محدود حوالوں سے جڑی معاشرتیں سادہ، پر
سکون، خوشگوار اور آسودہ حال ہوتی ہیں۔ ان کے سیاسی معاشی اور عمرانی مسائل
کم ہوتے ہیں۔ اُن سے منسلک اکائیاں بعض معاملات میں ذاتی شناخت کو تیاگنے
پر تیار رہتی ہیں لیکن ایسی معاشرتیں زیادہ دیر تک اپنا وجود برقرار نہیں
رکھ پاتیں۔ مسائل کم ہونے کے باعث ان کے سوچ کے دائرے محدود رہ کرزنگ
آلودہوجاتے ہیں ۔ کسی وقت بھی کوئی دوسری معاشرت شب خون مار کر انہیں ہائی
جیک کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس بہت سارے حوالوں سے پیوست معاشرتیں بے سکون
ناخوشگوار اور پیچیدہ ہوتی ہیں۔ سیاسی معاشرتی اور عمرانی مسائل میں ہر
لمحہ اضافہ ہی ہوتا ہے۔ یہ مسائل انہیں متحرک رکھتے ہیں۔ ان کے سوچ کے
دائرے انہیں مخصوص کرّوں تک محدود رہنے نہیں دیتے۔ ہر نئے خطرے اور ہر نئے
مسلے سے نبردآزما ہونے کے لیے انہیں ہر لمحہ متحرک رہنا پڑتا ہے۔ پیچیدگی ،
بے سکونی اور بے چینی انہیں کسی دوسری معاشرت کی غلامی یا زیر دستی سے
بچائے رکھتی ہے۔ سوچ کے پھیلتے حلقے ایجادات و کمالات کے دروا کئے چلے جاتے
ہیں۔ سوچ کا حلقہ جتنا وسیع ہو گا زندگی اتنی ہی متحرک اور فعال ہو گی۔
سوچ کے کینوس کی وسعت کے لیے لازم ہے کہ ایک سماج دوسرے سماجوں سے قریبی
اور گہرے رشتے استوار کرتا چلا جائے۔ تبادلات کے معاملہ میں فراخدلی کا
مظاہرہ کرے ۔ محدود اور مخصوص پیمانوں کو توڑ دیا جائے۔ حالات اور ضرورت کے
مطابق تبدیلیوں کا عمل جاری رہنا چاہیے۔تاہم ذاتی شناخت اور انفرادیت کے
پہلو کو کسی بھی حوالہ سے نظر انداز نہیں ہونا چاہیے ورنہ کوّا چلا ہنس کی
چال اپنی بھی وہ بھول گیا، والا معاملہ ہو گا۔ گویا لین دین میں توازن کو
بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
سماجوں میں رشتوں کی استواری کے ضمن میں تراجم کا کام کلیدی حیثیت کا حامل
ہوتا ہے۔ ترجمے کی ضرورت و اہمیت صدیوں سے مسلّم چلی آتی ہے۔ مختلف علاقوں
کا ادب ترجمہ ہو کر ادھر اُدھر سفر اختیار کرتا رہتا ہے۔ کوئی قوم علم و
ادب پر ملکیت کا دعویٰ کر سکتی۔ علم و ادب انسان کی ملکیت ہے۔ دانش کا ہر
حوالہ انسان کی اپروچ میں رہنا ضروری ہے ۔ترجمے کے ذریعے نظریات اعتقادات
اور عبادات کے اطوار بھی دیگر امرجہ پر ٹرانسفر ہوتے رہتے ہیں۔ وہاں وہ
تنقیدو تحقیق کی چھلنی سے گزرتے ہیں۔تنسیخ و تردید اور تبدیلیوں کے حوادث
سے انہیں گزرنا پڑتا ہے۔
تراجم زبانوں کو نہ صرف وسعت عطا کرتے ہیں بلکہ ان کے اظہاری حوالوں پر بھی
مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ تراجم کے حوالہ سے الفاظ، اصطلاحات ، تشبیہات،
علامات ، مرکبات، تلمیحات، اشارے کنائے ،استعارے، اسلوب و لسانی اطوار
وغیرہ بھی درآمد ہوتے ہیں۔ اس طرح زبان کا ذخیرہ الفاظ وسعت اختیار کر کے
اس زبان کی ثروت کا سبب بنتا ہے۔
اُردو زبان اس معاملہ میں بڑی فراخدل واقع ہو ئی ہے۔ اس نے کبھی کسی زبان
سے رشتہ استوار کرنے سے انکار نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ذخیرہ الفاظ
میں اٹھاون فیصد بدیسی جبکہ بیالیس فیصد دیسی الفاظ شامل ہیں۔ اُردو نے غیر
اُردو الفاظ کو اپنے لسانی ڈسپلن کے مطابق اختیار کیا ہے۔ انہیں سو طرح کے
رنگ عطا کئے ہیں ۔بدیسی الفاظ کے ساتھ اُردو معاون افعال بڑھا دیئے گئے
ہیں، ایسے بہت سے مرکبات کو محاورے کا درجے حاصل ہوگیا ہے۔ کچھ مرکبات کو
مختصر کر کے اُردو الیا گیا ہے جیسے آزما نا، فرمانا وغیرہ ۔اُردو میں یہ
صورتحال بہت پہلے سے مستعمل چلی آتی ہے۔
غالبؔ اس معاملہ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ ان کی اُردو غزل کے اشعار
گنتی کے ہیں اس کے باوجود غالب کالسانی سرمایہ بڑے کا م کی چیز ہے ۔ انہوں
نے فارسی بول اور فارسی مرکبات بعینہ اپنی اردو غزل میں داخل کردئیے ہیں ۔
بعض فارسی محاوارت کا اردو ترجمہ بھی کیا گیاہے۔ اگلے صفحات میں ان کے
چالیس محاورات کے اردو تراجم پر لسانی حوالہ سے گفتگو کی گئی ہے۔ جس سے ان
کے تراجم کی حیثیت واہمیت کا اندازہ کرنا یقیناًآسان ہو جائے گا:
آب دینا:
آب دادن کا ترجہ ہے بمعنی چمکانا، جلادینا (۱)کسی دھار والی چیز کو سان پر
لگانا یا پتھر پر تیر کرنا ، سیچنا ، اجالنا ،
آبداری دینا ، بجھاؤ دینا (۲)
نگاہ کی دھار کوجلا دینا ، دیکھنے کے انداز میں کمال پیدا کرنا
کرے ہے قتل میں لگاوٹ میں ترارو دینا تیری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے
آفت کا ٹکڑا:
آتش پارہ کا ترجمہ ہے یعنی آفت کا پرکالہ (۳)
اردو میں آفت کا پر کالہ مستعمل ہے۔ غصب کا پتلا (۴)، بد ذات ، شریر، عیار
(۵) آفت کا بنا ہوا، شوخ وشنگ ، طرار ،
فتنہ انگیز ، فتنہ پرور
سیمابی مزاج کا حامل ، بے سکون ،سکون کا دشمن اور آوارگی کا شوقین
میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی کہ ہے عافیت کا دشمن اور آوارگی کا
آشنا
اجارہ کرنا:
اجارہ کردن ، فارسی میں کرایہ پرلینا کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ اردو
میں اجارہ کرنا عام سننے کو نہیں ملتا۔ بطور محاورہ ٹھیکے پر ٹھہرانا ، ذمہ
لینا ، ٹھیکہ لینا معنی رکھتاہے۔
اجارہ داری ، علم معاشیات کی معروف اصطلاح بھی ہے جو کسی تجارت پر بلاشرکتِ
غیرے قبضہ کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ ’’ اجارہ نشین‘‘ بڑا عام فارسی
مرکب ہے یعنی کرایے پر اقامت رکھنے والا (کرایہ دار) ۔ اجارہ نشین بلڈنگ کی
کرایہ داری کے لئے مخصو ص ہے ۔ہمارے ہاں صرف عمارت ہی نہیں لی جاتی اور بہت
ساری اشیابھی کرایہ پرلی اور دی جاتی ہیں ۔ اس طرح اجارہ کرنا ، اجارہ
باندھنا کسی بھی حوالہ سے محض ’’کرایہ داری ‘‘ کے معنوں میں نہیں لیا
جاسکتا۔
غالبؔ کے ہاں ’’ اجارہ کرد ن‘‘ کو دعویٰ کرنا کے معنوں میں لیا گیا ہے۔
مولانا طبا طبائی کا خیال ہے کہ یہ ایسے موقع پر بولا جاتاہے جب کوئی اصرار
سے کہے کہ جس طرح بنے میرااُ ن سے ملاپ کرادو۔ لیکن اجارہ کرنا کا ان معنوں
میں استعمال کہیں سننے میں نہیں آتا۔ وہ آئیں گے یا انہیں لے آنے میں
کامیاب ہوجائیں یا انہیں لے کر ہی آئیں گے، اس ضمن میں کوئی دعویٰ نہیں
کرتے ، وعدہ نہیں کر تے یا ایسا کرنے کااختیارنہیں رکھتے۔ غالبؔ نے ’’کی
