جیسے حکمراں ویسے باشندے

باجی اﷲ کے نام پہ کچھ دے دو ،دو دن سے کچھ نہیں کھایا․․․․․․مجھے ابھی بس اسٹاپ پہ کھڑے ہوئے بمشکل دو ہی منٹ ہوئے تھے کہ ایک آٹھ سالہ بچہ خستہ حال اور میلے حلیئے میں اتنی سخت سردی کے باوجود ننگِ پاوئں کھڑا میرے آگے ہاتھ پھیلایا ہوا تھا ۔ یہ منظر میرے یا کسی بھی شہری کیلئے یقینا نیا نہیں تقریباََ روز ہی ہمارے روزوشب میں یہ مناظر عام ہیں ،اور اب تومجھ جیسے تمام ہی شہری اس کے عادی ہوچکے ہیں پچھلے زمانے میں گداگری کو بطور پیشہ نہیں لیاجاتا تھا بلکہ لوگ بھیک مانگنے کو معیوب سمجھتے تھے ،مگر فی زمانہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ ڈھٹائی کے ساتھ انتہائی فنکارانہ صلاحیت سے اس لعنت کو بطور پیشہ اپنا رہے ہیں اور بھیک مانگنے کے نت نئے انداز میں اپنی بھرپور صلاحیت سرف کرتے ہیں ۔پورے پورے خاندان بلکہ بستیوں کی بستیاں اس کام پر معمور ہیں اور یہ صرف بھیک پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ چھوٹی موٹی چوریاں کرنے میں بھی گریز سے کام نہیں لیتے بچے سے لے کر بڑے تک اس کام میں ملوث پائے جاتے ہیں ، یہاں میں پورے ملک کی بات نہیں کرتی صرف کراچی شہر کو ہی لے لیجئے آبادی کا تقریباََ 40%حصہ تو انہی پر مختص ہوتا ہے اور تو اور نوجوان خواتین و حضرات جنکے اعضائے بدن بھی بالکل سلامت ہوتے ہیں نیز اُنکی دماغی حالت بھی بالکل نارمل ہونے کے باوجود جھوٹ پر جھوٹ کا سہارا لے کر سڑکوں ،بسوں ویگنوں اور گلی محلوں میں نئی نئی کہانیاں سنا کر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اور ماہِ رمضان میں تو خصوصی طور پر پورے ملک کے مختلف مقامات سے بزریعہ ٹرین اہتمام کے ساتھ صرف اسی مقصد کیلئے آتے ہیں ،کیونکہ بقول اُن کے یہ اُنکے سیزن کا مہینہ ہوتا ہے اپنے اپنے علاقے بانٹ لیتے ہیں اور باقاعدہ منظم طور پر گداگری کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کے کچھ اپاہج جو مکمل طور پر ہاتھ پیروں سے مفلوج ہوتے ہیں جو بنا کسی سہارے کے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کر سکتے صبح ہی صبح اہم شاہراوئں ،بس اسٹاپ اور دیگر مخصوص مقامات پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو اس طرح یوں کون بٹھا کر جاتا ہے تو ثابت یہ ہوا کہ باقاعدہ انکی تنطیمیں اس ضمن میں کام کرتی ہیں اس میں ان معصوم بچوں یا معذوروں کا قصور نہیں ہوتا بلکہ انکے کرتا دھرتا ان کو اس کام پر معمور کر کے بھتہ وصول کرتے ہیں باقاعدہ طور پر اسمیں ایک مافیہ ملوث ہوتی ہے۔

یہاں یہ سب بتانے کا مقصد صرف آپکو یہ بتانا نہیں تھا کہ گداگری باقاعدہ طور پر پیشے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے یہ تو ہم اور آپ سب ہی بخوبی طور پر جانتے ہیں کہ ہمارے روز وشب میں اِن کا ہم سے ٹکراؤ اب معمول کی بات اختیار کر گیا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم عام شہری ان سب باتوں سے بخوبی آگاہ ہیں تو ہمارے حکمراں اس بات کا سنجیدگی سے نوٹس کیوں نہیں لیتے ؟اس مافیہ کو ملک سے روکنے کیلئے کوئی عملی سدباب آخر کیوں نہیں کرتے؟․․․آئے روز یہ دھندہ آخر کیوں اتنی تیزی کے ساتھ فروغ پا رہا ہے ؟تو جناب اسکے پسِ پردہ بھی بہت سے راز ہیں جنکو یہاں پر تفصیل سے بتانا ممکن نہیں۔

