غالب کے ہاں بدیسی الفاظ کو اردو انے کے چند اصول

ہمارے ہاں لفظ پر کہ وہ فلاں زبان کا ہے ،کی مہر ثبت کرنے کا بڑا عام رواج ہے۔ لغت نگاروں نے بھی الفاظ کے معنی درج کرنے سے پہلے ،لفظ کی زبان کے تعین کو فرض عین سمجھا ہے۔ لاریب فیہ زبانیں، دوسری زبانوں اور بولیوں کے الفاظ کو اپنے ذخیرہ الفاظ میں داخل کرتی ہیں اور یہ ایسی کوئی نئی بات نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ الفاظ اپنی اصل زبان کے اصولوں معنوں اور کلچر کے مطابق داخل ہوتے ہیں یا انھیں نئی زبان کے اصولوں ، معنوں اور کلچر کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اگر نئی زبان میں ،اصل زبان کے حوالوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے تو ان کا پہلی زبان سے کیونکر رشتہ استوار کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالہ سے انھیں قبول کرنے والی زبان کے الفاظ ہی ماننا زیادہ مناسب ہوگا۔ عربی، احوال ، اوقات اسامی اور حور کو واحد اور اُردو کے حوالہ سے بولے، لکھے ، سنے اور اُردو مفاہیم کے ساتھ سمجھے جانے الفاظ ،درحقیقت اُردو ہی کے ہیں۔اردو نے بدیسی زبابوں کے الفاظ کو اپناکر نے کے لئے بہت سے اصول اختیار کئے ہیں ۔مثلاً
ا۔ انھیں اردو کا مزاج ، رویہ اور سلیقہ عطا کیاہے
ب۔ استعمال میں اُردوقواعد کو مدّنظر رکھا گیا ہے
ج۔ دیسی سابقوں اور لاحقوں کی مدد سے ان کا روپ ہی بدل دیا گیا ہے
د۔ اُردو کلچر کے زیر اثران سے معنی اخذ کئے گئے ہیں
ہ۔ جملے میں ترتیب اُردو نحوکے مطابق دی گئی ہے
و۔ لہجہ یا تلفظ ہی بدل دیا ہے
غالبؔ کا فکری و لسانی رشتہ جہاں اُردو کے ماضی سے جڑا ہوا ہے وہاں وہ اردو کے جدید اور جدید ترین حوالوں کے ساتھ بھی منسلک ہے ۔اگلے صفحات میں غالبؔ کے ہاں بدیسی الفاظ کو اردو نے کے چند اصولوں کے حوالہ سے لفظیات غالب کا متنی ساختیات کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے:
* بدیسی الفاظ کی جمع بنانے کے لئے دیسی اصولوں کا استعمال ‘اُردو میں بہت پہلے سے مستعمل چلا آتا ہے۔’’اں‘‘کا لاحقہ پنجابی سے اُردو میں داخل ہوا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
فقیر سے فقیراں (فقرا)
دل رتا اس دنی سیوں رنی نہ کتے کم مثل فقیراں کا گھڑی سوپایئے پورکرم (بابا فرید)
وکیل سے وکیلاں (وکلا)
رات اندھیری‘بدل کنیاں ‘باجھ وکیلاں مشکل بنیاں (شاہ حسین)
کتاب سے کتاباں(کتب)‘عذاب سے عذاباں
کیوں پڑھنائیں گڈکتاباں دی
سر چاہیں پنڈ عذاباں دی (بلّھے شاہ قصوری)
۵۸
مذہب سے مذہباں (مذاہب)
وچ چوھاں مذھباں گاون تھیا ہے حرام
جانے جے حلال کو کافر بجہ مدام (مولوی عبدالکریم جھنگوی)
جمع بنانے کا یہ اصول مقامی بولیوں میں بھی رواج رکھتا ہے۔ اس ضمن میں چند مثالیں دیکھئے:
گوجری : شعر سے شعراں(اشعار)
جے مناں ملنو چاہے تاں توں میرا نغمہ پڑھیا کر
اک جھلک دکھاؤں شعراں ماں ہوں پہانویں سارونہیہ دستو
(صابر آفاقی)
پوٹھوہاری ۔ مصیبت مصیبتاں(مصائب) باز سے بازاں
لک پتلا سرومثال تیرا جیویں وچہ چمن دے ڈالیاں نیں (بردا پشوری)
برو آکھلا سندر مہربازاں عاشق مصیبتاں جالیاں نیں
برصغیر کی تمام ولائتوں کی اُردو میں’’اں‘‘ کالا حقہ جمع بنانے کے لئے بدیسی الفاظ کے ساتھ بلا تکلیف مستعمل رہا ہے۔ مثلاً