ضرورت‘‘ اور مقامی مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ترجمے کو مفاہیم عطا کئے
ہیں ۔ محاورے کا تفہیمی و مزاجی سلیقہ بدیسی نہیں رہنے دیا بلکہ اس کی روح
میں مقامی بوُ باس داخل کر دی ہے۔ غالبؔ کا شعر ملاحظہ فرمائیں میر اکہا در
ست محسوس ہوگا
غالبؔ تیرااحوال سنادیں گے ہم ان کو
وہ سن کے بلالیں ، اجارہ نہیں کرتے
یہ واضح کرنابھی مقصو د ہے کہ وہ ہمارے اجارے میں نہیں ۔ ہمارا اس پر کوئی
زور نہیں چلتا بلکہ وہ اپنی مرضی کا ہے اجارے کا دعوی کرنے کی صورت میں شک
پید اہوسکتا ہے کہ ان سے کوئی ربط نہانی ہے۔
استوار ہونا :
استوار داشتن / کردن ، مسعودسعد سلیمان کے ہاں اس محاورے کا استعمال کچھ
یوں ہواہے
گوشم اول کہ این جربشنود بہ روائت کہ استوار نداشت
استوارنامہ ، ایک اصطلا ح بمعنی سرکاری سند ، فارسی میں مستعمل ہے۔ غالبؔ
نے استوار کے ساتھ اردو مصدر ’’ہونا ‘‘ پیوند کر دیاہے۔ استوار پہلے ہی
اردو میں مانو س ہے۔ لہذا استوار ہونا میں اجنبیت نظر نہیں آتی ۔ غالب ؔ کا
شعر دیکھئے
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدبودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
غالبؔ نے اسے مضبوط اور پائیدار کے معنوں میں نظم کیا ہے۔ وعدہ واقعی وعدہ
ہوتا ، ٹھیک سے ، ڈھنگ سے ، اچھی طرح معنی بھی مراد لے سکتے ہیں ۔’’نازکی
‘‘ کے حوالے سے مضبوطی اور پائیدار ی کا سوال ہی نہیں اٹھتا ۔
انتظار کھینچنا:
انتظار کشیدن / داشتن ، فارسی میں انتظار کرنا کے معنوں میں استعمال
ہوتاہے۔ مثلاً مسعود سعد سلیمان کا یہ شعر دیکھئے ۔
ہیچ روزے بہ شب نشد کہ مرا نامہء تو در انتظار نداشت
انتظار کشیدن / داشتن اچھے وقت ، کسی شخص ، کسی شے کی آمد / موصولی ، وصولی
کے لئے استعمال میں آتا ہے ۔ زبانی یا تحریری پیغام کے لئے بھی یہی محاورہ
استعمال میں آتا ہے۔ اردو میں مختلف نو عیت کے تراجم پڑھنے کو ملتے ہیں
شاہ مبارک آبروؔ کے ہاں وقت کے لئے انتظار کھینچنا نظم ہواہے
خوب تیری مشکل آسکتی نہیں تصویر میں مدتوں سیتے مصور کھینچتا ہے انتظار
(۷)آبروؔ
محمد فقیر در د مند ؔ نے دکھ پڑنے کے حوالہ ’’ انتظار آونا ‘‘باندھا ہے
الہی مت کسو کو پیش رنج انتظار آوے ہمارا دیکھیے کیا حال ہو جب تک بہار آوے
(۸)دردمندؔ
میر باقر علی باقر ؔ نے شخص کے لئے ’’انتظار رہنا ‘‘استعمال کیاہے
تجھے تو مشغلہ اغیار سے رہا تا صبح تری بلا سے کسی کو گرا نتظار ہا
انہوں نے ’’ا نتظار تھا ‘‘ معنوں میں برتا ہے۔میر ؔ صاحب نے ’’ انتظار کرنا
‘‘ شخص کے انتظار کے لئے نظم کیا ہے
رہی سہی بھی گئی عمر تیر ے پیچھے یار یہ کہہ کہ آہ تراکب تک انتظار کریں
(۹)میرؔ
خواجہ دردؔ نے’’ انتظار گذرنا ‘‘ باندھاہے
وہ زمانے سے باہر اور مجھے رات دن انتظار گذرے ہے(۱۰) دردؔ
حاتم ؔ نے انتظار بیٹھنا استعمال کیا ہے
زندگی ہوچکی میاں حاتم ؔ وقت کے انتظار بیٹھے ہیں (۱۱)حاتم ؔ
درج بالا تراجم کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ’’ انتظار کشیدن ‘‘داشتن
کا ’’انتظار کھینچنا‘‘ غالب کے ہاں ایسا نہیں ہے
نفس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچے
اس ترجمے اور اس کے استعمال میں ایک نئی بات ضرور سامنے آتی ہے۔ اس استعمال
کے ساتھ امید کا پہلو وابستہ ہے۔ امیدنفسیاتی سطح پر تسکین کا ذریعہ بنی
رہتی ہے۔ امید نہ ہونے کی صورت میں مایوسی کا عنصر غالب رہتا ہے۔ باور رہے
اشکالی تبدیلی تبدیلیاں یا تراجم ، بعض نامانوس کو دلچسپ بنا دیتی ہیں ۔
غالب ؔ انتظار کھینچ سے انتظار کی کیفیت مراد لے رہے ہیں ۔ جس میں استقلال
کو استحکام میسّر آتا ہو جبکہ انتظار کشیدن / داشتن کے ساتھ یہ پہلو وابستہ
نہیں ہے۔ اس حوالہ سے غالب کا استعمال دوسروں سے ہٹ کر اور منفر د ہے۔
انگشت رکھنا:
انگشت برحرف نہادن ، فارسی میں یہ محاورہ کسی تحریر پر اعتراض کرنا کے
معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ اردو میں ’’ انگشت رکھنا ‘‘ نہیں بولا جاتا ’’
انگلی رکھنا ‘‘ بولتے ہیں ۔
فارسی میں اہل دانش کی تحریروں پر اعتراض کے لئے انگشت برحرف نہادن بولتے
ہیں جبکہ ’’ انگلی رکھنا ‘‘ ہر چیز پر اعتراض کرنے کے لئے بولا جاتاہے۔
غالبؔ نے فارسی کی پیروی میں ’’ انگشت رکھنا‘‘ کو تحریرہی سے مخصوص رکھا ہے
لکھتا ہوں اسدؔ سوز شِ دل سے سخن گرم تانہ رکھ سکے میرے حرف پرانگشت
بازار گرم ہونا:
بازار گرم بودن ، خوب بِکری ہونا، مانگ ہونا/بڑھنا ، مال کی ڈیمانڈ بڑھ
جانے کے حوالہ سے بولا جانے والا محاورہ ہے ۔ اردو میں بھی قریباً ان ہی
معنوں میں استعمال میں آتا ہے۔(۱۲) غالبؔ نے محاورے کو اور ہی رنگ دے دیاہے
وسیب میں صورتحال کچھ یوں ملتی ہے
الف۔ عدالتوں میں مقدمے بازی کے حوالہ سے سائلوں اور اہل کاروں کے درمیان
ایسی ہی صورت دیکھنے کوملتی ہے۔
ب۔ ۱۔بازارِ حسن میں کلالوں اور گاہکوں کے درمیان سودے بازی کا منظر مختلف
نہیں ہوتا۔
ٍ ۲۔ حسن میں اجارہ رکھنے والے حسین کے حصول کے لئے اہلِ ذوق اپنی حیثیت سے
بڑھ کر ادا کرنے یا شرائط
ماننے کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔
غالبؔ نے محاورے کے نئے مفاہیم میں استعمال کی راہ کھول دی ہے
پھر کھلا ہے درِ عدالتِ ناز گرم بازارِ فوجداری ہے
غلام رسول مہر تشریح میں لکھتے ہیں
’’ پھر ناز کی عدالت کا دروازہ کھل گیا اور فوجداری کے مقدمے بہ کثرت ہونے
لگے‘‘۔(۱۳)
محبو ب کے حوالہ سے لڑنے بھڑنے اور ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے کا وتیرہ
نیا نہیں ۔ غالبؔ نے اس حقیقت کو بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے۔
بباد دینا :
بیاددادن ، فارسی کا بڑا معروف محاورہ ہے جوتباہ کرنا ، منتشر کر دینا ،
بکھیر دینا وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
بباد ہندی اسم مذکربھی ہے اور اس سے بباد اٹھنا محاورہ بمعنی فساداٹھنا ،
فساد کرنا موجود ہے ۔ تاہم یہ بباددادن سے قطعی الگ چیز ہے ۔ اس میں بغاوت
شرار ت اور شرینتر کے عناصر موجود رہتے ہیں ۔ بباد دادن توڑ پھوڑ اور لخت
لخت کردینے کے حوالوں سے منسلک رہتاہے۔
بباد دینا ‘‘ فصیح ترجمہ ہے اس کے باوجود رواج نہیں پا سکا۔ ’’ بیاد اٹھنا
‘‘ بھی اردو میں رواج نہیں رکھتا ۔