ہاں مگر ایک قصہ بتانا میں ضروری سمجھتی ہوں کہ جسکو پڑھنے کے بعد ہر باشعور شخص ازخود بات کی تہہ کو بخوبی سمجھ جائیگا ،اور وہ یہ بھی جان جائے گا کہ اس قصے کو یہاں بیان کرنا کیوں ضروری تھا،یہ قصہ تھوڑا مختصر مگر انتہائی دلچسپ ہے ،ہوتا یوں ہے کہ ملک شام کے ایک سوداگر کوملکوں ملکوں سیاحت کرنے کا بہت شوق تھا ، اُسکو جب فراغت ملتی وہ اپنے ایک قریبی دوست کے ہمراہ سیاحت کی غرض سے نکل پڑتا دوست کو ساتھ رکھنے کی وجہ اُسکی ذہانت اور فراست تھی ایک بار انہوں نے تین مختلف ممالک کی سیاحت کا پروگرام بنایا ،مقرر کئے گئے دن کے مطابق اپنا سفر شروع کیا طے کئے گئے پہلے ملک میں جب پہنچے تو رات ہو چکی تھی انہوں نے وہاں کی ایک سرائے میں قیام کیا جب صبح وہاں سے روانہ ہوئے تو راستے میں اُنکو علم ہوا کہ انکا بہت سا قیمتی سامان غائب ہے افسوس کرتے پھر وہ اُس ملک کے مختلف مقامات کی سیر کرتے رہے غرض اُس ملک میں بہت سی جگہوں پہ اُنکو اسی طرح کے نقصانات کا سامنا رہا ،جب اس ملک کی سیاحت مکمل ہو چکی تو انہوں نے دوسرے ملک کا رُخ اختیار کیا اس ملک میں دورانِ سفر جو اِنکو گائیڈ ملا وہ پیشے سے تو گائیڈ ہی دکھتا تھا مگر وہ درحقیقت ایک ٹھگ تھا ،اور اس جیسے نجانے اور کتنے ٹھگ وہاں مختلف بھیس میں مختلف مقامات پر گھومتے پائے گئے دوراں ِ سفر اُسکی بہت سی باتوں سے ہیرا پھیری ظاہر ہوئی یہ سب باتیں اُس سوداگر کا دوست نہایت باریک بینی سے نا محسوس طریقے سے جائیزہ لے رہا تھا ہر ملک کے باشندے اُنکے طور طریقے اُنکا ہر انداز سوداگر اور اُسکا دوست نوٹ کرتے تھے ۔یہاں سے فارغ ہونے کے بعد اب اُنکا رخ اپنے پلان کئے گئے تیسرے اور آخری ملک کی طرف تھا ۔وہاں جب وہ داخل ہوئے تو انکو اندازہ ہوا کہ یہاں کے لوگ کافی مہمان نواز پُر خلوص اور دیانت دار لوگ ہیں کچھ مانگتے بھی نہیں اور اگر کچھ اپنی خوشی سے نزرانے کے طور پر دینا چاہوتب بھی منع کر دیتے نہایت خودار تھے ،اور وہاں کی بودوباش سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ ملک کافی خوشحال اور ترقیافتہ بھی ہے کافی عرصہ وہاں قیام کے بعد وہاں کی خوشگوار یادیں لئے وآپسی کا سفر اختیار کیا ۔

سوداگر جب بھی وآپس آتا تھا تو اپنے سب با زوق دوستوں کی دعوت کرتا تھا پھر وہ اپنی سیاحت کے تمام وقعات اور اپنے تجربات اُن سے shareکرتا تھا اس بار بھی ایس ہی ہوا ایک دوست نے پوچھا آپ نے تینوں ملکوں کی سیاحت میں کیا فرق محسوس کیا زرا اِنکا موازنہ تو کر کے بتائیے ،سوداگر نے اپنے اُسی زہین دوست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپکی بات کا جواب یہ دیں گے ۔دوست نے اشارہ پا کر کہنا شروع کیا کہ جب ہم نے پہلے ملک میں سیاحت کی تو وہاں کے باشندوں میں ایک عجب قسم کی خصلت عام تھی کی وہ لوگ چوری کرنے میں بہت ماہر تھے ، اُنکی اس عادت سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوا کہ یہاں کا فرمانرواں بھی یقیناََ چور ہی ہے جبھی تو ساری عوام اِسی کھیل میں ملوث ہے جب ہم دوسرے ملک گئے تو وہاں کے لوگ زیادہ تر ٹھگ نکلے جسکو دیکھو جھوٹ ہیراپھیری ،ملاوٹ اور دھوکہ دہی میں ایک دوسرے پہ سبقت رکھتا تھا تو ہم سمجھ گئے کہ ہو نا ہو یہاں کا بادشاہ بھی یقیناََ اسی خصلت کا ہوگا جبھی ساری رعایا اس کام میں بہت ماہر ہے ۔سب لوگ نہایت دلچسپی سے یہ تمام واقعات سن رہے تھے جبکہ سوداگر اپنے دوست کی زورو شور سے تائید کر رہا تھا ،کسی نے تجسس میں اُس دوست سے پوچھا حضرت آپ نے تیسرے ملک کا نہیں بتایا وہاں کے لوگ․․․اُس دوست نے اُسکی بات مکمل ہونے سے پہلے بتانا شروع کر دیا تیسے ملک میں سیاحت کے دوران ہمیں اندازہ ہوا کہ وہاں کے باشندوں میں مہمان نوازی کا عنصر بہت غالب تھا اور باقی دونوں ممالک کے مقابلے میں یہاں کے لوگوں کی عادتیں اُن سے برعکس تھیں سب ہی بہت عزت دے رہے تھے اپنی خدمات پیش کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر کرنا چاہتے تھے نہایت خودداراور اعلیٰ صفات کے مالک تھے اُن کے بودوباش سے اُنکی خوشحالی اور ملک کی ترقی کا انداذہ بخوبی ہوتا تھا اس با سے ہم جان گئے کہ یقیناََ یہاں کا حکمراں نہایت غیرت مند ،ذہین اور سوج بوج والا ہے جبھی وہاں کی رعایا میں یہ اوصاف کوٹ کوٹ کے بھرے ہیں۔

