میں نے دفتر سے اٹھتے وقت بیگم کو فون کیا
کہ وہ ہو چکا ہے جو تین دن پہلے کہا تھا وہ چیخ اٹھی میں نے اسے مختصرا کہا
اب بچے سنبھالنے ہیں پر دیس ہے چیخو چلاؤ گی تو کوئی فائدہ نہیں۔میں
پاکستان کی فوج سے بہت پیار کرتا ہوں لیکن اس قسم کے معاملات دیکھ لیجئے ۔ہو
سکتا ہے مشرف نے سفیر پاکستان کو سعودی عرب میں کچھ معاملات کو کنٹرول کرنے
کے لئے کہا ہو وہ مگر وہ قصاب کی طرح نواز شریف کے ساتھیوں پر ٹوٹ پڑا
تھا۔جدہ میں بیٹھا ہوا ا س کانمائندہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفا دار ثابت ہو
ا۔مجھے علم تھا کہ اسے میری جمہوریت پسندی پسند نہیں ہے۔ورکشاپ کے بڑے ہال
سے گزرتے ہوئے فلسطینی مکینک یحی نے سلام کیا باہر خارجی دروازے کے ساتھ
پولیس کی ٹویوٹا جیپ کھڑی تھی۔وہاں دو جندی اور ایک کیپٹن موجود تھا ایک
نوجوان پولیس کے حوالدار نے مجھے دھکا دے کر گاڑی کے اندر دھکیلنے کی کوشش
کی میں نے اسے کہنی کی زد میں لے کر چیخ کر کہا ابعد (دفع ہو جاؤ) پھر میں
چیخ اٹھا کے ظالمو میں نے تمہاری نسلوں کو سکھایا ہے اور آج ایک ظالم کے
کہنے پر مجھے گرفتار کر رہے ہو جاؤ دفع ہو جاؤ دیکھو میری کوئی رپورٹ کوئی
لڑائی اور کوئی پھڈہ ۔میرا ریکارڈ صاف ہے تم لوگ مجھے ظالم ڈکٹیٹر کے خلاف
بولنے کے جرم میں پکڑ رہے ہو۔نوجوان کیپٹن نے کاغذ دیکھے ۔وہ بہت مطمئن ہوا
اس نے سپاہیوں سے کہا اسے کچھ نہ کہیں یہ سیاسی مجرم ہے۔میں نے خود اپنی
آنکھوں سے دیکھا جماع نواز شریف(یعنی نواز شریف کا دوست ہے)یعنی نواز شریف
کا دوست ہونا جرم تھا۔مجھ سے بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ تو ان کا مہمان
تھا۔نہیں بلکل نہیں میاں نواز شریف سرور پیلیس کے قیدی تھے ۔آزاد قیدی۔ ان
کی موومنٹ پر سخت کنٹرول تھا۔پاکستان کی ایجینسیوں کے لوگ ان کے دفتر میں
فاکس مشینیوں تک، پر تعینات تھے۔میں نے اپنی آنکھوں سے ایک کیپٹن کو ان کی
قمیض کا پلو کھینچتے دیکھا۔ یہ غالبا مارچ ۲۰۰۱ کی بات تھی مہران ہوٹل کے
چودھری اسلم کار حادثے میں ہلاک ہو گئے ان کا نماز جنازہ حرم پاک میں
پڑھایا جا رہا تھا۔میاں نواز شریف کے ساتھ میں کھڑا تھا۔ منہ دیکھنے کے لئے
جب وہ آگے بڑھے تو پولیس کیپٹن نے انہیں ان کی قمیض پکڑ کر کہا (اوقف) یہیں
کھڑے رہو۔یہ برائے نام آزادی تھی گرچہ اٹک قلعے سے بہتر ماحول تھا لیکن وہ
آزاد نہ تھے کسی کے پاس نہیں جا سکتے تھے۔حتی کے کیپٹن صفدر بھی آزاد نہ
تھے جب کبھی گپ شپ کا موڈ ہوتا وہ ٹریک سوٹ پہن کر چودھری شہباز حسین سابق
وفاقی وزیر(چچا چودھری فواد حسین) کے ہوٹل اسپنزر جو اب لاثانی ہے میں آ
جاتے۔مجھے اس جیپ میں بٹھا دیا گیا ۔گاڑی کی چابیاں میں نے کسی دوست کو دے
دیں۔مجھے وہاں سے دلہ ٹاور میں واقع ایک دفتر میں لے جایا گیا۔رستے میں
گرمی تھی گرچہ ۱۹ مارچ تھا لیکن جدہ میں سخت حبس اور گرمی تھی۔میں نے
ڈرائیور کو کہا کہ درمیان میں جو کھڑکی ہے اسے کھولے تا کہ اے سی کی ٹھنڈی
ہوا آ جائے۔اس نے مہربانی کی۔دلہ ٹاور کے دفتر میں مجھے گاڑی سے نہیں اتارا
گیا۔وہاں سے گاڑی ترحیل کی جانب بڑھی ترحیل ایک ایسا کیمپ ہوتا ہے جہاں کسی
بھی غیر قانونی یا چھوٹے موٹے جرم میں ملوث شخص کو اپنے وطن بھیجنے سے پہلے
رکھا جاتا ہے۔جب گاڑی بڑے گول چکر کے پاس پہنچی تو میں نے گھر پاکستان میں
