کسی سے کیا گلہ،
یہی تقدیر تھی،
کہ میں بھی میں نہ تھا،
میری تصویر تھی،
یہی تقدیر تھی۔۔!
خدا میرابھی ہے خدا تیرا بھی،
دھڑکتا ہے دل تیرا ،وہ دل میرا بھی
تو پھر کیوں بے وجہ یہ رکتی سانس ہے
میں تنہا تو نہیں خدا میرے ساتھ ہے۔۔!
ان الفاظ میں کرب کا اک سمندر پنہاں ہے۔معاشرے کی دھدکار ہے۔بلاوجہ کی اذیت
ناک سزا ہے۔اپنے نامکمل ہونے کا دکھ سہنے کے ساتھ ساتھ اوروں کے مرہم رکھتے
نہیں بلکہ زخم پر نمک چھڑکتے لہجے ہیں۔اک ناکردہ گناہ کی تپش ہے۔ تلخی بھرے
رویوں کی ہر پل چھبتی پھانس ہے۔حقارت کا احسا س دلاتی نظریں ہیں۔اپنے ہی
جیسے دھڑکتے دل ،سانس لیتی روح اور ایک ہی رب کو ماننے کے باوجود تنگ کر دی
جانے والی زمین کی سختی ہے۔اس نام نہاداچھائی کا لبادہ اوڑھے معاشرے کے تنگ
ذہنوں کی طرف اشارہ کرتا شدید دکھ ہے۔۔!
ایک نجی چینل پر نشر ہونے والے اس ڈرامے نے لوگوں کو اس وقت بہت رنجیدہ کر
دیاجب ڈرامے کے ہیرو و ہیروئن کے ہاں ایک ایسے بچے کی پیدائش ہوئی کہ جو
ایک تیسری صنف (ہیجڑہ) تھا۔بس وہی لمحہ تھا کہ جس نے شادی سے پہلے ہیرو کے
آسمان سے قلابے ملاتے دعووں اورشادی کے بعدہیروئن سے بے پناہ محبت میں
زندگی بھر ہر موڑ پر ساتھ دینے کی خوشگوار باتوں کو اجنبیت و خاموشی کے
احساس میں ڈوبا دیا۔جب اس عورت کو اپنے شوہر کے ساتھ ،پیار،حوصلے اور توجہ
کی ضرورت تھی عین اس وقت ان میں اک عجب سی دوری ان کے درمیان گھر کر لیا۔اس
نے نہ ہی اپنے بچے پر اک نظر ڈالی اور نہ ہی موت کے منہ سے نکل کر آنے والی
بیوی کا حال پوچھابس ۔۔گھر کو نکل دیا۔دونوں گھروں میں الگ کہرام برپا تھا
کہ معاشرے کو منہ کیسے دکھایا جائے۔جب وہ اگلے روزملنے گیا تواسپتال سے
واپسی پر ہی اس نے اپنی بیوی سے بات کرنے کے انداز میں اک حکم سا صادر کر
دیا کہ اسے اسی کے علاقے میں اور اسی کی پہچان کے لوگوں میں چھوڑ آیا
جائے۔ماں نے دل پروقتی پتھر تورکھ لیامگر پھر زمانے کے سوالات سے انجان ،اپنے
بچے کی محبت میں مگن ،پہنچ گئی اسے لینے۔تب وہاں ہیجڑوں نے بھی جشن منایا
کہ کوئی پہلی بار آیا ہے اپنا بچہ واپس لینے!شوہر سے دوری اختیار کر کے وہ
بچے کو خود پال رہی ہے ۔اس لڑکی کو اب چیلنجز کا سامنا ہے۔اس کہانی کی آنے
والی اقساط میں یقینا ہمارے معاشرے کی سوچ بدلنے میں ایک سبق پوشیدہ ہو
گاجو کہ بولنا شروع ہو گیا ہے۔اس ڈرامے میں ایک اور نئی روایت بھی قائم کی
گئی ہے کہ ایک خواجہ سرا کو اس لڑکی نے اپنے گھر ملازمت پر رکھا ہے اور
دوسرا یہ کہ اس خواجہ سرا نے کیسے اس بچے کی نارمل پرورش کی خاطر خود کو ''ببلی
''سے ''ببن میاں'' بنایاہے!!