اب آپکو اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا کہ میرایہاں یہ قصہ بیان کرنے کا کیا مقصد ہے ۔کسی دانا نے کہا ہے نا کہ اگر اوپر جمع شدہ پانی گندہ ہوگا تو پرنالے سے بہہ کے نیچے آنے والا پانی بھی نجس اور گندہ ہی ہوگا تو میرا بھی یہ سب بتانے کا مقصد یہی ہے کہ جس ملک وقوم کے حکمراں چور ہوں،غیرتمند نا ہوں جھوٹ کو ڈپلومیسی کا نام دیں تمام قسم کے جرائم میں ملوث ہوں اور ڈھٹائی سے اُس پر کاربند بھی ہوں تو اس قوم کے لوگ وہاں کی معاشرت بھی ظاہر ہے ویسی ہی ہوگی ۔آپ دیکھیں نا کہ ہمارے ملک میں قدرتی آفات کی آڑ میں ،دہشت گردی کے خاتمے ،تعلیمی یا ملک کے دیگر ترقیاتی کاموں اور نجکاری کے نام پر ہمارے حکمراں اپنے اڑوس پڑوس کے ممالک تو شامل ہیں ہی باقی ممالک سے بھی چندے کے نام پر بھیک مانگنے پہنچ جاتے ہیں اور جب بھی دیگر ممالک سے امداد پہنچتی ہے تو اُسکو اُسکے اصل مقصد کے بجائے اپنے ذاتی مفادات پہ خرچ کر نے کے بعد پھر سے نیا کشکول نئی کہانی کے ساتھ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیںIMFسے ملک کی ترقی و خوشحالی کے ضمن میں قرضہ مانگ کے نجانے کن خوشحالیوں کی نظر کر دیتے ہیں اور قوم بے چاری پھر سے خالی دامن اور خالی ہاتھ پھیلائے آسمان کی جانب سے کسی غیبی امداد کو منتظر نگاہوں سے گھورتی رہ جاتی ہے۔یہ تکلیف عوام کو صرف موجودہ قیادت سے ہی نہیں بلکہ پاکستان جب سے وجود میں آیا ہے تب سے اب تک تمام پاکستانی کسی ایسی قیادت کے منتظر ہیں جو حقیقتاََ باغیرت ،باعمل، خوددار ، باہمت اور ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی کی دل سے خواہاں ہو جسکے جزبے میں قوتِ ایمانی کے ساتھ ساتھ قومی مفاد اول درجے میں شامل ہو اور وہ حب الوطنی کے جزبے سے سرشار ہومگر افسوس ہمیں اب تک کوئی ایسی قیادت میسر نہیں آئی ہے ۔

آپ خود ہی غور کرلیجئے کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ ،چوری ، دھوکہ دہی ، دہشت گردی، مفاد پرستی ،گداگری اور کرپشن سمیت نجانے کتنے جرائم ناسور بن کے نا صرف پل رہے ہیں بلکہ انتہائی دلجمعی کے ساتھ اُنکی آبیاری بھی کی جا رہی ہے ۔ہمارے معاشرے میں تب تک کوئی سدھار ممکن نہیں جب تک کہ ہمارے حکمرانوں میں اس قسم کے پوائزن سرایت رہینگے جسکے قصور وار ہم اورآپ سب ہیں ہم بھی خود سے نہیں چاہتے کہ ہمارے اوپر کوئی دیانت دار حکمراں ہماری سرپرستی کرے اسلئے ہمیں اور آپکو مل کر اس بارے میں مثبت سوچ کو عملی طورپر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے اگر اب بھی ہم اور آپ خاموش تماشائی بنے رہے تو آیئندہ ملکی حالات کو اس سے بھی بدتر ہونے سے کوئی نہیں روک پائے گا ۔
Nida Yousuf Shaikh
About the Author: Nida Yousuf Shaikh Read More Articles by Nida Yousuf Shaikh: 19 Articles with 14333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.