بھائی کو فون کر دیا کہ مجھے گرفتار کر لیا گیا ہے۔میں گاڑی میں بیٹھا آزاد
لوگوں کو دیکھ رہا تھا مجھے پتہ چل گیا کہ آزادی اور پابندی میں کیا فرق ہے
۔یہ وہی سڑکیں تھیں جہاں میں برسوں آزادانہ گھوما کرتا تھا۔پرانے ایئر پورٹ
میں محمود سعید مارکیٹ کے سامنے یہ کیمپ بنائے گئے تھے۔تھوڑی ہی دیر میں ہم
وہاں اس کیمپ میں پہنچ گئے۔مجھے کہا گیا کہ گلے میں پٹی ڈال کر فوٹو
کھنچواؤں میں نے وہ طوق پہنا کہنے لگے پندرہ ریال دو میں نے کہا کس چیز کے
کہنے لگے فوٹو جو کھینچی ہے جواب دیا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بند بھی کرتے
ہو اور کہتے ہو پیسے دو کمال کی بات ہے ۔مجھے تھوڑی ہی دیر میں ایک اور
سپاہی نے ایک بیرک جس کا نمبر ۳ تھا وہاں داخل کر دیا ۔ میرے خیال میں یہ
بیرک کوئی دو سو فٹ لمبی اور سو فٹ چوڑی ہو گی ۔اس کے بائیں ہاتھ ایک گندہ
سا کمرہ تھا جہاں ملاقاتی آ کر مل لیا کرتے تھے۔آگے سامنے جا کر فٹ پاتھ
نما تھڑیاں سی بنی ہوئی تھیں درمیان میں خالی جگہ تھی جہاں محبوس لوگ نماز
پڑھا کرتے تھے اس کے بعد ایک اور ہال تھا جو عموما خالی رہتا تھا۔داخل ہوتے
ہی دائیں جانب تین چار غسل خانے تھے۔وضو کی جگہ بھی بنی ہوئی تھی۔میں نے
اپنی ٹائی اتار کر جیب میں ڈال رکھی تھی جاتے ہی میں نے وضو کیا نماز پڑھی
اور اﷲ تعالی سے دعا کی یہ عذاب مجھ سے ہٹا لے۔میں اس وقت تک پر سکون ہو
چکا تھا۔نماز پڑھنے کے بعد عظمت خان نیازی اور وسیم صدیقی سے ملاقات
ہوئی۔عظمت کا خیال تھا کہ اسے ارشد خان نے پکڑوایا ہے۔مجھے قاری شکیل نے
بتایا تھا کہ مجھ سے وعدے وعید لئے گئے ہیں کہ میں سیاست بلکل نہیں کروں
گا۔اس کا خیال تھا کہ آپ بھی دور رہو بلکہ کوشش کرو پاکستان چلے جاؤ۔یہ
میرے لئے بزدلی تھی میں نے کہا جو ہویا دیکھا جائے گا۔میں جا بھی کہاں سکتا
تھا سعودی حکومت نے مجھے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں رکھا ہوا تھا یہ سب ہماری
حکومت کے ادارے اور سعودی عرب کے ادارے مل کر کیا کرتے تھے۔میں نے اس اثناء
میں خبریں کے ایڈیٹر جناب ضیاء شاہد کو بھی آگاہ کیا کہ آپریشن جاری ہے
خیال رکھئے گا۔جنرل مشرف ان دنوں امریکہ گئے ہوئے تھے میرا خیال ہے شائد
غلط بھی ہو وہوں کہ نمائیندے محسن ظہیر کے حوالے سے یہ سوال بھی اٹھوایا کہ
سعودی عرب میں پاکستانیوں کو کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے؟عظمت نیازی رحیم
یار خان کا رہنے والا تھا خاصہ کاروباری تھا اس کی اپنی کنسٹرکشن کمپنی تھی
اور کافی لوگوں کو ملازمتیں دے رکھی تھیں۔یہ جب گرفتار ہوا تو اس نے مجھے
جیل سے فون کیا کہ یار تم واحد بندے ہو جو ہماری مدد کر سکتے ہو خدارا آواز
بلند کرو میں نے خبریں میں چھپوایا کہ اسد درانی پاکستانیوں پر قہر بن کر
ٹوٹ پڑا ہے اور یہاں نواز شریف کے ساتھیوں کو جیلوں میں بند کیا جا رہا
ہے۔اس دورا ن میں نے سفیر پاکستان سے کہا کہ چار پاکستانی بند ہیں ان کو
رہا کروائیں کہنے لگے یہ چار ہیں اگر چار سو بھی ہوں تو میں نہیں نکلواؤں
گا یہ سیاست کرتے ہیں۔گویا یہ اعتراف جرم تھا۔میں نے عظمت نیازی کو یقین
دلایا کہ میں کوشش کروں گا۔اور کوشش کی تو میں دوسرے ہفتے نیازی کے پاس
عارضی جیل پہنچ گیا ۔جنرل (ر) درانی ان لوگوں میں سے تھا جن کے سینے میں
پتھر کا دل ہوتا ہے۔
|