دکن: رقیب سے رقیباں ، صنعت سے صنعتاں
جب اس کی طرف جاتا ہوں کر قصد تماشا کہتا ہے مجھے خوف رقیباں سوں کہ جا جا (ولیؔ دکنی)
یودکھائی رات جو خوبی سوں تیءں سن دیکھتے یوں صنعتاں خوش حال ہوئی میری نظر
(سلطان علی عادل شاہیؔ )
سندھ: عاشق سے عاشقاں (عشاق) ‘ہزار سے ہزاراں (ہزارہا)
کیوں نظر تجھ چاند مکھ پر عاشقاں کی پر سکے زلف کے خط کی گھٹا نے ہر طرف باندھا ہے کوٹ (میر محمود صابرؔ )
آشفتگاں ہزاراں قربان سر کریں گے سچلؔ غیر مسکین درگاہ کا گدا ہے (سچلؔ سر مست)
میسور: غزل سے غزالاں
غزالاں تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی دوانا مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری (راجہ رام نرائن موزوںؔ )
امروہہ: بہشت سے بہشتاں‘حور سے حوراں (حور پہلے ہی جمع ہے)
اوسی وقت بھیجا خدا پاک نے بہشتاں تے ریحال منے (عبداللہ واعظ)
دلی: شوخی سے شوخیاں، محبوبی سے محبوبیاں، تاجدار سے تاجداں
صورتوں میں خوب ہوں گی شیخ گو حور بہشت پر کہاں یہ شوخیاں ‘ یہ طور‘ یہ محبوبیاں (خواجہ دردؔ )
نہیں تجھ کو چشم عبرت یہ نمود میں ملے ورنہ کہ گئے ہیں خاک میں ملی کئی تجھ سے تاجدواں (میر تقی میرؔ )
مرزا غالبؔ نے بھی بدیسی الفاظ کی جمع بنانے کے لئے یہی اصول اختیار کیا ہے۔ بطور نمونہ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
آغوش سے آغوشاں(آغوش ہا)
یہ ہنگام تصور سا غیر زانو سے پیتاں ہوں مئے کیفیت خمیازہ ہائے صبح آغوشاں
۵۹
قاتل سے قاتلاں
نسان تیغ نازک قاتلاں سنگ جراحت ملے دل گرم تپش قاصد ہے پیغام تسلی کا
بدیسی الفاظ کے ساتھ جمع بنانے کے لئے دیسی لاحقہ ’’یں‘‘ جوڑنے کا برصغیر کے تمام علاقوں میں‘خصوصاً اُردو کے حوالہ سے عام رواج ہے ۔اس ضمن میں چند مثالیں بطور نمونہ ملاخطہ ہوں:
دلی تدبیر سے تدبیریں
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوانے کام کیا دیکھا اِ س بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا (میر تقی میرؔ )
ذات سے ذلتیں
کر کے قائم ؔ اُس بتِ کافرسے تونے اختلاط آپ ہی یہ ذلتیں کھینچیں ،ہمارا کیا کیا (قائمؔ چاندپوری)
کلکتہ حور سے حوریں
جنت میں بھلا کہاں ہیں ایسی حوریں فردوس کہاں اور کلکتہ کہاں (عبدالغفور نساخ)
لکھنؤ صف سے صفیں
موڑ دیں صفیں اک آن میں اے مصحفیؔ اس صفِ مژگاں نے اپنا جس طرف کو رُوکیا (مصحفیؔ )
غالبؔ نے بھی اِس دیسی لاحقے کے پیوند سے بہت سے بدیسی الفاظ کی جمع بنائی ہے:
نگاہ سے نگاہیں، آہ سے آہیں ،سپاہ سے سپاہیں
جو مرد مک چشم میں ہوں جمع نگاہیں خوابیدۂ حسرت کدۂ داغ ہیں آہیں
کس دل پہ ہے عزم صفِ مژگاں خود آرا آئینے کے پایاب سے اتری ہیں سپاہیں
بلبل سے بلبلیں
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں
حور سے حوریں
ان پری زادوں سے لیں گے خلدمیں ہم انتقام قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہوگئیں
دیسی الفاظ کے ساتھ ’’وں‘‘ کے پیوند سے جمع بنانے کا اصول بر صغیر کی تمام ولائتوں میں مستعمل چلا آتا ہے۔
* بدیسی الفاظ کے ساتھ اِس سابقے کی جڑت سے اردو میں جمع بنائی جاتی رہی ہے۔ مثلاً
بخت سے بختوں
خواب میں دیکھا جو تیرے سبزۂ خط کوں صنم سب بختوں میں ہوا اِس خواب کی تعبیر سوں (ولیؔ دکنی )
ایاغ سے ایاغوں
