تحریر: زیبا عظیم، چشتیاں
انسانی جسم میں جیسے ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت ہے ویسے ایک استاد کی معاشرے میں
اہمیت ہے۔ استاد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب تو ہر کوئی جانتا ہو گا مگر اس
عہدے کے ساتھ انصاف کوئی کوئی کرتا ہو گا۔ استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا
ہے۔ بغیر استاد کے کوئی بھی شاگرد کوئی کام کوئی علم نہیں سیکھ سکتا۔ حضرت
محمد صل اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ تمہارے دنیا میں تین باپ ہیں، ایک
وہ جو تمہیں عدم سے وجود میں لے کر آیا ، ایک وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی
ور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم سکھایا‘‘۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ
’’جس شخص نے تمہیں اک لفظ بھی سکھا دیا ، وہ تمہارا استاد ہے‘‘ ۔
والدین اپنی اولاد کو عدم سے وجود میں لے کر آتے ہیں مگر جب بچے کو درس گاہ
میں بھیجتے ہیں تواستاد ہی ہوتا ہے جو اس کے ہاتھ میں قلم تھما کے سب سے
پہلے اسے قلم پکڑنا سکھاتا ہے۔
امیر المومنین خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے پوچھا گیا کہ
اتنی بڑی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے تو آپ
نے فرمایا کہ ’’کاش میں ایک معلم ہوتا‘‘۔ استاد معاشرے کا وہ ستون ہے کہ جس
کے بل پر معاشرے کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اور اگر یہ ستون کمزور ہونے لگے تو
معاشرے کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔بلاشبہ معلم ایک ایسی شحصیت ہے جو ایک بچے
کو بتاتا ہے کہ وہ کون ہے کیا ہے ؟ کہاں سے آیا ہے؟ اسے کہاں جانا ہے ؟ اس
دنیا میں اس کے آنے کا کیا مقصد ہے؟ اس کا اصلی مالک کون ہے ؟ وہ کس کی
غلامی کاپابند ہے؟ اس کا سر کس کے سامنے جھکنا ہے اور کس کے سامنے سر نگوں
ہوناہے؟۔
شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ’’استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں
کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اورا ن کوملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں
کے سپرد ہے۔ سب محنتوں سے اعلی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے
زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے۔ معلم کا فرض سب
فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی تمدنی اورمذہبی
نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہمہ قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی
محنت ہے‘‘۔
اہل مغرب کا کہنا ہے زندگی کے پہلے 30 سال پڑھو اور پھر اگلے 30سال پڑھاؤ
اور سکھاؤ اسے یہ ’’ریڈ اینڈ لیڈ ‘‘ کا فارمولا کہلاتا ہے۔ استاد معلم اور
طلبہ کے لیے ایک مثال کی مانند ہوتا ہے۔ ا سکول میں آنے والا ہربچہ ایک ان
لکھی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے اور استاد جو کچھ ان کو سکھاتا اور پڑھاتا ہے
وہ اسے عمر بھر نہیں بھول پاتا اور اگر ان کو صحیح نہج اور طرز پر تعلیم دی
گئی ہوتو یہیں باتیں ان کی ترقی کا بہترین زینہ بن جاتی ہیں۔
یہ مثالیں استاد کے مقام اور درجوں کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر
معاشرہ استاد سے کیا چاہتا ہے؟ ایک اچھے استاد کی خوبیوں کے بارے میں
ابراہم لنکن کہتے ہیں کہ ’’استاد وہ ہوتا ہے جو طالب علم کو آئندہ زندگی
میں پیش آنے والے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرے۔ مگر افسوس کے
تعلیم ایک کامیاب کاروبار بن چکی ہے اور استاد کامیاب بزنس مین۔ استاد آج
کل ایک سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ معاشے کے لے استاد کا
کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ پھر مخلوط تعلیمی نظام میں میل فی میل اساتذہ کی
وجہ سے بچوں اور بچیوں کی تعلیم پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مگر آج کل یونیورسٹیوں کی تعلیم اور اساتذہ کا کردار قابل رحم ہو چکا ہے۔
پڑھنے والے اور پڑھانے والے سب اپنے اپنے فرائض کو بھول بیٹھے ہیں۔ تعلیم
ایک فیشن بن چکا ہے۔ اور استاد اسے سجا کے پیش کرتا۔ مجھے جو زاتی کمزوری
جو یونیورسٹی میں نظر آتی وہ ہے وہ یہ ہی کہ اساتذہ کو پتا بھی نہیں چلتا
کہ وہ کہاں کہاں اور کیسے اپنے شاگردوں کے ساتھ ناانصافی کر جاتے ہیں اور
کیسے ان کی تربیت میں کمی چھوڑ جاتے ہیں۔ روزانہ کلاس میں آنا اک عادت بن
گئی ہے اساتذہ کی باقی کوئی دلچسپی نہیں کے کلاس میں بیٹھا شاگرد ہیرا ہے
کے ایک روشن ستارا۔ فیورٹازم حد سے زیادہ۔ جو سچ بولے گا وہ زیادہ نقصان
اٹھائے گا۔حتیٰ کہ شاگردوں کا معیار شکلوں سے کیا جائے گا۔ شکل اچھی نمبر
اچھے۔ یا جو تعریفیں زیادہ کرے گا خود سے بنا بنا کے باتیں کان بھرے گا
فوٹو بنا کے اپ لوڈ کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔
آج کل کے استاد قوم کے معمار کی اس سے بھی زیادہ خوبیاں ہیں میری نظر میں
کہ ظاہر کو دیکھ کر ایک استاد شاگرد کے کردار تک کو جان لیتا اور ایسی غلط
رائے قائم کر دیتا کے اندر بیٹھے کچھ شاگردوں کے لیے تو یہ رائے بالکل غلط
ثابت ہوتی۔ اساتذہ کی آپس میں ذاتی اختلافات سے شاگرد پستے ہیں ایک نے نمبر
زیادہ دیے تو دوسرا چڑ کے کم دے گا۔ سچ اور محنت کا رواج ختم ہو گیا۔ مجھے
اک مرتبہ ایک دوست سے بات کے دوران پتا چلا کے اسے استاد کے پیشے سے ہی
نفرت ہے۔ میں نے اسے سمجھانے کے لیے کئی مثالیں دیں مگر اس کی باتوں نے
مجھے سوچنے پر مجبور کیا کے آخر کیا وجہ کے اس مقدس پیشے سے وہ بدگمان ہے۔
تو سمجھ میں آیا جہاں اساتذہ حسن کو پسند کریں اور حسن والیوں کو نمبر دیں
تو ایسی تعلیم پے اناﷲ وانا الیہ راجعون پڑھ لینا چاہیے۔ اساتذہ سے گزار ش
ہے کہ آپ اپنے سے نا سہی کم از کم اپنے پیشے سے خیانت نہ کریں۔ تعلیم ایسا
شعبہ جس پر کسی قسم کی غیر ذمہ داری ہرگز برداشت نہیں ہونی چاہیے۔ تعلیمی
اداروں میں غیر مہذب الفاظ اور غیر مہذب انداز سے بھی پرہیز کیا جائے۔ اﷲ
تعالیٰ ہمارے بچوں اور بچیوں کو حصول تعلیم میں کامیاب کرے۔ آمین |