جبر کے دن تھوڑے ہیں

جاڑ ے کا موسم آتا ہے تو کشمیر کی چھوٹی بڑی وادیوں کی وسعت اور بھی کھل جاتی ہے ۔ فصلوں کی کٹائی کے بعد تاحد نظر میدان پھیل جاتے ہیں۔ ان میدانوں کی وسعتوں کے اس پار کھڑے پہاڑی سلسلے آنکھوں کے سامنے کرب کا طوفان اٹھا دیتے ہیں ۔ ادھر آزاد خطے کی وادیوں کی حد ختم ہوتی ہے تو بھارتی درندوں کے قبضے میں سسکتے مناظر بھی نظر آنے لگتے ہیں ۔ آنکھیں یہ منظر دیکھ دیکھ کر پتھرا نے لگی ہیں ۔ سات دہائیوں سے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ایک روز کشمیر آزاد ہوگا اور ڈیڑھ کروڑ کشمیری تکمیل پاکستان کی منزل پا لیں گے۔

مدت بعد آج میں اس پہاڑی درے کے سامنے بیٹھا تھا جہاں سے ظلم سہتے کشمیری ہجرت کرتے آئے ہیں۔ کتنے لوگ اس ہجرت میں جان کی بازی ہار بیٹھے اور ایسے بھی جو جبر کی گولیوں کا شکار ہو کر معذور ہو گئے ۔آرزوؤں اور تمناؤں کا یہ سفر جا ری رہا ۔ پاکستان سے محبت انہیں کھینچ کھینچ کر اس درے کی طرف لاتی رہی اور وہ اس محبت کے ہاتھوں مجبور ہر حد سے گزرتے چلے گئے۔یہاں سے خونی لکیر چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس لکیر کے اس پارمحبتوں کے یہ امین آج بھی جبر کی قوتوں سے نبرد آزما ہیں۔ درے کو دیکھتے ہی شمس دین یاد آگیا اور بے طرح یاد آیا۔ پیر بڈیسر پہاڑ کے پہلو سے ابھرتے اس درے سے شمس دین آزاد خطے میں وارد ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب جہاد کا نام سن کر ہمارے چہروں پر خوف کے سائے نہیں لہراتے تھے۔ جب مجاہدین اس امت کے ہیرو ہوتے تھے اور مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آنے والوں کو ہتھیلیوں پر اٹھایا جاتا تھا۔ ان کے ناز نخرے اٹھائے جاتے تھے۔ ان کی میزبانی پر فخر ہوتا تھا اور ان سے تعلق عزت کا باعث تھا۔ شمس دین اپنی ماں ‘دو بچوں اور بیوی کے ساتھ ہجرت کر کے آزاد کشمیر آیا تھا۔ ’’ اپنے گھر ‘‘ میں وہ ایک کھاتا پیتا انسان تھا لیکن ہجرت کے سفر نے اسے ’’ مہاجر‘‘ بنا دیا۔ ہماری خیرات اور صدقات اس جیسے انسان کے لیے مدد کا ذریعہ بن گئی ۔کچھ روز تک وہ دعوتیں اڑاتا رہا لیکن اس کا ضمیر اس وقت ملامتیں شروع کر دیتا جب کھانے کی محفلوں میں اس کا تعارف ایک لٹے پٹے مہاجر کی حیثیت سے کرایا جاتا۔و ہ حیرت سے دیکھتا اور سوچتا کہ اپنے ہی ملک کے اندر نقل مکانی کرنے والے مہاجر کیسے ہو جاتے ہیں ۔اس کے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے باپ کی بے بسی دیکھ کر ایک دوسرے سے پوچھتے تھے ’’ بابا کو کیا ہو گیا ہے ہمیں ٹافیوں کے لیے بھی پیسے نہیں دیتے ۔‘‘ شمس دین کی بوڑھی ماں اپنے بیٹے کی ذہنی کیفیت اس کے چہرے سے پڑھتی تھی لیکن کہتی کچھ نہیں تھی ۔ تسبیح پکڑ کر کسی کونے میں بیٹھ جاتی اور اپنے رب سے شکوے کرنے لگتی ۔ اسے یہ بات سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی تھی کہ جس پاکستان کی محبت ان کی گھٹی میں ڈالی گئی تھی اس کے باسی ان سے محبت تو کرتے ہیں لیکن ’’ مہاجر‘‘ کہہ کر گلی گلی خیرات جمع کرتے اور ہمارے بچوں کو پالتے ہیں ۔یہاں کی حکمران کیوں ہمارے کفیل نہیں بن سکتے ہم اپنے گھر میں اجنبی کیوں ہیں ؟