قائم ؔ چاندی پوری کے ہاں ’’ بیا دجانا‘‘ نظم ہواہے
گئے بباد نہ اب کے تو بخت میں اپنے کوئی دن اور بھی دنیا کی باؤ کھانا تھا
(۱۴)قائم ؔ
بباد جانا ، بباد دادن کا ترجمہ ہے۔ غالب ؔ نے دادن کے لئے اردو معاون فعل
’’ دینا ‘‘ برتاہے
نالہ ء دل نے دئیے اور اق لختِ دل بباد یاد گارِ نالہ ایک دیوانِ بے شیرازہ
تھا
غالبؔ نے ’’ بیاد دینا ‘‘ کو منتشر کر دینا کے معنوں میں برتا ہے۔ غلام
رسول مہر نے اڑنا ہواکے حوالے کردینا ، پریشان و برباد کردینا ، معنی مراد
لئے ہیں (۱۵)
بروئے کارآنا:
بروئے کار آمدن ، شاداں بلگرامی کے نزدیک بروئے کار آمدن ’’ ظاہر شدن ‘‘ سے
کنا یہ ہے (۱۶) بروئے کار آنا ، قدم رکھنا ، کی طرف آنا ، وارد ہونا،
برسرِکار آنا ، کام آنا تفہیم رکھتا ہے۔ غالب ؔ نے جن معنوں میں استعمال
کیاہے ار دو بول چال سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ آمدن کا ’’ آنا ‘‘ ترجمہ کرنے
کے باوجود محارے کے اسلوب و معنی فارسی ہیں ۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار صحر ا مگر بہ تنگیِ چشم حسود تھا
پروازدینا:
پرواز دادن داشتن کا اردوترجمہ پرواز دینا کیا گیا ہے ۔ ایک دوسر امحاورہ
’’ پر وبال داشتن ‘‘ بمعنی طاقت و قوت کا ہونا فارسی میں عام استعمال کا
محاورہ ہے۔ پرواز دینا ، قوت فراہم کرنا ، مزید بہتری پیدا کرنا، صلاحیت
میں اضافہ کرنا ، شکتی بڑھانا وغیرہ معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ شعر میں
مطلب یہ بنتا ہے جب تک جلو ے کے تماشا(دیکھنے ) کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی ،
انتظار کی اذیت سے گذرنا ہوگا۔ غلا م رسول مہر کے مطابق
’’ہماری طبعیت کب برداشت کرسکتی ہے کہ انتظار کے آئینے کو صیقل اور جلا
دیتے رہیں ‘‘ (۱۷)
مہر صاحب کے حوالہ سے انتظار کی اذیت واضح ہوتی ہے کہ کب تک آخر انتظار کیا
جائے ۔ اس طرح عجلت پسندی سامنے آتی ہے ۔عجلت بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ غالبؔ
یقیناًاس فلسفے سے آگاہ تھے ۔ دیر آید درست آید مقولہ ان سے پوشید ہ نہیں
رہا ہوگا۔
پروازدینا ، صلاحیت بڑھانا ، صیقل کرنا ، جلا دینا وغیرہ ایسے معنوں میں
استعمال ہواہے ۔محاورہ فصیح سہی مانوس نہیں ، اس لئے چل نہیں سکا۔
وصال جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں کہ دیجے آئینہ انتظار کو پرواز
مطلب صر ف اتنا ہے جلوے کے لئے انتظار کی اذیت سے گذرنا پڑتا ہے مگر انتظار
کی اذیت سے گذرے کون؟
پرورش دینا:
پرورش داشتن کاترجمہ ہے ۔نشوونما پرورش ، پالن پوسن ،تعلیم و تربیت ،
مہربانی، عنایت کرنا کے معنوں میں استعمال ہوتاہے(۱۸) پرورش کے ساتھ کرنا
اور ہونا مصادر کا استعمال ہوتا ہے۔ دینا اردو مصدر سہی لیکن اس سے فارسی
اسلوب ترکیب پاگیا ہے ۔ اردو اسلوب کچھ یوں بنتا
غم آغوشِ بلا میں پرورش کر تاہے عاشق کی
اب غالب ؔ کا مصرع ملاحظہ ہو
غم آغوشِ بلا میں پرورش دیتاہے عاشق کو
مصرع اول الذکر اردو اسلو ب کا نمائندہ سہی لیکن منفرد ، خوبصورت اور فصیح
نہیں جبکہ مصرع ثانی الذکر فارسی اسلوب کا حامل ہے لیکن ہر سہ عناصر اپنے
دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اب غالب ؔ کا پور ا شعر پڑھیں شعر کے لسانی سیٹ اپ
میں مصدر دینا ہی مناسب اور خوبصور ت لگتاہے
غم آغوشِ بلا میں پرورش دیتاہے عاشق کو چراغِ روشن اپنا قلزم صرصر کا مرجاں
ہے
تشنہ آنا:
تشنہ آمدن ، تشنہ ہونا
مشتاق ہونا ، طالب ہونا، آرزو مند ہونا، خواہش مندہونا
لفظ تشنہ اردو کے لئے نیا نہیں ۔ اس کا مختلف حوالوں سے استعمال ہوتا آیا
ہے۔ مختلف نوع کے مرکبات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ مثلاً
تشنہ کا می / تشنہ کام
تیرا ہی حسن جگ میں ہر چند موج زن ہے تس پر بھی تشنہ کا مِ دیدار ہیں تو ہم
ہیں (۱۹) دردؔ
تشنہء خوں
دشمنِ جاں ہے تشنہ ء خوں ہے شوخ بانکہ ہے ،نکبت بھوں ہے (۲۰) آبروؔ
تشنہ لب
جوکہ مائل ہے تیغ ابرو کا تشنہ لب ہے وہ اپنے لوہو کا (۲۱) راقم ؔ
مختلف نوعیت کے محاورات بھی اردو زبان کے ذخیر ے میں داخل ہیں ۔ مثلاً
کچھ مدارات بھی اے خونِ جگر پیکاں کی تشنہ مرتا ہے کئی دن سے یہ مہماں تیرا
(۲۲) فغاں ؔ ( تشنہ مرنا)
بہت مخمور ہوں ساقی شراب ارغوانی دے
نہ رکھ تشنہ مجھے ، ساغر براہ مہربانی دے (۲۳) چنداؔ (تشنہ رکھنا تشنگی اور
بھی بھڑکتی گئی جوں جوں میں اپنے آنسوؤں کوپیا (۲۴) دردؔ ( تشنگی بھڑکنا)
تشنہ آنا بمعنی مشتا ق ہونا ، اردو میں مستعمل نہیں رہا ،۔ ترجمہ کی صورت
میں غالب ؔ نے ایک نیا محاورہ اردو زبان کو دیا ہے لیکن یہ محاور رواج نہیں
پاسکا
پھر مجھے دیدہ ء تریاد آیا دل جگر تشنہ ء فریاد آیا
تماشا کیجئے : تماشا کردن کا ترجمہ ہے بمعنی شوق وحیرت سے دیکھنا ، سیر
کرنا ، نمائش ا ور کھیلوں کو دیکھنا ، سبزہ پھلواری کو
دیکھنا وغیرہ کے لئے فارسی میں بولا جاتا ہے۔
تماشا کا بنیادی تعلق دیکھنے سے ہے جبکہ اردو میں کرتب ، مداری کاکھیل
وغیرہ کے لئے بو لا جاتا ہے۔ مثلاً
تماشاہونا:
ہنسی مذاق ، کرتب ،کھیل
جمع کرتے ہوکیوں رقیبوں کو اک تماشاہ ہوا گلانہ ہوا
تما شاہوجانا:
ہنسی ٹھٹھا مذاق بن جانا ، معاملہ الٹا ہونا
آئے تھے اس مجمع میں قصد کرے دور سے ہم تماشے کے لئے آپ ہی تماشا ہوگئے
(۲۵) دردؔ
تماشا کردن کا ترجمہ تماشا کربمعنی دیکھ ، ملاحظہ کربھی پڑھنے کو ملتا ہے
لب خندان گل کا شبنم آسا تماشا کر بہ چشمِ ترچلے ہم جہاں دادؔ
تماشا دیکھئے بمعنی ملاحظہ کیجئے
کیا آہ کے تیشے میں لگا تا ہوں جگر پر آؤ دیکھئے تما شا مرا، فرہاد کہاں
حاتم ؔ
سیر کھنچنا :
دیکھنا
کسی کو گلگشت چمن کا ہے دماغ اے باغبان کھینچ کر سیر اگربیان یاں لے آتی ہے
بہارسوداؔ
گویا کر دن کے لئے کئی اردومصادر تجویز ہوئے ہیں جبکہ تماشا کودیکھنے کے
علاوہ کھیل ،کرتب ، ہنسی مذاق وغیرہ کے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے۔ غالب ؔ
کے ہاں ’’تماشا کیجئے ‘‘ کاایک اور استعمال ملاحظہ فرمائیں
خانہ ء ویراں سازیِ حیرت تماشا کیجئے صورت نقشِ قدم ہوں رفتہء رفتارِ دوست
جاگرم کرنا:
جاگرم کردن ، ایک جگہ پر دیر تک بیٹھے رہنا ، مراقبہ ۔بیٹھنا ، ٹھکانہ کرنا