ابھی تو بزم میں آئے تیرے اے ساقی کوئی دنوں تو مزہ لینے دے ایاغوں کا (مرزا سوداؔ )
بہشت سے بہشتوں
کر خیرات آخر کوں آوے گی کام بہشتوں منے جا، کرے گا مقام (اسماعیل امروہوی)
۶۰
عاشق سے عاشقوں
سر کی نہ کر تمناگر رہ عشق پوچھی یہ قتل عاشقوں کا الفت میں ہی روا ہے (سچلؔ سرمست)
غالبؔ بھی بدیسی الفاظ کی جمع بنانے کے لئے ’’وں‘‘ کے لاحقے کو کام میں لاتے ہیں۔ مثلاً
احمق سے احمقوں
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار کیا پوجتاہوں اُس بتِ بیداد گر کو میں
اسیر سے اسیروں
آج کیوں پرواہ نہیں اپنے اسیروں کی تجھے
کل تلک تیر اہی دل مہر و وفا کا باب تھا
طبعیت سے طبعیتوں
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے ہم بارے طبعتوں کے تو چالاک ہوگئے
طبع سے طبعوں
سخن تاریک طبعوں کا ، اظہارِ کثافت ہا
کہ زنگِ خامۂ فولاد، مانا سے سیاہی ہے
* بدیسی لفظ کا آخری حرف’’ہ‘‘ کی بڑھوتی سے جمع بنانے کا اصول اُردو میں عرصہ قدیم سے مستعمل چلا آتا ہے۔ مثلاً
فرشتہ سے فرشتوں
بولے وے خدیجہ نہ ڈر یوتمن قبیلا فرشتوں کی موھیں ھمن (اسماعیلؔ امروہوی)
گناہ سے گناہوں
حساب کاہے کا روز شمار میں مجھ سے شمار ہی نہیں ہے کچھ گناہوں کا (میر تقی میر ؔ )
غالب ؔ نے بھی اِس اصول کی پیروی کی ہے۔ مثلاً
فتنہ سے فتنوں
وہ آئیں گے مرے گھر وعدہ کیسا دیکھنا غالبؔ نئے فتنوں میں اب چرخ کہن کی آزمائش ہے
آبلہ سے آبلوں

ؔ نہیں گرداب جز سر گشتگی ہائے طلب جوشی
حباب بحر کے ہے
آبلوں میں ہے خارماہی کا
* کسی بدیسی اسم کو اردو انے کے لئے اس کے آخری حرف ا یا ہ کو حرف رابطہ آجانے کی صورت میں گراکر’’ے‘‘بڑھادیتے ہیں اور یہ اصول برصغیر کے تمام علاقوں میں یکساں طور پر مستعمل چلا آتا ہے۔ چند مثالیں دیکھئے :
مصلہ سے مصلّے
بخاراں کی غفلت میں فرصت ہوئی نمازوں کو ں بی بی مصلّے گئی (اسماعیلؔ امروہوی)
نشہ سے نشے
کوچہ ترا‘نشے کی یہ شدّت، جہاں سے لاگ اللہ ہی نبا ہے میاں آج گھر تلک (قائمؔ چاند پوری)
واسطہ سے واسطے
۶۱
ہوئے جناب میں اب تک نہ تیرے ہم گستاخ خط کے واسطے ہم سے نہ ہو صنم گستاخ (مہ لقابائی چنداؔ )
ویرانہ سے ویرانے
غزالاں تم تو واقف ہو،کہو مجنوں کے مرنے کی دوانا مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری (راجہ رام نرائن موزوںؔ )
غالبؔ کے ہاں بھی یہی اصول بدیسی الفاظ کو اُردو انے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ مثلاً
اشارہ سے اشارے
پر سشِ طرز دلبری کیجئے کیا کہ بن کہے اس کے ہراک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں
پردہ سے پردے
تھیں بنات انعش گردوں دن کو پردے میں نہاں شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئیں
تیشہ سے تیشے
تیشے بغیر مر نہ سکا کو ہکن اسدؔ سرگشتۂ خمار رسوم وقیود تھا
* غالبؔ نے بدیسی الفاظ کو اردوانے کے لئے اور بہت سے حربے استعمال کئے ہیں ۔ چند مثالیں بطور نمونہ درج کررہا ہوں:
*بدیسی الفاظ کے ساتھ کوئی دیسی سابقہ بڑھادیتے ہیں۔ مثلاً
بِن صدا
دل ہی تو ہے سیاست درباں سے ڈر گیا میں اور جاؤں در سے ترے بِن صداکئے
* بدیسی سابقے لاحقے اُردوانے کے لئے ان کے ساتھ دیسی الفاظ جوڑ دیتے ہیں

