مسئلہ شاہراہوں کا

 پاکستان کی شاہراہوں کے بارے میں ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا روڈ نیٹ ورک تنزلی کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برس میں شاہراہوں کی طوالت میں محض ایک فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ ان سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد میں پندرہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یوں شاہراہوں کی لمبائی میں گزشتہ سالوں کی نسبت ایک درجہ تنزلی ہو کر پاکستان درجہ بیس سے اکیس پر آگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ستّر فیصد سڑکیں بڑی ہونے کے باوجود عالمی معیار کے مطابق نہیں، جبکہ تیس فیصد سڑکوں کی حالت انتہائی خراب اور خستہ ہے، جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ پاکستان میں شاہراہوں کی کُل لمبائی دو لاکھ 63ہزار 942کلومیٹر ہے۔ جبکہ موٹر ویز، ہائی ویز اور ایکسپریس ویز کُل باہر ہزار ایک سو اکتیس کلو میٹر طویل ہیں۔ شاہراہوں میں 41فیصد پنجاب، 31فیصد سندھ، 16فیصد خیبر پختونخوا اور 11فیصد بلوچستان میں موجود ہیں، جبکہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اِ ن شاہراہوں کا کل ایک فیصد ہے۔ یہ رپورٹ نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ سینٹر کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔

ہم تنقید و توصیف کی راہوں کے ہی مسافر ہیں، حکومتوں کو آڑے ہاتھوں لینا ہمارا فرضِ منصبی قرار پا چکا ہے، ہم اگر اور کسی کام میں بھی مہارت نہیں رکھتے پھر بھی تنقید میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ حکومت نے کوئی کام مجبوری کے عالم میں بھی کیا تو اس کو سینگوں پر اٹھا لیتے ہیں۔ بعد میں حالات سے آگاہی حاصل ہو جانے کے بعد چاہے شرمساری کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہی فریضہ حکومت کی تعریف میں بھی نبھایا جارہا ہے۔ حکومت کے ہر کام کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں، غلط کاموں کو بھی درست بنا کر ظاہر کیا جاتا ہے، جس غلطی پر معافی کی ضرورت ہو وہاں بھی دلائل لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے جب حقائق سے نظر بچا کر کسی کی مخالفت یا حمایت کی جائے گی تو دلائل کم اور جانبداری زیادہ جھلکے گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اچھے کام کی تعریف ہواور غلط کام کی اصلاح کی غرض سے تنقید۔ لیکن یہ اچھا کون کرے، کیسے ہو؟ وجہ اس تضاد کی یہ ہے کہ ہم ہمیشہ پارٹی بن کر سوچتے ہیں، اپنوں کی آنکھوں کے شہتیر کو نظر انداز کرکے دوسروں کی آنکھوں کی آنکھوں میں تنکے دکھائی دینے کی روایت پر کاربند ہیں۔

زمینی حقائق کا ادراک ضروری ہے،ایک شہر سے دوسرے کے لئے یا شہر سے کسی مضافاتی قصبوں تک جانے کے لئے سڑکوں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، چونکہ اپنے حکمرانوں وغیرہ کا وہاں سے کبھی گزر نہیں ہونا ہوتا، اس لئے انہیں کوئی پوچھتا نہیں۔ وہاں سے ہزاروں لوگ روزانہ گزرتے ہیں، مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکوں پر ان کی گاڑیاں، موٹر سائکل اور دیگر سواریاں تباہ ہو رہی ہوتی ہیں، مگر وہ مجبور ہیں کہ ان کا وہی راستہ ہے۔ یہ معاملہ صرف عام چھوٹی سڑکوں وغیرہ کاہی نہیں، بہت اہم اور بڑی سڑکوں کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ جنوبی پنجاب میں عوام کے ساتھ یہ ستم عام روا رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سڑک ایسی ہے، جس کا تذکرہ قومی اسمبلی کے ایوانوں میں بھی ہوتا ہے، وہ ہے خانیوال سے لودھراں تک جانے والی شاہراہ۔ کراچی سے لاہور کے لئے یہ سڑک راستے میں آتی ہے، عام ٹریفک تو براستہ ملتان تیس کلومیٹر اضافی سفر کرکے گزر جاتی ہے، مگر بڑی ٹریفک اِدھر سے ہی گزرتی ہے۔ اسّی کلومیٹر کے اس ٹکڑے پر جتنی دیر بھی سفر جاری رہتا ہے، مسافر مسلسل ذہنی دباؤ اور پریشانی کا شکار رہتا ہے، کبھی وہ حکومتوں کو کوستا ہے اور کبھی ٹھیکیداروں پر اپنا غصہ نکالتا ہے، ہر سال
اس کی مرمت وغیرہ پر کروڑوں روپے جھونکے جاتے ہیں۔ متعلقہ حلقوں کے ارکان اسمبلی بھی حسبِ توفیق اپنا دکھڑا روتے ہیں، مگر وہاں بھی دہرا معیار ہے، حکومتی ارکان اپنی قیاد ت کے پابند ہیں، ان کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام ممکن نہیں، ان کی خوشنودی بھی درکار رہتی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کے ارکان کے بارے میں یہ فارمولا ہوتا ہے کہ اس کی سننی نہیں۔ یہاں سے بلا مبالغہ ہزاروں بڑی چھوٹی گاڑیاں یہاں سے گزرتی ہیں، کبھی اس کو ’’ون وے ‘‘ بنانے کی بات ہوتی ہے اور کبھی ایکسپریس وے، مگر ہوتا کچھ نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت دیگر منصوبوں پر خرچ ہونے والی رقم کو میٹروز پر منتقل کر دیتے ہیں، یعنی وہ اپنی مرضی کے منصوبوں کی خاطر عوام کی بہبود او رآسانی کے منصوبوں کو قربان کر دیتے ہیں۔ یہ تو ایک مثال ہے، ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔زیر نظر رپورٹ ایک ثبوت ہے کہ شاہراہیں غیر معیاری اور چھوٹی ہیں، جب کہ سارا سرمایہ میٹرو پر لگ رہا ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472370 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.