، پڑاؤ ڈالنا ، قیام کرنا ، اقامت اختیار کرنا ، مستقل طور پر کسی جگہ
بیٹھنا وغیرہ مفاہیم میں یہ محاورہ رواج نہیں رکھتا، غالبؔ نے کردن کو کرنا
میں بدل دیاہے۔ جا، جگہ اور کئی دوسروں معنوں میں مستعمل ہے۔ گرم بھی اردو
کے لئے نیا لفظ نہیں تاہم فارسی مفاہیم میں استعمال نہیں ہوتا۔غالبؔ کے ہاں
اس محاورے کا استعمال دیکھئے
کی اُس نے گرم سینہء اہلِ ہوس میں جا آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے
غالب نے دل میں سمانا ، محبت ہونا ، قلبی وابستگی ، عشق ، محبت وغیرہ
مفاہیم میں استعمال کیاہے۔
جبیں گھِسنا:
ماتھا رگڑنا ، کم مائیگی کا احساس
غالب نے دل میں سمانا، محبت ہونا ، قلبی وابستگی ، عشق ، محبت وغیرہ مفاہیم
میں استعمال کیاہے۔
اردو میں ماتھا رگڑنا بمعنی پیشانی گھِسنا ، عاجزی سے سجد ہ کرنا ، جبہ
سائی کرنا ، خوش آمد کرنا ، نہایت عاجزی کرنا (۲۶) استعمال میں آتا ہے۔ خاک
پر جبین گھِسنا اردو بو ل چال کے مطابق نہیں ہے۔ یہ ترجمہ بُرا نہیں چونکہ
اسلوب اردو سے میل نہیں رکھتا اسی لئے عوامیت کے درجے پر فائز نہیں ہوسکا۔
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے گھِستا ہے جبیں خا ک پہ دریا مرے آگے
حدیث کرنا:
حدیث کردن ، بیان کرنا
’’ کردن ‘‘ کے لئے اردو مصدر ’’ کرنا‘‘ استعمال میں لایا گیا ہے۔ حدیث کرنا
، عرفِ عام سے معذو ررہا ہے۔ عام طور پر بیان کرنا استعمال میں آتا ہے ۔
فارسی استعمال کا اپنا ہی حسن ہے
صہبا زروی تو باہر گل حدیثے کروا رقیب چوں رہ غماز دار در حرمت حافظؔ
صبا نے تیرے رخ سے ساتھ ہر ایک پھول کے بات کی
رقیب نے جب چغل خور کوراہ دی بیچ تیر ے مکان کے (۲۷)
غالبؔ کے ہاں اس محاورے کا ترجمہ ملاحظہ ہو
جبکہ میں کرتا ہوں اپنا شکوہء ضعفِ دماغ
سرکرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست
سرکرنا ،
زلف سر کرنا ، اردو محاورے نہیں ہیں ۔ حدیث سرکرنا بھی اردو بو ل چال سے
دور ہے۔ اردو محاورے میں سرانجام کرنا / ہونا مستعمل ہے۔ غالبؔ نے اردو کو
تین محاوروں سے نواز اہے۔
خوش آنا:
خوش آمدن ، اچھالگنا ، اچھا محسوس ہونا
خوش اطوار ( اچھی عادات کا حامل ) خوش الحان ( اچھی آواز والا) خوشامد (
چاپلوسی ) خوشبودار ( عمدہ خوشبوو الی چیز) ، خوش بخت ( اچھے نصیب والا)
وغیرہ فارسی مرکبات اردو زبان کے لئے نئے اور اجنبی نہیں ہیں ۔ خوش کے ساتھ
مصدر ’’ آنا ‘‘ کی بڑھوتی رواج عام سے محروم ہے۔ تاہم یہ محاورپڑھنے کو مل
جاتا ہے اور فصیح بھی ہے۔ لیکن عوامیت کے درجے پر فائز نہیں ۔ استعمال کی
صرف دومثالیں ملاحظہ ہوں
دل نہیں کھینچتا ہے بنِ مجنوں بیاباں کی طرف
خوش نہیں آتا نظر کرنا غزالاں کی طرف(۲۸) یقین ؔ
بس ہجوم گل سے اپنے کیا خوش آئی ہے بسنت
باغ میں گلرو کے آگے رنگ لائی ہے بسنت ( ۲۹)چنداؔ
اب غالب ؔ کے ہاں اس محاورے کا استعمال دیکھئیے
گلشن کو تری صحبت ازبسکہ خوش آئی ہے ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے
غالبؔ
خوش آنا کے سوا بھی ’’ خوش آمدن ‘‘ کے تراجم پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً
اب چھیڑیہ رکھی ہے کہ عاشق ہے توکہیں
القصہ خوش گزرتی ہے اس بدگمان سے (۳۰) میرؔ (خوش گزرنا)
تجھ سے کچھ دیکھا نہ ہم جز جفا پر وہ کیا کچھ ہے کہ جی بھا گیا(۳۱)دردؔ
(بھاجانا)
بہ فیض بیدلی نو میدیِ جاوید آساں ہے کشاکش کو ہمارا عقدہ ء مشکل پسند آیا
غالبؔ ( پسند آنا)
خوش آنا ،
اردو لغت میں بمعنی اچھالگنا ، پسند آنا ، مرغوب ہونا (۳۴) داخل ہے جبکہ
خوش گزرنا ، بھا جانا ، پسند آنا اردو بول چال سے خارج نہیں ہیں ۔ خوش آنا
، راس آنا کے معنوں میں بھی بولا جاتاہے۔ یہ ترجمہ فصیح خیال کیا جاتا ہے
اور اہل زبان کو خوش آتارہاہے۔
خجالب کھینچنا:
خجالت کشیدن / بُردن ۔ یہ محاور ہ فارسی میں شرمسار ہونا ، شرمندہ ہونا
(۳۳) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں خجالت ہونا ، خجالت اٹھانا
استعمال میں آتا ہے۔ غالبؔ کے ہاں یہ ترجمہ شرمندگی کے معنوں میں استعمال
ہواہے:
ڈالانہ بے کسی نے کسی سے معاملہ اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو
الہ وردی خاں جلیس ؔ بردار سعادت یار خاں رنگین ؔ کے ہاں بھی یہ محاورہ(
خجالت کشیدن ) برتاگیا ہے
تیرے دھن سے ازبسکہ کھینچے ہے اک خجالت
غنچہ وہ کون سا ہے جو سرفرو نہ آیا۳۴جلیسؔ
خط کھینچنا:
خط کشیدن فارسی میں چھوڑدینا ، ترک کردینا کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ خط
کھینچنا ، خط کشیدن ہی کا اردو ترجمہ ہے اور یہ ترجمہ اردو کے لئے اجنبی
نہیں ۔یہ اردو کے محاوراتی ذخیر ہ میں اپنی جگہ رکھتا ہے۔ لکیر کھینچنا ،
قلمزد کرنا ،نشان کرنے کے لئے لکیر کھینچنا (۳۵) لغوی معنی لئے ہوئے ہے۔
غالبؔ کے ہاں اس ترجمے کا استعمال ملاحظہ ہو
بے مے کسے ہے طاقتِ آشوب آگہی کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا
غالبؔ نے مفہوم میں اردو کی پیروی نہیں کی ۔ مفہوم فارسی ہی رہنے دیا ہے۔
خط کھینچنا :
محو کرنا ، مٹا دینا ، چھوڑ دینا ، (کا ) پابند نہ رہنا ، (کے) مطابق پابند
ی نہ کرنا
قلم کھینچنا بھی اس محاورے کاترجمہ سامنے آتاہے مثلاً
بخط ہند ہے قائم ؔ گویا مرا دیواں زبس کہ لکھ کے میں ہر بیت پر قلم کھینچنا
(۳۶) قائم ؔ
خمیازہ کھینچنا:
خمیازہ کشیدن کا اردو ترجمہ ہے خمیازہ کشیدن فارسی میں جمائی لینا ، رنج
اٹھانا ، پشمان ہونا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ غالب ؔ نے اس ترجمے کو
انگڑائی لینا کے معنوں میں استعمال کیاہے۔
اردو میں خمیازہ بھگتنا ، خمیازہ اٹھانا استعمال میںآتا ہے خمیازہ کھنچنا ،
اردو میں جمائی لینا کے معنوں میں مستعمل نہیں ۔ غالب ؔ کایہ ترجمہ ایسا
نیا نہیں۔ میر ؔ صاحب کے ہاں اس کا استعمال دیکھئے
اس میکدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن
خمیازہ کھینچتے ہیں ، ہر دم جماہتے ہیں (۳۸) میرؔ
ایک دوسری جگہ’’، خمیازہ کش‘‘بطور مرکب (فاعل) نظم کرتے ہیں
بندہِ قباکوخوباں جس وقت واکریں گے خمیازہ کش جوہوں گے ملنے کے ، کیا کریں
گے (۳۹)
دامن کھینچنا:
دامن کشیدن ، یہ محار ہ فارسی میں کنی کترانا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے
