ممتاز قانون دان بیرسٹر ملک سعید حسنؒ راہِ عدم کے راہی ہوئے
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
قانون کے پشہ سے منسلک ہر شخص کے لیے ایک
بزرگ شخصیت کے حامل جناب ملک سعید حسن اِس دُنیا سے اپنی اصلی زندگی کی طرف
لوٹ گئے ایسے جگہ تشریف لے گئے جہاں سب نے جانا ہے۔ اور وہی انسان کا ابدی
گھر ہے۔ مرزا سرور علی بیگ کا ایک شعر ہے کہ اِس طرح جی کے بعد مرنے کہ کو
ئی یاد تو گاہ گاہ کرئے۔’’کل نفسِ ذائقۃ الموت‘‘ جوبھی دنیا میں آیا، اسے
جانا بھی ہے۔ عمر کتنی بھی ہو جائے ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا پڑتا ہے۔
سابق جج ہائی کورٹ بیرسٹر ملک سعید حسن اکیانوے سال تک دنیا میں رہ کر اﷲ
کو پیارے ہوئے۔ وہ ایک دبنگ اور نفیس ترین انسان تھے۔ جنہوں نے لنکن ان (برطانیہ)
سے بار ایٹ لاء کرکے یہاں پریکٹس شروع کی، وہ قانون و آئین میں بہت مہارت
اور دسترس رکھتے تھے ان کو دنیا بھر کے آئین اور قوانین بھی از بر تھے۔ آج
ان سے مستفید ہونے والے لاتعداد وکلاء موجود ہیں۔گورے،چٹے، دراز قد ملک
سعید حسن بڑے بااصول شخص تھے۔ انہوں نے زندگی بھر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
سیاست میں آئے۔ پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تو پھر آخری دم تک اسی جماعت سے
وابستہ رہے اور کبھی حرف شکائت بھی زبان پر نہیں لائے۔ وہ پاکستان
پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے اور ضیاء الحق کے دور میں ایم آر ڈی کی
تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا اور پولیس کی سختیوں کو برداشت کرنے کے
علاوہ قید بھی کاٹی۔ملک سعید حسن کو ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا تو ان کے
فیصلوں سے بھی مثالیں دی گئیں۔ جسٹس (ر) سعید حسن جج تھے جب ذوالفقار علی
بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ شروع ہوا اوراس وقت کے چیف جسٹس مولوی مشتاق نے
سیشن ٹرائل کی بجائے براہ راست سماعت شروع کی تو ملک سعید حسن نے احتجاجاً
بطور جج استعفیٰ دے دیا، اور بھری عدالت میں چیف جسٹس کے سپرد کرکے باہر
چلے گئے، وہ وکلاء میں بھی بڑے مقبول تھے کہ بہت با اخلاق تھے اور جونیرز
کو سمجھانے میں بخل سے کام نہیں لیتے تھے، ملک سعید حسن نے بطور وکیل سیاسی
کارکنوں اور راہنماؤں کے جتنے بھی مقدمات لڑے کبھی کسی سے فیس نہیں لی،
انہوں نے ہائی کورٹ بار کی صدارت کا الیکشن لڑا تو کامیابی نے قدم چومے وہ
صدر رہے۔ وہ کچھ عرصہ سے علیل تھے اس کے باوجود ہائی کورٹ بار آجایا کرتے
تھے، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ان کی خدمات کے اعتراف میں28 جنوری کو
ایک استقبالیہ دیا تو انہوں نے اس میں بھی شرکت کی، اور تقریب کے اختتام تک
بیٹھے رہے، ملک سعید حسن کے بھائی شوکت حسن فوج میں لیفٹیننٹ جنرل تھے اور
جب ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت پر عمل درآمد کا مسئلہ تھا تو انہوں نے
جنرل ضیاء الحق کو مشورہ دیا تھا کہ بھٹو کو پھانسی نہ دی جائے کہ اس سے
خرابی پیدا ہوگی۔اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ ملک سعید حسن کی نماز
جنازہ میں وکلاء اور سیاسی کارکنوں کی بہت بھاری تعداد نے شرکت کی اور
گزشتہ روز دعائے مغفرت میں بھی سینکڑوں لوگ موجود تھے، ان کی وفات پر
قانونی حلقوں نے دکھ اور رنج کا اظہار کیا کہ ایک اہل اور با اصول شخصیت
اٹھ گئی جس کا خلا پر نہیں ہو گا۔ میرا تعلق چونکہ اسی پروفیشن سے جس کے
قائد جناب ملک سعید حسن تھے۔ کیانی ہال میں روزانہ تشریف فرما ہوتے۔ اور
انتہائی نرم مزاج اور خوش نظر آنے والی شخصیت کے حامل جناب ملک صاحب غرور و
تکبر سے کوسوں دور تھے۔ اکثر ایوان اوقاف والے گیٹ سے ہائی کورٹ کے اندر
آتے تو میں اُنھیں سلام پیش کرتا۔ انتہائی نفیس صاف ستھرے جناب ملک صاحب ہر
چھوٹے بڑے سے پیار اور شفقت سے پیش آتے۔ قانون کے شعبہ میں ایک لجنڈ کی
حثیت رکھنے والے جناب ملک صاحب انتہائی باوقار شخصیت کے حامل تھے۔ لاہور
ہائی کورٹ بار میں اکثر اہم موضوعات پر جب مجھے بھی جنرل ہاوس اجلاس سے
خطاب کرنے کا موقع ملتا تو وہاں اُن کے خطاب سے بھی استفادہ کرتا۔ وہ کیانی
ہال میں جناب رانا اعجاز خان کے ساتھ ہی نشست پر تشریف فرما ہوتے۔ جناب ملک
صاحب کی شخصیت قانون کے طالبعلموں کے لیے ایک شجر سایہ دار تھی۔ لالچ اور
دُنایوی جاہ حشمت سے دور جناب ملک صاحب نے اپنی وکالت کا سفر مکمل کیا۔
راشد لودھی ایڈووکیٹ مجھے بتانے لگے کہ اپنی وفات سے چند روز پہلے لاہور
ہائی کورٹ بار کے پروگرام میں اُنھو۳ں نے جو شرکت کی تھی جو لاہور ہائی
کورٹ بار نے اُن کے اعزاز میں کیا تھا اُس کے لیے جناب ملک صاحب نے خود
فرمایا تھا کہ کے میرئے مرنے پر جو تعزیتی ریفرنس بھی تو ہائی کورٹ بار نے
کرنا ہی ہے کیونکہ نے میری زندگی میں میرئے لیے تقریب منعود کر لی جائے۔
یوں جناب انس غازی سیکرٹری بار کی کو ششوں سے نہایت باوقار تقریب کا اہتما
کیا گیا۔ جس میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بھی شریک ہوئے۔ اِس موقع پر جناب
ملک صاحب نے بابا بلھے شاہ کے اشعار پڑھے۔ اﷲ پاک جناب ملک سیعد حسن صاحب
کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔( آمین) |
|