اگر ہم اپنے معاشرے کا رخ کریں تو ان خواجہ سراؤں سے بد سلوکی کی تلخ حقیقت
ہمیں منہ چراتی نظر آئے گی ۔ ان کے لئے ہمارے معاشرے میں مذاق،ذلت،ڈانٹ ڈپٹ
اورحقیر سمجھے جانے کے احساسات ہیں۔ان پر تشدد کے واقعات بھی پیش آتے رہتے
ہیں۔کیا کسی نے کبھی سوچا کہ وہ بھی انسان ہیں،اﷲ کے حکم سے ایسے ہیں،اس نے
روح پھونکی ہے ان میں،ان کو ہمارے رب نے ایسا بنایا ہے،وہ بھی جذبات رکھتے
ہیں،رویوں کو محسوس کرتے ہیں،بہت حساس ہوتے ہیں،لوگوں میں نہیں اپنی بستی
میں اپنے لوگوں میں بیٹھ کر رو لیتے ہیں،ایک دوسرے کو سہارا دیتے
ہیں،نامکمل ہونے کے باوجود جینے کا حوصلہ رکھتے ہیں،،تو پھر ہم لوگ کون ہیں
ان کو بدنام کرنے والے؟ان سے جینے کا حق چھیننے والے؟ان کے اردگرد گھیرا
اور ان کی سانس تنگ کرنے والے؟خود کی نظر میں حیا کی کمی کو یکسر نظر انداز
کر کے ان کو بے غیرت کہنے والے؟ان کے لئے ان گنت مسائل ہونے کے باوجود اپنی
دھدکار سے اپنا بھی حصہ ڈال کر مزیدفرض ادا کرنے والے؟ہم ان سے خوامخواہ کی
نفرت کرنے والے کون ہیں؟
مولانا طارق جمیل صاحب کا ایک بیان سنا کہ جس میں انھوں نے خواجہ سرا کو
عزت دی اور اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا تواس کی حیرت کا عجب عالم تھا
اور کہنا تھا ''کہ لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں اور مولوی ہمیں نیڑے نہیں لگنے
دیتے،گلاس کو ہاتھ لگا لیں تو گلاس دھو جھڈدے نیں۔''اس نے بعد میں یہ کام
چھوڑ دیا اور اسلام کی خد مت کی طرف راغب ہو گیا۔دیکھا جائے تو یہ ہمارے
معاشرے کی ہی ایک تھکی ،جامد اور پسماندہ سوچ ہے جو ان کو اور کچھ دوسرے کم
زور طبقات کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔وہ شناختی
کارڈ کے لئے سڑکوں پر آتے ہیں،ملازمتوں کے لئے شور مچاتے ہیں،کیا ہوتا ہے؟
یہ معاشرہ ان کو باعزت طریقے سے جینے نہیں دینا چاہتا۔
ایک بار ایک نجی چینل کے مارننگ شو میں ایک خواجہ سرا کو اس کی فیملی سے
ملوانے کی کاوش کی گئی۔فی میل اینکر بار بار یہی اعلان کر رہی تھی کہ آج ہم
ایک انہونی ،ہونی کر کے دکھائیں گے،ہماری کوششوں سے آج سالوں سے بچھڑا
خاندان مل سکے گا وغیرہ وغیرہ۔اس خواجہ سرا کی خوشی و بے چینی دیدنی
تھی۔پھر اچانک سے اینکر کوایک فون آیاتو اس نے افسردگی میں یہ اعلان کر دیا
کہ کوئی نہیں آ رہا ،کوئی نہیں ملنا چاہتا،بند کرو مجھے نہیں کرنا یہ
پروگرام۔یہ سنتے ہی وہ خواجہ سرا یہ پوچھتے ہوئے کہ کیا ہوا،پریشان ہو
کراپنے ایک ساتھی سے مل کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگاکہ دیکھنے والوں کی آنکھیں
یقینا نم ہو گئیں۔اس اینکر نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں سامنے
کون آ رہا ہے؟ اس پر وہ دیوانہ وار ادھر ادھر دیکھنے لگا اور ایک طرف دوڑ
لگا دی۔ ایک طرف سے ایک فیملی آتی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ خواجہ سرا اپنی
ماں سے لپٹ گیا اور بہت رویا۔ ان سب کو بٹھایا گیا اور تھوڑی بات چیت کی
گئی۔اس دوران وہ اپنی ماں کے ساتھ بیٹھا رہا اور دونوں کی آنکھیں بھیگی
ہوئی تھیں۔پتا نہیں بعد میں وہ ان کے ساتھ جا سکا یا سماج کی فرق کرتی
دیوار کے اس پار نارمل مگر ابنارمل سوچ کے حامل لوگوں نے اسے قبول کرنے سے
انکار کر دیا۔۔!
ایسے بچے اجنبی لوگوں کی دنیامیں آنکھ کھولتے ہیں اوران کے ساتھ رہتے ہیں
جن کے ساتھ ان کا صرف ایک ہی تعلق ہوتا ہے،''سانجھے غم کا''۔ ایک ماں کبھی
بھی اتنی سنگدل نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے بچے کی کسی بھی کمزوری کے باعث اسے
خود سے دور کر کے اجنبیوں کے حوالے کر دے یہ تو ہمارے معاشرے کی ٹس سے مس
نہ ہوتی ضدی سوچ کی دین ہے جو ایک ماں کو اپنے دل پر ایک بھاری سل رکھ کر
نہ چاہتے ہوئے بھی خاندان کے مجبور کرنے پر اس سے اس کا بچہ چھین ہی لیتی
ہے۔اگرچہ یہ قدریں سوسائٹی کے اس نظام میں اپنے قدم اس قدر مضبوطی سے پیوست
کر چکی ہے کہ کسی کے لئے اس کے خلاف آواز اٹھانا انتہائی نامناسب فعل سمجھا
جائے گامگر کسی بھی خرابی کے مخالف آغاز کا ڈنکا تو بجتا ہی ہے،غلط رسم کے
خلاف ،مخالفت تو سر اٹھاتی ہے اوراگر اس ڈنکے اور مخالفت میں حکم اور طاقت
کے ہاتھ ہوں تو پھر توکوشش اپنا رنگ ضرور دکھاتی ہے ۔ سپریم کورٹ سے گزارش
ہے کہ خواجہ سرا کے حقوق سے متعلق اہم فیصلے کئے جائیں۔لاہور ہائیکورٹ کے
پر عزم چیف جسٹس اس مسئلے کی جانب بھی توجہ دیں۔ صوبائی حکومتیں خواجہ
سراؤں کے حقوق و ملازمتوں سے متعلق درپیش مسائل میں کمی کا ساماں کریں۔ان
کی پہچان و پاکستانی شہری ہونے کے ناطے شناختی کارڈ کا اجراء کریں۔ جب ہر
محکمہ اپنا پنا کام پوری ذمہ داری اور خلوص دل سے انجام دے گا تو
یقینابہتری کی صورت نکلتی جائے گی اورمتاثرہ عوام کو ریلیف مل سکے گا ۔بس
ضرورت ہے اہم فیصلے کرنے اوران کو نافذ العمل کر کے سوچ بدلنے کی۔۔! |