شمس دین کی خود داری نے اسے ’’ مہاجر‘‘ کی حیثیت بدلنے پر مجبور کر دیا ۔ وہ کچھ دن کے لیے مہاجر کیمپ میں منتقل ہوا تھا اور وہاں ہی اس نے ایک دکان تعمیر کر لی۔اس کے ننھے بچے ٹافیوں اور بسکٹوں میں ’’ خود کفیل ‘‘ ہو گئے ۔ یہی شمس دین کے لیے حوصلے کا باعث تھا۔ بیس کیمپ کے اہل کار اسے مہاجر رجسٹر کر چکے تھے اس لیے ہر مہینے کے بعد اسے راشن کارڈ کے مطابق اس کے دفتر کے باہر لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ۔دو مرتبہ وہ اپنی عزت نفس پیس کر قطار میں کھڑا ہوا اور پھر کبھی ادھر نہ گیا ۔ وہ جب بھی ملتا اپنی بے بسی اور بیس کیمپ کی بے حسی پر روتا تھا۔ اسے یہ بات قبول نہیں تھی کہ وہ اپنے ہی گھر کا اندر ’’ اپنے ‘‘ گھر والوں سے بھیک مانگے ۔ اس نے بچپن میں اپنی آنکھوں میں آزادی کے خواب بسائے تھے۔ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے وہ خون کا دریا عبور کر کے آزاد کشمیر آیا تھا لیکن یہاں کسی کو کوئی خاص غرض نہیں تھی ۔ بیس کیمپ میں مہاجرین کے کیمپ قائم کر دیے تھے ۔ خیمے بھی نصب تھے ‘ راشن کا کوٹہ مقرر تھا اور بڑے بڑے پیٹوں اور موٹی گردنوں والے افسر ان پر مسلط کر دیے گئے تھے جو انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ڈیل کرتے۔ اس کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے تھے۔ مہاجر کا لفظ اس کے لیے گالی بن گیا تھا۔دکھ اور کرب کے ان دلدوز دنوں میں اس کی ماں بھی رخصت ہو گئی ۔ ماں کی پاکستان میں دفن ہونے کی خواہش تو پوری ہو گئی لیکن شمس دین کے سارے جذبے ‘ سارے عزائم ماں کے ساتھ ہی قبر میں اتر گئے ۔ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہنے والے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگانے اور پہلی گولی کا خراج نصف صدی تک قوم سے وصول کرنے والے اس جیسے شمس دینوں کو گھاس نہ ڈالتے تھے۔اقتدار کی جنگ لڑنے والے آزادی کی جنگ کیسے لڑ سکتے تھے؟ اپنے بچوں کو اپنے بعد اقتدار کے ایوانوں میں متمکن دیکھنے والوں کو شمس دین جیسے لوگوں کی پرواہ کیا ہو سکتی تھی ؟نعرے‘ دعوے اور جھوٹے وعدوں سے تنگ آکر ایک روز شمس دین اس درے کی طرف چلا گیا جہاں سے آزاد خطے میں وارد ہواتھا۔جانے سے قبل ہم نے اسے بہت سمجھایا ‘ دلائل دیے ‘ آزادی کے سہانے سپنے دکھائے‘ واپسی کے سفر کی مشکلات سے ڈرایا۔ وہ ہٹ کا پکا تھا ‘ مکمل مایوس انسان کی طرح اس نے اپنے ہاتھ جھاڑے اور کہا۔
’’ سب بکواس ہے۔‘‘