جبکہ دامن نہاون ، دامن بچھانا کے لئے استعمال میں آتا ہے۔ اردو میں کشیدن
کے لئے کھینچنا ، نہادن کے لئے بچھانا معاون افعال استعمال میں آتے ہیں ۔
غالبؔ نے دامان چھٹنا بمعنی بس میں نہ رہنا ، بردارشت کی حد ختم ہونا ، صبر
کا یارانہ رہنا ، مزید سہہ پانے کی ہمت نہ ہونا، مقدورسے باہر ہوناوغیرہ کے
مفاہیم میں استعمال کیاہے۔ اِ س محاورے کی روح میں نہ کر سکنا ، ہاتھ کھنیچ
لینا ( بہ امر مجبوری سہی) موجود ہے۔
سنبھلنے دے مجھ اے نااُمیدی کیا قیامت ہے کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے
ہے مجھ سے
مرزا سوداؔ نے دامن کھینچنا کو پکڑ لینا کے معنوں میں استعمال کیاہے
پیچھے سے تودامن کے تئیں خار نے کھینچنا اور سرد ہوکے لگا روکنے آتا (
سوداؔ )
قائم ؔ چاندپوری کے ہاں دامان کھینچنا نظم ہواہے
دامانِ جاں جو کھینچے ہے گرد اس زمیں کی یوں مقتل کی جاہے آہ یہ کس
خاکسارکی (۴۰) قائمؔ
میرؔ صاحب کے ہا ں مرکب ’’ دامن کشاں‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے
ہے غبارِ میر اس کی رہ گزر میں اک طرف کیا ہوا دامن کشاں آتے بھی یاں تک
یار کو (۴۱) میرؔ
دامن کشیدن / نہادن کی مختلف اشکال اورتراجم اردو زبان کے ذخیر ے کا حصہ
رہے ہیں ۔
دل دینا:
دل دادن کا غالب ؔ نے دل دینا ترجمہ کیا ہے
دل دیا جان کے کیوں اُ س کووفادار اسدؔ غلطی کی کہ جوکافر کو مسلماں
سمجھا
غالبؔ نے عاشق ہونا ، فریفتہ ہونا کے معنوں میں ’’ دل دینا ‘‘ کا استعمال
کیا ہے۔ فارسی میں ان ہی معنوں میں ’’دل باختن ‘‘ مستعمل ہے۔ دل گرفتہ ،
حواس باختہ ایسے مرکبات عام پڑھنے سننے کو ملتے ہیں ۔ غالبؔ کے ترجمہ میں
دل باختہ کی روح کا ر فرما نظر آتی ہے تاہم دادن کے لئے دینا مصدر استعمال
میں آتاہے۔ اگر دل گرفتہ مانوس نہیں تو دل باختہ میں کیا کمی ہے ۔ بہر طور
غالبؔ کے ہاں ایک اور مثال ملاحظہ ہو
دینا نہ اگردل تمہیں لیتا کوئی دم چین اور کرتا جونہ مرتا کوئی دن آہ وفغاں
اور
دل دینے کے سبب بے چینی ملی ۔بے چینی ، فریفتگی کے باعث ممکن ہے۔ گویاجانا
، اڑنا کی بجائے ’’ دینا‘‘ مصد ر استعمال میں لایا گیا ہے۔ ان ہی مفاہیم
میں ’’ دل دینا ‘‘ کاقائم ؔ کے ہاں استعمال دیکھئے
دل نہ دینا ہی خوب تھا پر حیف ! ہم نے یہ سوچ پیش تر نہ کیا (۴۲) قائم ؔ
ایک دوسری جگہ ’’ دل گنوانا ‘‘ نظم کرتے ہیں ۔دال گنوانا کے مفاہیم بھی
تقریباً وہی مفاہیم ہیں
دل گنوانا تھا اس طرح قائم؟ ؔ کیا کیا تونے ہائے خانہ خراب (۴۳) قائم ؔ
آفتاب ؔ کے ہاں ’’ دل جانا ‘‘ برتاگیا ہے
گھر غیر کے جو یار مر ارات سے گیا جی سینے سے نکل گیا ، دل سے گیا (۴۴)
آفتابؔ
خواجہ دردؔ ’’ دل جھکنا ‘‘استعمال میں لائے ہیں
جھکتا نہیں ہمارا دل تو کسی طرف یاں جی میں بھر ا ہواہے از بس غرور تیر ا
(۴۵) دردؔ
ان محاور وں میں عشق میں مبتلا ہونا ، فریفتگی وغیرہ ایسے عناصر پائے جاتے
ہیں ۔ یہ دل دادن / باختن سے جڑے ہوئے ہیں ۔
دل کرنا: دل کردن کا ترجمہ ہے ۔ کسی چیز کی تمنایا خواہش ہونا
دل باندھنا:
دل باندھنا ، دل بستن کا اردو ترجمہ ہے۔ غالب ؔ کے ہاں اس ترجمے کا استعمال
ملاحظہ فرمائیں
برنگِ کا غذِآتش زدہ نیر نگِ بے تابی ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال یک تپیدن
پر
غالبؔ سے پہلے قائمؔ چاندپوری ’’ دل باندھنا ‘‘ ترجمہ کرچکے ہیں ۔ فرق اتنا
ہے کہ غالب ؔ کے شعر میں باندھنا استعمال میں آیا ہے اور پر کے سوا تما م
الفاظ فارسی کے ہیں ۔معنی ہمت اور کاہش وکاوش لئے گئے ہیں ۔ قائم ؔ نے
برداشت ، صبر کے معنوں میں یہ ترجمہ نظم کیاہے۔
دل کو کیا باندھے ہے گلزارِ جہاں سے بلبل حسن اِس باغ کا اک روز خزاں ہووے
گا( ۴۶)قائمؔ
دل باندھنا ، قائم ؔ کے شعرمیں دل لگانا، محبت میں گرفتار ہونا ، فریفتہ
ہونا ، تعلق استوار ہونا / کرنا معنی لئے ہوئے ہے۔ یہ محاورہ اردو لغت
کا،بطور محاورہ بمعنی دل کو مائل کر لینا (۴۷) حصہ ہے۔’’جی چاہنا‘‘ بھی ان
مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں۔
’’ طبیعت آنا‘‘ بمعنی توجہ ، مائل ہونا ، رجوع کرنا بھی اسی قماش کا محاورہ
موجود ہے
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
اِس محاورے کے لئے رجوع کردن ، رجعت کردن محاورے موجود ہیں لیکن یہ محاورہ
مفہومی او ر استعمالی حوالہ سے دل باندھنا کے زیادہ قریب لگتاہے۔
رنج کھینچنا:
یہ محاورہ ’’ رنج کشیدن ‘‘ سے ہے مشقت ، مصیبت ، دکھ ، آزار ، غم کے معنوں
میں استعمال ہوتاہے۔ اردو میں ’’ رنج اٹھانا ‘‘ کے مترادف خیال کیا جاتا
ہے۔ غالب ؔ کے ہاں اس محاورے کا استعمال ملاحظہ ہوں
رنجِ رہ کیوں کھینچے واما ندگیِ کوعشق ہے اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل
میں ہے
اس فارسی محاورے کے اور تراجم بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔مثلاً
لاتے ہووقتِ نزع تشریف کا ہے کو
اتنی بھی اب کھینچے تکلیف کا ہے کو(۴۸) بیاں ؔ
تکلیف کھینچنا:
زحمت اٹھانا/کرنا ، دکھ اٹھانا ، طنز اً تکلف کرنا ، کیا ضرورت زحمت کرنے
کی
کہاں ہے مرگ کہ جو ں شمع دے مجھے تسکیں
بہت میں داغِ محبت سے یاں الم کھینچا (۴۹) قائم ؔ
الم کھینچنا:
صعوبت اٹھانا ، دکھ برداشت کرنا
پورن سنگھ پورن ؔ خجل ہونا ، بمعنی خراب ہونا ، پریشان ہونا باندھتے ہیں۔
پیچ وخم کاکل میں مت جائیوں دل شب کو اس راہ میں تو چل کر ہوئے نہ خجل شب
کو (۵۰) پورن ؔ کاتیہ
ٍ میر حسین تسکین ؔ نے آزار کھینچنا نظم کیاہے
تیغِ نگاہِ یار اُچٹتی لگی تھی پر برسوں گذر گئے مجھے آزاد کھینچے (۵۱)
تسکین ؔ
غالب ؔ سے پہلے میرؔ صاحب ’’ رنج کھینچنا ‘‘ نظم کر چکے ہیں
رنج کھینچے تھے ، داغ کھائے تھے دل نے صد مے بڑے اٹھائے تھے (۵۲) میرؔ
چنداؔ کے ہاں اذیت کھینچنا استعمال میں آیا ہے
کوئی کھینچے لئے جاتا ہے تن سے روح کیا کیجئے اذیت کھینچے ہیں یار کیا کیا
تیری یاری میں (۵۳) چنداؔ
مجموعی طور پر تکلیف کھینچنا ، الم کھینچنا ، خجل ہونا ، آزار کھینچنا ،
اذیت کھینچناوغیرہ ’’رنج کھینچنا‘‘ کے کھاتے میں جاتے ہیں ۔
روا رکھنا:
روا بودن بمعنی جائز ہونا ، شایستہ ہونا ، رواداشتن بمعنی حلا ل یا جائز
سمجھنا ، دونوں محاورے فارسی میں رواج عام رکھتے ہیں ۔ اردو میں داشتن کے
