پولیس ناکے پر قتل

 اسلام آباد پولیس نے ایک ناکے پر گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کر دی، ایک نوجوان جاں بحق ہو گیا، اس کی ساتھی خاتون محفوظ رہی۔ بس یہی کچھ اس واقع کی تفصیل ہے کہ رات کا پچھلا پہر تھا، پولیس نے گاڑی روکنے کے لئے کہا، لڑکے نے پولیس کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے غلط طرف سے گاڑی نکالنے کی کوشش کی، پولیس نے براہِ راست فائرنگ کر دی، گاڑی چلانے والے نوجوان کے سر میں گولی لگی ، اسے ہسپتال پہنچایا گیا، مگر تب تک وہ زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔ معاملہ چونکہ پولیس کا ہے، اس لئے پہلی بات تو یہ ہو گی کہ ایف آئی آر میں ہی کوئی نہ کوئی ایسی کمی رکھی جائے گی، جس سے بعد میں مقدمہ کی ہوا نکالنے میں آسانی رہے، اس قسم کے کاموں کے لئے پولیس بڑی مہارت رکھتی ہے۔ پہلا سوال تو لواحقین نے بھی یہی کیا ہے کہ اگر لڑکے نے ناکے پر گاڑی نہیں روکی تھی، تو کیا گولی گاڑی کے ٹائر پر نہیں ماری جاسکتی تھی؟ یہی سوال سب سے اہم اور یہی دلیل سب سے وزنی ہے۔ مگر اور بھی بہت سے سوالات سراٹھا رہے ہیں، کچھ کے جواب مل جائیں گے اور کچھ سوال گیلی لکڑی کی طرح سلگتے رہیں گے، نہ جواب آئے گا، نہ سوال ختم ہونگے۔

پولیس مختلف معاملات میں بدنامیوں کا شکار ہے، اس پر بہت سے الزامات لگانا اپنے معاشرے کی ایک روایت ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عام جرائم پیشہ طبقہ پولیس سے خوفزدہ رہتا ہے۔ عادی مجرم پولیس کی ملی بھگت کے بغیر کچھ بھی نہیں کرتے ، یہی وجہ ہے کہ پولیس اپنے’ دوستوں اور ساتھیوں‘ کو ناکوں وغیرہ پر پریشان بھی نہیں کرتی۔ عام جرائم پیشہ طبقہ جس نے پولیس سے لائن نہیں ملائی ہوتی، وہ پولیس سے کنّی کتراتا ہے، مذکورہ واقعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، رات کے چار بجے کے بعد یہ نوجوان جوڑی سڑکوں پر کیا کر رہی تھی؟ اگر یہ آپس میں رشتہ دار تھے تو انہیں پولیس سے ڈرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، وہ پورے اعتماد سے گاڑی روکتے اور پولیس کو اپنا تعارف پیش کرتے۔ اب انہیں معلوم تھا کہ گاڑی روکیں گے تو پولیس کے دسیوں الجھے ہوئے (کسی حد تک بیہودہ) سوالات کے جوابات دینا پڑیں گے، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پولیس کے سوالات کے جوابات ان کے پاس نہیں ہیں، اسی امتحانی کیفیت میں وہ پولیس کو چکمہ دے کر نکلنا چاہتے تھے۔

لڑکی نے بتایا کہ وہ گزشتہ روز ہی لاہور سے پہنچی تھی، رات مقتول اور اس کے ایک دوست کے ساتھ گزاری، صبح چار بجے سڑکیں ناپ رہے تھے کہ اِس منزل کو پہنچ گئے۔ میڈیا کو یہ بھی بتایا گیا کہ مرنے والا دو بچوں کا باپ ہے اور اس کی ساتھی طلاق یافتہ ہے۔ اور یہ بھی کہ ان کی فیس بک پر دوستی ہوئی تھی۔ ٹی وی چینلز نے بہت سے سوال اٹھائے، تمام سوال ایک ہی سوال کے ارد گرد گھوم رہے تھے، کہ پولیس کو ایسا کرنے کا اختیار کس نے دیا؟ ایک سوال یہ بھی کیا جائے گا کہ یہ دونوں رات کے پچھلے پہر کیا کرتے پھر رہے تھے؟ اس سوال کا یہ جواب بہت شدومد اور غیظ غضب سے آئے گا کہ رات کے آخری پہر ایک مشکوک جوڑے کے پھرنے کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں مار ہی دیا جائے۔ یہ سوال سو فیصد درست ہے، پولیس کے اس اقدام کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، اسے قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے، کسی قسم کی رعایت کا کوئی جواز نہیں۔ اس موقع پر پولیس اپنے روایتی ہتھکنڈوں سے کیس کو خراب کرنے کی کوشش کرے گی، عدالتی نظام پر بات کرنے سے تو ہمارے جیسوں کے پر جلنے لگتے ہیں۔ مگر اپنے چینلز کو کم از کم ان ایشوز پر بھی تو بات کرنی چاہیے، کہ ہمار ا نوجوان کدھر جارہا ہے؟ اس کی منزل کیا ہے؟ اس کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ مقتول دو بچوں کا باپ تھا تو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ وہ کیا انصاف کر رہا تھا؟ ساتھی موصوفہ کس چکر میں طلاق لے آئی اور کس طرح دوسروں کو اپنے جال میں پھانسنا شروع کیا؟ ہمارے مارننگ شوز اور ٹی وی ڈراموں میں نوجوان نسل کو کیا سکھایا جارہا ہے؟ سپریم کورٹ کے آج کے ریمارکس ہیں کہ پسند کی شادی والے چند ماہ بعد ہی اختلافات لے کر عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ پسند کی بھی کچھ حدود ہونی چاہئیں، مادر پدر آزادی اور قانون کو ہاتھ میں لینے سے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473304 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.