شمس دین ،جسے پیارسے ہم ’’ دین کا سورج ‘‘ کہتے تھے۔ ہماری محبتوں کے باوجود ڈوبنے کے لیے جا رہا تھا۔ اپنے بچپن سے جوانی اور ڈھلتی جوانی کے ساتھ ہم نے اس جیسے ’’ سورجوں‘‘ کے بہت حوصلے بڑھائے تھے۔ انہیں طفل تسلیاں دیتے رہے تھے ۔ یہ لوگ جو مقبوضہ کشمیر میں غداروں کی ایک پوری نسل سے لڑتے آئے تھے‘ جیلیں عقوبت خانے اور آگ و خون کے دریا اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ جبر کے حربے ان کے حوصلے نہ توڑ سکے تھے۔ ہماری محبتیں دکھاوے کی تھیں ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ حقائق کچھ اور تھے جو نظر آر ہے تھے۔ شمس بیس کیمپ سے مایوس ہو چکا تھا۔شمس جانے لگا تو ہم نے اسے کہا ’’ پھر کب ملو گے ؟‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی پھوٹ پڑی۔ کہنے لگا ’’ اب شاید خوابوں میں ملا کریں گے۔ ’’ ہم نے کہا ’’ سورج تو ہر روز طلوع ہوتا ہے اور اتفاق سے ہمارا سورج راجوری کے پہاڑوں کے اس پار سے طلوع ہوتا ہے ۔‘‘ وہ مسکرایا اور بولا یہ سورج اب ڈوبنے کے لیے جا رہا ہے ۔ شاید کبھی طلوع نہ ہو برس ہابرس گزر گئے ۔ وہ چلا گیا اور اس خونی درے کو عبور کرتے ہوئے بیوی ‘ بچوں سمیت دشمن کی اندھی گولیوں کا شکار ہو گیا ۔ اس درے کی کسی ڈھلان پر بکر والوں نے ان کو قبر کھود کر دفن کر دیا ۔ یہ سورج زیر زمین ہمیشہ کے لیے طلوع ہوگیا‘اپنے ستاروں کے ساتھ ۔

شمس دین اور اس جیسے ہزاروں جو آزادی کی تلاش میں نکلے تھے جانے کہاں کہاں کھو گئے ۔ ان کا کوئی نام نہیں لیکن ان کی آرزوؤں اور امنگوں کا خون کس نے کیا ؟ ان کو آزادی کے خواب دکھا کر تعبیریں کس نے فروخت کردیں؟ وادی گل پوش کے ہر کوچے میں شہیدوں کے مزار بنتے چلے گئے لیکن ہمارے حکمرانوں‘ سیاست کاروں نے اپنی خوبدلنا تھی نہ بدلی ۔ کشمیریوں کے دن بدلنے تھے نہ بدلے ۔ ہم اپنی آنکھوں کو پھوڑتے چلے گئے۔

اس درے کے اس پار آج بھی ظلم کے لشکر کھل کھیل رہے ہیں ۔ آج بھی پاکستان کے سپاہی ان لشکروں سے صف آراء ہیں ۔ آج بھی پاکستان کی محبت انہیں جان دینے پر مجبور کرتی ہے ‘ آج بھی پاکستان کے حکمران ‘ بیس کیمپ کے اہلکار اور سیاست کار اسی طرح لا تعلق ہیں جس طرح برسوں پہلے تھے۔ آج وہ پہاڑی درہ جس کی ڈھلان پرنہ جانے کتنے شمس دینوں نے جان کی بازی ہاردی ‘ میری نظروں کے سامنے تھا ۔ میں چشم تصور سے اٹھارہ برس پہلے کے اس منظر کو دیکھ رہا تھا شمس دین جا رہا تھا اور ہم اسے روک رہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا ۔ ’’ ہم جا رہے ہیں لیکن تم ہماری آزادی کی حفاطت کرنا۔‘‘ ہم خیال ہی خیال میں اس کے جواب سن رہے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے۔
وصال موسم گزر گیا تو خیال بن کر ملا کریں گے
بچھڑ گئے ہم اگر تو پھر ماہ و سال بن کر ملا کریں گے
کتاب دل و فا کے اک اک ورق پہ اپنی خبر ملے گی
ہم اہل الفت محبتوں کی مثال بن کر ملا کریں گے
ہزار لمحوں کی ہو مسافت دلوں کی دھڑکن سنائی دے گی
گزرتے لمحوں کی ہر صدا میں جمال بن کر ملا کریں گے
ابھی تو لمحوں کی دوریوں پر بھٹک رہے ہیں مگر کبھی ہم
فلک کی گردش میں آ گئے تو ہلال بن کر ملا کریں گے

وادیوں کی وسعتوں کے اس پار دیکھتے ہی دل سکڑنے لگتا ہے اور درے کے اس پار اٹھنے والی دھند آنکھوں میں آ بستی ہے ‘جہاں وہ بادل بن کر برس پڑتی ہے۔میرے کشمیر کے شمس دینو! حوصلہ رکھنا جبر کے دن تھوڑے ہیں۔
Saghir Qamar
About the Author: Saghir Qamar Read More Articles by Saghir Qamar: 51 Articles with 37899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.