مسی آلودہ۔ مِسی : ہندی اسم مونث۔ ایک قسم کا منجن جسے عورتیں بطور سنگار استعمال کرتی ہیں ۔طوائفوں کی اصطلاح میں ایک تقریب شادی ۔
فارسی صفت، تانبے کا بنا ہوا۔ اِس شعر میں لفظ ہندی مفہوم کے ساتھ وارد ہوا ہے۔
مسی آلودہ سر انگشت حسیناں لکھیے داغ طرف جگر عاشق شیدا کہیے
*بدیسی الفاظ کے ساتھ اُردو ایا گیا لاحقہ پیوند کر کے ۔مثلاً
صنم پرستوں جرعہ خواروں
تمیں کہو کہ گزارہ صنم پرستوں کا بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیونکر ہو
جان نثاروں میں تیرے قیصرِ روم جرعہ خواروں میں تیرے مرشدِ جام
* بدیسی الفاظ کے ساتھ دیسی ضمائر جوڑ کر بدیسی الفاظ کو اُردو الیاگیاہے ۔ مثلاً
اپنا سا
آئینہ دیکھ اپنا سامنہ لے کے رہ گئے صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
تیرا آشنا
شکوہ سنج رشکِ ہمد گرنہ رہنا چاہئے میرا زانو مونس اورآئینہ تیرا آشنا
۶۲
تجھ سا
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشاکہیں جِسے ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ ساکہیں جِسے
* اُردو میں بہت سے ایسے مرکبا ت تشکیل پائے ہیں جن کے حوالہ سے بدیسی الفاظ اپنے مفاہیم اور نحوی ترتیب کے اعتبار سے بدیسی نہیں رہے۔ مرزا غالبؔ نے بھی اس سہولت سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ اِس ضمن میں بطور نمونہ چند مثالیں درج کر رہا ہوں ۔ ان مثالوں میں اسم اشارہ دیسی جبکہ مشارً الیہ بدیسی ہیں:
یہ شیرازہ
نظر میں ہے ہماری جادۂ راہِ فنا غالبؔ کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجرائے پریشاں کا
یہ خُو
صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خُو دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کئے
یہ رشک
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے
وہ نشنیدن
میں اور صد ہزار نوائے جگر خراش تو اور ایک وہ نشنیدن کہ کیا کہوں
وہ فراق، وہ وصال
وہ فراق، وہ وصال کہاں وہ شب وروزو ماہ و سال کہاں
وہ مجلس
شب کو وہ مجلس فروز خلوتِ ناموس تھا رشتۂ ہر شمع خار کسوتِ فانوس تھا
اِس چراغاں
دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار اس چراغاں کا کروں کیا کار فرما جل گیا
اِس رہ گزر
دل تا جگر کہ سیل دریائے خوں ہے اب اِس رہگزر میں جلو ۂ گل آگے گرد تھا
اُس شوخ
ہم تھے مرنے کو کھڑے پاس نہ آیا نہ سہی آخر اُس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا
اُس دشت
شوق اُس دشت میں دوڑا ئے ہے مجھ کو کہ جہاں جادو غیر ازنگہ دیدۂ تصویر نہیں
* اُردو کے حروف ملا کر بدیسی الفاظ کی اجنبیت ختم کرنے کا کام لیا جاتارہا ہے۔ اس طرح بدیسی الفاظ اپنی نحوی ترتیب اور مفاہیم کے حوالہ سے غیر اردو الفاظ نہیں رہتے بلکہ اُردو زبان کے ذخیرہ الفاظ میں داخل ہوجاتے ہیں۔مثلاً

* حروف شرط
اگر استوار
تری نازکی سے جانا کہ باندھا تھا عہدِ بودا کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
اگر شرار
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
اگر در کعبہ
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم الٹے پھر آئے اگر در کعبہ وانہ ہوا
جو کافر
دل دیا جان کے کیوں اُس کو وفادار اسدؔ غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا
جو رختِ خواب
