے کو تو میں منع کردیتی ہوں۔یا کہتی ہوں مجھے بھوک نہیں۔ تو میری
ماں بھی اس چیز کو نہیں کھاتی اور بول دیتی ہے مجھے بھی بھوک نہیں۔مجھے ان
کے اس چاہت بھرے انداز پر بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ پھر ہم دونوں ایک ساتھ
مل کر مزے سے کھاتی ہیں۔ خدا میری ماں کا سایہ ہمیشہ میرے سر پر سلامت رکھے
آمیین۔اس دنیا میں بہن،بھائی،دوست احباب ہر رشتہ دوبارہ پایا جا سکتا ہے
مگر ماں فقط ایک ایسا سْچا اور انمول رشتہ ہے۔جو کسی بھی دوسری عورت کے روپ
میں نہیں پایا جا سکتا۔ماں کے قدموں تلے جنت ہے خدا نے ماں کو یہ اعزاز
یونہی نہیں بخشا۔ماں نو ماہ تک بچے کو اپنی کوک میں اٹھا کر اپنے خون جگر
کی خوراک سے بچے کی پرورش کی شروعات کرتی ہے اسکا بول وبراز صاف کرتے اسے
گھن نہیں آتی۔راتوں کو اْٹھ اْٹھ کر دیکھ بال کرتی ہے۔شدید سردیوں کی
ٹھٹھرتی راتوں میں خود گیلے بستر پر سوتی اور اسے سوکھے پر لٹاتی ہے۔خود
بھوکی رہ لیتی مگر اپنے بچے کو ضرور کھلاتی ہے۔بچہ ذرا کسی بات پر ڈرتا ہے
تو ساری رات آنکھوں میں کاٹ دیتی ہے۔کیا خوب شاعر نے لکھا۔
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی ’’تابش‘‘
میں نے اک بار کہا تھا ماں مجھے ڈر لگتا ہے۔
الغرض اولاد پر ماں کے اتنے احسانات ہیں۔کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔آفرین ہے
آج کے نوجوانوں پر جب یہی ماں بڑھاپے کو پہنچتی ہے۔ تو اسے نافرمان اولاد
بھی ہے اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔اسکی نافرمانی کرتے ہیں۔بات بات پر
اسے ڈانتیں ہیں۔ بیوی کی سن کر ماں کو بھی گالیاں دیتے ہیں۔ اس کی گستاخی
کرتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں۔پتہ نہیں کب جان چھوڑے گی استغفراﷲ ---حتٰی کی اﷲ
تعالی نے تو ماں کو ایک لفظ(اْف)تک کہنے کو گناہ کعبیرہ قرار دیا ہے۔اے عقل
و انصاف کا خون کرنے والے! کیا تو اسی عمل پر جنت کا طالب ہے وہ جنت جو خدا
نے تیری ماں کے قدموں میں رکھی۔ تو اور تیری بیوی تو پیٹ بھر کر کھا پی
لیتے ہیں مگر ماں بھوکی پیاسی پڑی رہتی ہے۔فرمانِ باری تعالی ہے۔حرام ہے اس
پر جنت کی لذت جس نے خود تو پیٹ بھر کر کھایا اور ماں بھوکی رہ گئی۔اور
فرمانِ مصطٰفے ہیں۔ جس نے اپنی ماں کو گالی دی اس کی قبر میں آگ کی
چنگاریاں گریں گی اتنی مقدار میں جتنے بارش میں پانی کے قطرے آسمان سے گرتے
ہیں۔ہمیں اپنی ماں کی قدر کرنی چاہئے۔اﷲ کریم فرماتے ہے۔ میری رضا ماں میں
ہے۔یعنی جس نے اپنی ماں کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔جس نے اپنی ماں
کو راضی کر لیا اس نے مجھے راضی کر لیا۔ماں ہمارے لئے دنیا وآخرت میں باعثِ
نجات اور باعثِ رحمت ہے۔ماں کو ایک بار پیار سے دیکھنے سے ایک حج کا ثواب
ملتا ہے۔ ہمیں اپنی ماں سے ہمیشہ حسن اخلاق سے پیش آنا چاہئے۔اسکی ہر ضرورت
کا خیال رکھنا چاہئے۔اسکی ہر بات پر عمل کرنا چاہئے اور بڑھاپے میں اسکی
خدمت اس طرح کرنی چاہئے جیسے اس نے پچپن میں ہماری کی تھی۔اے خدائے پاک کے
احکام و قرآن کو قصہ کہانی اور معمولی بات سمجھنے والے!اور ماں کے حق کو
پامال کرنے والے!ابھی بھی سمجھ جا اور توبہ کر کے ماں کے قدم پکڑ کر اپنی
خطائیں معاف کروالے ابھی وقت ہے ورنہ عنقریب تجھ پر عذاب دیا جائے گا۔خدا
ہم سب کو اپنی اصلاح اور نیکی کی راہ پر چلنے کی توفیق فرمائے آمین
|
|