لئے رکھنا مصدر استعمال کیا جاتاہے۔ یہ محاورہ ( روا رکھنا ) استعمال میں
آتا رہتاہے۔ روادار ، رواداری ایسے مرکبات بھی عام بولے جاتے ہیں ۔ غالب ؔ
کے ہاں اس محاورے کااستعمال دیکھئے
روا رکھونہ رکھو تھا لفظ تکیہ کلام اب اس کو کہتے ہیں اہل سخن سخن تکیہ
روا رکھنا:
جائز سمجھنا ، مناسب خیال کرنا ، ضروری سمجھنا ، اہمیت سمجھنا
میرؔ صاحب اور قائم ؔ چاند پوری نے بھی یہ محاورہ استعمال کیا ہے گویا
غالبؔ کے ہاں پہلی بار ترجمہ سامنے نہیں آیا
جیتے ہیں جب تلک ہم آنکھیں بھی لڑتیاں ہیں
دیکھیں تو جور خوباں کب تک روا رکھیں گے (۵۴) میرؔ
جائز سمجھتے ہیں ، (یہ وتیرہ کب تک ) اختیار کئے رکھتے ہیں
روا رکھوں نہ کہ ہووے ملک بھی پاس ترے
کیا ہے بس کہ محبت نے بدگماں مجھ کو ( ۵۵) قائم ؔ
خاطر میں لانا ، حیثیت اور وقعت سمجھنا ، اہمیت ، قدرو قیمت ہونا
رخصت دینا:
فارسی محاورہ ’’ رخصت داشتن ‘‘ کا اردوترجمہ ہے۔ غالب ؔ نے رخصت دینا کو
فارسی مفہوم کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔ اردو میں رخصت دینا ، اجازت دینا ،
چھٹی دینا (۵۶) کے معنوں میں برتا جاتاہے۔ غالب ؔ کے ہاں ’’ رخصت دینا‘‘ کا
استعمال ملاحظہ ہو
رخصتِ نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم تیرے چہرے سے ہو ظاہر غم پنہاں میر ا
قائمؔ چاند پوری کے ہاں بھی یہ ترجمہ استعمال میں آیا ہے
کیا گلہ شومئی طالع سے کہ بلبل کے تئیں جن نے دی رخصتِ گلگشت ہمیں دام
دیا(۵۷) قائمؔ
اب رفعتؔ ، شاگرد حضرت صبہائی کے ہا ں اس محاورے کا استعمال دیکھئے
بہ ذوقِ ناز کودے رخصتِ جفا کہ یہاں
ہمیں بھی عزم ہے طاقت کے آزمانے کا (۵۸) رفعتؔ
زندگی گذرنا:
زندگانی /زندگی کردن بمعنی زندگی بسرکرنا فارسی میں عام استعمال کا محاورہ
ہے۔ اُردو میں زندگی کاٹنا ، زندگی بسرکرنا ، زندگانی /زندگی کردن کے معنوں
میں بولے جاتے ہیں اور فصیح سمجھے جاتے ہیں ۔ زندگی ہونا ، زندگی مکمل ہونے
کے لئے پڑھنے سننے میں آتا ہے۔عوامی حلقوں میں زندگی بسر کرنا کے لئے بو
لاجاتا ہے۔ یہ محاورہ اردو میں فارسی کے حوالہ سے ترکیب و تشکیل پائے ہیں۔
غالبؔ کے ہاں اس کا استعمال کچھ یوں ہواہے
یوں زندگی بھی گذرہی جاتی کیوں تراراہ گزر یا د آیا
کرنا اور کٹنا مصادر کے ساتھ اِ س محاورے کا غالب ؔ سے پہلے ترجمہ نظر
آتاہے
کر زندگی اِ س طور سے اے درد ؔ جہاں میں خاطر پہ کسو شخص کے تو بار نہ ہووے
(۵۹) دردؔ
زندگی کرنا بمعنی زندگی بسرکرنا
جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی زندگی آپ ہی آپ کٹتی ہے (۶۰) دردؔ
زندگی کٹنا بمعنی زندگی بسر ہونا
خواجہ صاحب نے ایک جگہ زیست کرنا استعمال کیا ہے لیکن تفہیم ’’ ہوچکا ‘‘ لی
ہے۔ گئے کی جگہ ’’ ہیں ‘‘ نظم کرتے تو بات ماضی سے حال میں آجاتی ہے عامل
کاحذف کلاسیکی دور میں روا رہاہے
تھاعالمِ جبر کیا بتائیں کس طور سے زیست کرگئے ہم (۶۱) دردؔ
میر حسین تسکین ؔ شاگرد امام بخش صہبائی ، شاہ نصیراور مومن ؔ ، زندگی
ہوونا کوزندگی بسر ہونا کے معنوں میں استعمال کیاہے
زندگی ہووے گی کس طور سے یار ب اپنی دم میں سو بار اگر یوں وہ خفا ہووے
گا(۶۲) تسکینؔ
قائم ؔ چاندپوری کے ہاں عمر گذرنا ، زندگی کردن کے ترجمہ کی صورت میں
محاورہ استعمال میں آیا ہے
گذاری اک عمر گرچہ قفس میں ہمیں ،پہ ہے جی میں وہی ہوائے گل و گلستان ھنوز
(۶۳) قائمؔ
میر ؔ صاحب نے عمر جانا کو زندگی کردن کے مترادف کے طور پر نظم کیا ہے
تما م عمر گئی اُ س پہ ہاتھ رکھتے ہمیں وہ درد ناک علی الرّ غم بے قرار رہا
(۶۴) میر ؔ
غالب ؔ کے ہاں عمر کٹنا محاورہ بھی پڑھنے کوملتاہے
بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں طاقتِ بقدرِ لذت آزار بھی نہیں
قائم ؔ چاند پوری نے ( بمعنی گذرنا ) عمر کٹنا کا استعمال کیاہے
سرتہِ بال کٹی عمر مری ، بلبل کو قابلِ سیر مگریہ گل وگلزار نہ تھا (۶۵)
قائم ؔ
شاہ مبارک آبروؔ نے زندگانی کاٹنا بمعنی زندگی کردن ، برتاہے
زندگانی تو ہر طرح کاٹی مرکے پھر جیونا قیامت ہے(۶۶) آبروؔ
زخم کھانا:
زخم خوردن فارسی میں زخمی ہونا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اردو میں یہ
محاورہ زخمی ہونا ، مجروع ہونا ، صدمہ اٹھانا (۶۷) کے معنوں میں استعمال
ہوتا چلا آتا ہے۔ یہ محاور ہ فارسی سے اُردو میں وارد ہواہے۔ خوردن کا اردو
مترادف مصدر ’’کھانا ‘‘ہے۔ غالب ؔ کے ہاں اِ س محاورے کا استعمال ملاحظہ ہو
عشرتِ پارہ ء دل زخم تمنا کھانا عیدنظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
خواجہ حیدر علی آتشؔ نے صدمہ کھینچنا بمعنی زخم خوردن برتا ہے
کیااثر ہومری آہوں سے بتوں کے دل میں صدمہ کھینچے نہ رگِ سنگ کبھی نشتر کا
(۶۸) آتشؔ
میرؔ صاحب کے ہاں زخم جھیلنا اور داغ کھانا بھی استعمال میں آئے ہیں
زخموں پہ زخم جھیلے داغوں پہ داغ کھائے یک قطرہ خون دلِ نے کیا کیا ستم
اٹھائے (۶۹) میرؔ
ساغر کھینچنا:
ساغر کشیدن ، شراب کے پیالے کو دور کردینا ، شراب پینا ۔ساغرکھینچ ، ساغر
کشیدن کا اردو ترجمہ ہے ۔ شراب یعنی مقصد ، بقول غلام رسول مہر
’’مقصود کے میسّر ہونے پر کامل یقین رکھنا ، دامنِ آرزو کبھی نہیں چھوڑنا
چاہیے‘‘ (۷۰)
غالب ؔ نے ساغر کشیدن کا ترجمہ ساغر کھینچ کیاہے
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ
سفرہ کھینچ:
سفرہ کشیدن کا ترجمہ ’’سفرہ کھینچ‘‘ کیا گیا ہے۔ دسترخوان پر کباب کھینچنا
یا کباب رکھنا فصیح نہیں ہے۔ کباب رکھنا یا فلاں ڈش رکھنا پڑھنے سننے میں
آتا ہے تاہم کھینچ یا رکھنا کی بجائے ’’ چننا ‘‘ امداد ی فعل زیادہ جاندار
اور فصیح ہے۔ غالب ؔ کا یہ ترجمہ متاثر نہیں کرتا۔ شاید اس لئے رواج نہیں
پاسکا
مرے قدح میں ہے صہبائے آتش پنہاں بروئے سفرہ کباب دلِ سمند ر کھینچ
سرگرم کرنا:
سرگرم کردن کی اردو شکل غالب کے ہاں ’’سرگرم کرنا‘‘ ہے۔اردو میں سرگرمی
معروف ہے۔ غالبؔ کے ہاں اکسانے کے معنوں میں سرگرم کرنا استعمال میں آیا
ہے۔ غلام رسول مہر آمادہ کرنا کے معنوں میں لے رہے ہیں ۔ (۷۱) سر گرم کرنا
، اردو میں رواج نہیں رکھتا ۔ تیارکرنا، آمادہ کرنا ، جوش دلانا ، قائل
کرنا وغیرہ ایسے محاورے ، ضرورت کے مطابق استعمال میں آتے رہتے ہیں
غالبؔ کے ہاں سرگرم کرنا کا استعمال ملاحظہ ہو