فروغِ حسن سے روشن ہے خوابگاہ تمام جو رختِ خواب ہے پروین تو پرن تکیہ
* حروفِ تاکید
خاک بھی
میخانۂ جگر میں یہاں خاک بھی نہیں خمیازہ کھینچے ہے بت بیداد فن ہنوز
نخچیر بھی
تو مجھے بھول گیا ہو تو پتہ بتلا دوں کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا
جادہ بھی
ذرّہ زمیں نہیں بے کار باغ کا یہاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا
* مرکباتِ عطفی میں معطوف اورمعطوف الیہ بدیسی جبکہ حرفِ عطف دیسی کا استعمال کر کے بد یسی الفاظ کو اُردوالیا گیا ہے۔ مثلاً
معنی کا طلسم
گنجیۂ معنی کا طلسم اِس کو سمجھئے جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
مے اور صبحدم
رات پی زمزم پہ مے اور صبحدم دھوئے دھبے جامۂ احرام کے
پندار کا صنم کدہ
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
عشق کے تیماردار
لوہم مریضِ عشق کے تیمار دار ہیں اچھا اگر نہ ہوتا مسیحا کا کیا علاج

وکٹوریہ کا دہر
وکٹوریہ کا دہر میں جو مدح خواں ہو شاہانِ عرصہ چاہئے لیں عزت اس وام
* معطوف بدیسی معطوف الیہ اُردو ایا ہوا تہ مثلاً
عزونازیاں
واں وہ غرورِ عزونازیاں یہ حجاب پاسِ وضع راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں
طبیعتوں کے تو چالاک
رسوائے دہرگو ہوئے آوارگی سے ہم بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
اس شعر میں معطوف اُردو یا جبکہ معطوف الیہ بدیسی ہے۔
* غالبؔ کے ہاں انگریزی اور عربی الفاظ کی جڑت سے بھی مرکبِ تو ضیعی ترکیب پایا ہے۔ ملاحظہ ہو:
جم رتبہ منگوڈ بہادر
جم رتبہ منگوڈ بہادر کہ وقت رزم ترکِ فلک کے ہاتھ سے وہ چھین لیں حسام
* دیسی اور بدیسی الفاظ کے حوالہ سے کچھ مزید مرکباتِ تو صیغی ملاحظہ ہوں:
ْْلپٹا ہوابستر (صفت دیسی)
درپہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا جتنے عرصے میں مرا لپٹاہوا بستر کھلا
روغنی روٹی (صفت بدیسی)
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضورِ والا نے مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی روغنی روٹی
* مرکباتِ جاری ۔مجر ور بدیسی جبکہ حرفِ جار دیسی:
در پر
جب گھر بنالیا تر ے در پر کہے بغیر جائے گا اب بھی تُو نہ مرا گھر کہے بغیر
خُلد میں
تسکین کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے حورانِ خلدمیں تری صورت مگر ملے
عجز سے
عجز سے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خُو ہوگا نبضِ خس سے تپشِ شعلۂ سوزاں سمجھا
شوق کو
گلا ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جاکا گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
عدم تک
دہانِ ہر بت پیغارہ جو ز نجیرِ رسوائی عدم تک بے وفا چر چا ہے تیری بے وفائی کا
* مرکبات عددی
۶۵
ہزاروں خواہشیں (دونوں اُردوانے ہوئے)
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
کس قدر
دشمنی نے میری کھویا غیر کو کس قدر دشمن ہے دیکھا چاہیے
* بدیسی الفاظ کو اُردو انے کے لئے اُردو والوں نے بہت سے حربے اختیار کئے ہیں اُن کے اِن تجربات نے ہی تو
اُردوزبان کو وسعتِ اظہار بخشی ہے ۔یہاں صرف چند مثالیں درج کی گئی ہیں ورنہ تفصیلات کے لئے تو دفترکے دفتر درکار ہوں گے۔


 
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.