دلِ نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالبؔ نہ کر سرگرم اُ س کافر کو الفت
آزمانے میں
شام کا صبح کرنا:
شام راسحر کردن کا ترجمہ ہے یعنی انتظا رکرنا ، وقت گذار نا ، وقت کا ٹنا ،
رات گزارنا ، غالب ؔ کایہ ترجمہ بُرا نہیں لیکن عوامیت کی سند حاصل کرنے
میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ غالبؔ کے ہاں اِ س کا استعمال دیکھئے
کاوکا وِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کالانا ہے جوئے شیر کا
خواجہ دردؔ کا یہ شعر دیکھیں ’’ شام راسحر کردن‘‘ کی بازگشت سنائی دیتی ہے
اے ہجر کوئی شب نہیں جس کو سحر نہیں پر صبح ہوتی ہے آج تو آتی نظر نہیں
(۷۲)
آفتاب ؔ کا یہ شعر پڑھیں اِ س میں اس محاور ے کی بو بوس محسوس ہوتی ہے
کون سی شام کو ترے غم میں آہ رُو رُ و کے میں سحر نہ کیا(۷۳) آفتابؔ
طرف ہونا: طرف شدن کاترجمہ ہے خلاف ہونا ، منہ لگنا ، مقابل آنا ۔ میرؔ
صاحب کے ہاں اس کا استعمال دیکھئے
طرف ہونا مرامشکل ہے میرؔ اِ س شعر کے فن میں
یوں ہی سوداکھبو ہوتاہے سو جاہل ہے کیا جانے (۷۴) میرؔ
اب غالب ؔ کے ہاں اس ترجمے کا استعمال دیکھئے رنداں در میکدہ گستاخ ہیں
زاہد ز نہار نہ ہونا طرف اِن بے ادبوں سے
فریب کھانا:
فریب خوردن کاترجمہ ہے ۔ دھوکہ کھانا ،جال میں پھنسنا ، غالب ؔ نے خوردن
کاترجمہ ’’ کھائیو‘‘ کیاہے ۔ ئیو ، پنجابی لاحقہ ہے ۔ ہریانی ، دکنی
،راجھستانی ، گوجری وغیرہ میں بھی یہ لاحقہ استعمال میں آتا ہے۔ کھائیو ،
کھانا کی فعلی شکل نہیں ہے۔ غالبؔ کے ہاں اس محاورے کا استعمال ملاحظہ ہو
ہاں کھائیومت فریبِ ہستی ہر چند کہیں کہ ’’ ہے‘‘ نہیں ہے
نواب عباس علی خاں بیتاب ؔ نے ’’ کھا‘‘ استعمال کیاہے
آخر فریب کھا کے اُ س نے مجھ کو قتل کیا
میں نے کہاتھا تم سے اٹھائیں گے مرکے ہاتھ (۷۵) بتیابؔ
گفتار میں آونا:
گفتار آمدن ، فارسی میں بولنے لگے ، گفتگو کرنا کرنا شروع کر دے ، کے معنوں
میں برتا جاتاہے۔ ولی ؔ دکنی نے گفتار ، کرنا (ں) بمعنی بات چیت استعمال
کیا ہے
سہیلیاں جب تلک مجھ سوں نہ بولیں گے ولیؔ آکر
مجھے تب لگ کسی سوں بات ہور گفتار کرنا ں کیا(۷۶) ولیؔ
غالب ؔ نے گفتار میں آوے بمعنی بولنا شروع کر دے ،نظم کیا ہے
اس چشم فسوں گرکا اگر پائے اشارہ طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے
پنجابی اسلوب ولہجے کے سبب یہ محاورہ اردو میں پھل نہیں سکا ۔
مرغوب آنا:
مرغوب آمدن ؛ جس طرف راغب ہو، جو اچھالگے ، جو پسند یدہ ہو ، خوش آنا ،
مرغوب ہونا ، جو من کو بھا جائے
ادائیں ابھائے ، پسندیدہ
مرغوب آنا ، اردو میں معروف نہیں ہوسکا۔ غالب ؔ کا شعر دیکھئے ۔ آیا کے سوا
پورا شعر فارسی میں ہے
شمار سجہ مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا تماشائے بیک کف بردن صددل پسند آیا
منت کھینچنا:
منت کشیدن ؛ کسی کا زیر بار احسان ہونا
منت کھینچنا، کہلوانا ، احسان مند ہونا، احسان اٹھانا ، درخواست کرنا ،کسی
دوسرے کی سفارش کروانا
غیرکی منت نہ کھینچوں گا پے توقیر داد زخم مثلِ خندہء قاتل ہے سرتا پا نمک
(غالبؔ )
آفتابؔ نے ’’ منت اوٹھانا ‘‘ برتاہے
طالع بید ار کی منت اوٹھانے بھی نہ دی اس سے شب ہم کوتمنا خواب میں لائی
ملا (۷۷) آفتابؔ
میر قاقر علی جعفری نے ؔ ’’منت کھینچ ‘‘ باند ھا ہے
بے سروپا چمن ودشت میں عالم کے نہ پھر نازہر گل نہ اٹھا ، منت ہر خارنہ
کھینچ (۷۸) جعفریؔ
مے کھینچنا:
مے کشیدن، فارسی میں شراب کشید کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ جبکہ
شراب پینے کے لئے ’’ مے کشی ‘‘ استعمال میں آتاہے ۔اردو میں ’’ مے کشی ‘‘
مستعمل ہے۔ شرابی کے لئے ’’مے کش ‘‘ بولتے ہیں۔ مے کشی کے لئے ’’مے کھینچنا
‘‘ نہیں بولتے ،خمار کھینچنا ‘‘ استعمال میں آتا ہے۔ شاہ مبارک آبروؔ ’’چرس
کھینچنا ‘‘ برتا ہے۔ کھینچنا سے’’پینا‘‘ مرادلیتے ہیں
مرے شوخِ خراباتی کی کیفیت نہ کچھ پوچھ
بہارِ حسن کو دے آب جب اُن نے چرس کھینچا (۷۹) آبروؔ
غالب ؔ کا شعر ملاحظہ کریں
صحبتِ رنداں سے واجب ہے حذر جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیے
غلام رسول مہر ’’ مے کھینچنا ‘‘ کی شرح میں رقمطراز ہیں
’’ کھینچنا ‘‘ پیچھے ہٹنا، پر ہیز کرنا ، بچنا ، مے کے ساتھ کھینچنا میکشی
کاترجمہ ہے ۔ جس کا مطلب شراب پینا ہے‘‘ (۸۰)
نا زکھینچنا:
ناز کشیدن ،کسی کا ناز ونخرااٹھانا / برداشت کرنا ۔اردو محاورے میں ناز
اٹھانا کو فصیح خیال کیا جاتاہے۔ تاہم ’’ناز کھینچنا بھی مستعمل
رہاہے۔مثلاً
پروانہ رات شمع سے کہتا تھا رازِ عشق مجھ ناتواں نے کیا کیا اٹھایا ہے نازِ
عشق (۸۱) سوداؔ
میر ؔ صاحب کے ہاں ’’ناز کھینچنا ‘‘ نظم ہواہے
جینا مراتو تجھ کو غنیمت ہے ناسمجھ! کھینچے گا کون پھر یہ ترے ناز میر ے
بعد(۸۲) میرؔ
یہاں کھینچنا کواٹھانا کے مترادف استعمال میں لایا گیا ہے۔ غالبؔ کے ہاں اس
ترجمے کا کچھ اس طرح سے استعمال ہواہے
وہ دن بھی ہو کہ اس ستمگر سے ناز کھینچوں بجائے حسرتِ نا ز
شعر کے حوالہ سے ناز اٹھا نا بنتا ہے۔’’ اس ستمگر کے ناز اٹھاؤ ں‘‘میں مزا
اور ذائقہ ہی نہیں۔
نالہ کھینچنا:
نالہ کشیدن ، رونا دھونا ، گریہ وزاری کرنا ، فغاں کرنا ۔ نالہ کھینچنا ،
اردو بول چال سے لگا نہیں رکھتا جبکہ مترادف محاورے آہ بھرنا ، آہ کرنا ،
فغاں کرنا ، آہ کھینچنا ، فریا د کرنا ، نالہ کرنا وغیرہ استعمال میں رہتے
ہیں ۔ دوتین مثالیں ملاحظہ ہوں
دوری میں کروں نالہ وفریا دکہاں تک اک بار تو اُس شوخ سے یار ب ! ہو ملاقات
(۸۳) میرؔ
ٹکڑے کب غم نے یہ جگر نہ کیا نہ کیانالہ ہم نے پر نہ کیا (۸۴) قائم ؔ
دیتا نہ اگردل تمہیں لیتا کوئی دم چین اور کرتا جو نہ مرتا کوئی دن آہ
وفغاں اور (غالبؔ )
نالہ کش اور نالہ کشی کا میر ؔ صاحب کے ہاں استعمال ہواہے
تجھ بنِ شکیب کب تک بے فائدہ ہوں نالاں مجھ نالہ کش کے تواے فریاد رس کدھر
ہے(۸۵) میرؔ
کرنالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں فریاد کریں کس سے ، کہاں جاکے پکاریں (۸۶)
میرؔ
غالبؔ کے ہاں ’’نالہ کھینچنا ‘‘ کااستعمال دیکھئے
شوق کویہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائے دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا
جائے ہے
نقش کھینچنا:
نقش کشیدن ، نقش بستن ، دونوں فارسی کے معروف محاورے ہیں۔ صورت بنانا ،
خیال باندھنا ، تصویر بنانا ، تصور کرنا وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتے
ہیں ۔ ان فارسی محاوروں کے اردو تراجم پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔مثلاً
طراز کلکِ قضا او ربھی توہیں مشہور پہ تجھ سا صفحہء ہستی پہ نقش کم
کھینچا(۸۷) قائم ؔ
نقاش نے قاتل کی جو تصویر کو کھینچا ابرو کی جگہ پرد م شمشیر کو کھینچا
(۸۸)
بنایا یار کی صورت کو وہ نقاشِ قدرت نے کچھے نقشہ نہ ایسا مانی وبہزاد سے
ہرگز (۸۹) چنداؔ
غالبؔ نے ’’ نقش کھینچنا ‘‘ بمعنی تصویر بنانا نظم کیاہے۔
نقش کو اُس کے مصور پر بھی کیاکیا ناز ہیں کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی
کھینچا جائے ہے
نفس کھینچنا:
نفس کشیدن ، سانس لینا ، وقت گزارنا ، زندگی بسرکرنا ، جس حالت میں ہوں
اُسی میں رہنا اور اس سے باہر نہیں آنا چاہیے غالبؔ سے پہلے یہ محاورہ ارود
میں ترجمہ ہوچکاہے
کھینچا نہ میں چمن میں آرام یک نفس کا صیادتیری گردن ہے خون اس ہوس کا (
۹۰) سوداؔ
نفس بھی کھینچتے اب جی مرا دھٹرکتا ہے مبادا آتشِ دل شعلہ پھر بلندے کرے
(۹۱) مصحفی ؔ
نہ موے ہم اسیری میں تو نسیم کوئی دن اور باؤ کھائیے گا(۹۲) میرؔ
اب غالبؔ کے ہاں استعمال دیکھئے
نفس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ
نموکرنا:
نمود کردن ، بالیدگی پیداکرنا ، پھلنا پھولنا ، بڑھنا ۔اردو میں نمو کے
ساتھ ’’کرنا ‘‘ امدادی فعل استعمال میں نہیں آتا ۔ فارسی میں بھی کوئی
ایسالفظ نہیں جس کا آخیر متحرک یا مشدد کہ فارسی میں عربی کے ایسے الفاظ کو
ساکن الاخرکر لیا جاتاہے۔ غالبؔ نے فارسی کی تقلید میں نمو کردن کے لئے
’’نموکرنا ‘‘ محاورہ بنالیاہے
دیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتاہے خود بخود پہنچے ہے گل گوشہ ء دستار کے
پاس
ہوش اُڑنا:
ہوش از سررفتن ، ہوش اڑجانا ، ششد ررہ جانا ، مبہوت ہونا (۹۳) ہو ش
اڑنابمعنی حواس باختہ ہونا ، گھبرا جانا ، عقل ٹھکانے نہ رہنا ، حیرت میں
آجانا (۹۴)غالبؔ نے آپے میں نہ رہنا کے معنوں میں اس ترجمے کا استعمال
کیاہے:
ہوش اڑتے ہیں مرے جلو ہ ء گل دیکھ اسدؔ پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب
بدھ سنگھ قلندرؔ کے اس شعر میں ’’ ہوش اڑنا ‘‘ کی روح گار فرما ہے
مجھ کو کیا مے جنو ں نے آکردی ساری عقل وخرد ہواکردی (۹۵) قلندرؔ
عقل و خرد ہواکرنا/ ہونا ، ہو ش اڑنا کے ہی مترادف ہے یہ محاورہ فصیح ہے
لیکن رواجِ عام نہیں رکھتا۔
حواشی
۱۔ فرہنگ فارسی ، ڈاکٹر محمد عبد الطیف، ص ۳ ۲۔ فیروز اللغات ، مولوی فروز
الدین، ص۳
۳۔ فرہنگ فارسی، ص ۵ ۴۔ فیروز اللغات ،ص ۲۴
۵۔ نوائے فروش ، غلام رسول مہر، ص۴۵۹ ۶۔ فرہنگ فارسی ،ص ۳۰
۷۔ تذکرہ مخزنِ نکات ، قائم چاندپوری، ص۳۴
۸۔ تذکرہ مخزنِ نکات، ص ۱۳۴ ۹۔ کلیات میر ج ا، میر تقی میر،ؔ ص ۳۵۵
۱۰۔ دیوان درد،خواجہ دردؔ ، ص۲۳۵ ۱۱۔ دیوان زادہ ،شیخ ظہور الدین حاتم ،ص
۱۷۸
۱۲۔ فیروز اللغات ،ص ۱۶۸ ۱۳۔ نوائے سروش،غلام رسول مہر ، ص ۵۴۵
۱۴۔ کلیاتِ قائم ج ا، قائم چاندپوری ، ص ۲۰ ۱۵۔ نوائے سروش ،ص۷۷
۱۶۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب، شاداں بلگرامی ، ص
۱۷۔ نوائے سروش، ص ۲۴۳ ۱۸۔ فیروز اللغات ،ص ۲۹۲
۱۹۔ دیوانِ درد،خواجہ درد ، ص ۱۷۰ ۲۰۔ تذکرہ مخزن نکات، ص ۱۵۸
۲۱۔ تذکرہ مخزن نکات، ص۱۵۰ ۲۲۔ تذکرہ مخزن نکات، ص۴۱
۲۳۔ دیوان مہ لقابائی چندا،ص ۹۴۴ ۲۴۔ دیوان درد، ص ۱۴۱
۲۵۔ دیوان درد ،ص ۲۲۳ ۲۶۔ فیروز اللغات، ص ۱۱۸۰
۲۷۔ شرح دیوان حافظ ج ۲،عبداللہ عسکری ، ص۹۹ ۲۸۔ تذکرہ مخزن نکات، ص۱۳۷
۲۹۔ دیوان مہ لقابائی چنداؔ ،مہ لقا بائی چندا،ص ۱۰۲ ۳۰۔ کلیات میرج ا، ص
۵۶۱
۳۱۔ دیوان درد،ص ۱۲۹ ۳۲۔ فیروز اللغات، ص ۶۰۰
۳۳۔ فرہنگ فارسی،ڈاکٹر عبدالطیف ،ص۳۲۳ ۳۴۔ تذکرہ گلستانِ سخن ج ا، مرزا
قادر بخش صابر،ص ۳۷۶
۳۵۔ فیروز اللغات ،ص ۵۹۲ ۳۶۔ کلیاتِ قائم ج ا، ص ۲۴
۳۷۔ فیروز اللغات، ص ۵۹۶ ۳۸۔ کلیاتِ میر ج ا،ص۳۰۳
۳۹۔ کلیاتِ میر ج ا،ص ۴۸۵ ۴۰۔ کلیاتِ قائم ج ا،ص ۲۶۷
۴۱۔ کلیات میرج ا ،ص ۳۹۰ ۴۲۔ کلیاتِ قائم ج ا،ص ۹
۴۳۔ کلیاتِ قائم ،ص ۵۷ ۴۴۔ شاہ عالم ثانی آفتابؔ احوال وادبی خدمات،ڈاکٹر
خاور جمیل، ص ۱۹۰
۴۵۔ دیوانِ درد،ص ۱۱۶ ۴۶۔ کلیاتِ قائم ج ا، ص ۴۳
۴۷۔ فیروز اللغات ،ص ۳۴ ۴۸۔ تذکرہ مخزنِ نکات، ص ۱۲۹
۴۹۔ کلیاتِ قائم ج ا، ص ۲۴ ۵۰۔ تذکرہ گلستانِ سخن ج ا از مرزا قادر بخش
دہلوی ،ص ۳۲۴
۵۱۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا، ص ۳۴۰ ۵۲۔ کلیات میر ج ا ،ص ۴۶۷
۵۳۔ دیوان مہ لقابائی چندا،ص ۱۳۴ ۵۴۔ کلیاتِ میر ج ۱،ص ۴۶۷
۵۵۔ کلیاتِ قائم ج ا ،ص ۱۷۱ ۵۶۔ فیروز اللغات ،ص ۷۰۷
۵۷۔ کلیات قائم ج ا، ص۳۸ ۵۸۔ تذکرہ گلستانِ سخن ج ا، ص ۵۰۵
۵۹۔ دیوان درد ،ص ۲۱۵ ۶۰۔ دیوان در د، ص ۲۳۲
۶۱۔ دیوان درد، ص ۱۵۸ ۶۲۔ تذکرہ گلستانِ سخن ج ا،ص ۳۳۹
۶۳۔ کلیات قائم ج ا ،ص ۸۴ ۶۴۔ کلیات میر ج ا ،ص ۵۰۶
۶۵۔ کلیات قائم ج ا، ص ۲۲ ۶۶۔ تذکرہ مخزنِ نکات ،ص ۴۲
۶۷۔ فیروز اللغات، ص ۴۴۲ ۶۸۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا،ص ۲۲۱
۶۹۔ کلیات میر ج ا،ص ۵۰۶ ۷۰۔ نوائے سروش، ص ۱۹۴
۷۱۔ نوائے سروش ،ص ۳۵۲ ۷۲۔ دیوانِ درد، ص ۱۷۸
۷۳۔ شاہ عالم ثانی آفتاب احوال و ادبی خدمات ، ڈاکٹر محمد جمیل خاور ،ص ۱۹۰
۷۴۔ کلیات میر ج ا، ص ۵۴۳ ۷۵۔ تذکرہ گلستان ،سخن ج ا،ص ۳۱۱
۷۶۔ کلیات ولی ،ص۱۱۱ ۷۷۔ شاہ عالم ثانی آفتاب احوال و ادبی خدمات، ص ۱۸۶
۷۸۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا،ص ۳۷۴ ۷۹۔ تذکرہ مخزنِ نکات، ص ۳۵
۸۰۔ نوائے سروش، ص ۶۱۳ ۸۱۔ کلیات سوداج ا، ص ۸۶
۸۲۔ کلیاتِ میر ج ا، ص ۲۲۷ ۸۳۔ کلیات میر ج ا،ص ۲۱۵
۸۴۔ کلیاتِ قائم ج ا،ص ۸ ۸۵۔ کلیاتِ میرج ا،ص ۴۹۸
۸۶۔ کلیات میر ج ا ،ص ۳۴۸ ۸۷۔ کلیاتِ قائم ج ا، ص ۲۴
۸۸۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا ،ص ۲۵۹ ۸۹۔ دیوان مہ لقا بائی چندا،ص ۱۹۹
۹۰۔ کلیات سودا، ص ۱۱ ۹۱۔ کلیات مصحفی ج ا، ص ۵۳۵
۹۲۔ کلیاتِ میرج ا ،ص ۱۷۴ ۹۳۔ فرہنگ فارسی ،ص ۱۰۱۳
۹۴۔ فیروز اللغات، ص ۱۴۵۶ ۹۵۔ تذکرہ مخزن نکات، ص ۱۲۵ |