ہماری ساتھ کی گلی میں ایک صاحب رہا کرتے
تھے جو آنٹا جی کے نام سے معروف تھے۔ کیا کام کرتے تھے۔ کوئی نہیں جان پایا
ناہی کسی کے پاس اتنا وقت تھا کہ ان کی کھوج کو نکلتا‘ ان کی بیگم اتنی
ملنسار نہ تھی کہ اس کے پاس عورتیں آ کر بیٹھ جاتیں۔ وہ کسی سے کوئی بات ہی
نہ کرتی تھی۔ اگر کوئی عورت اس کے پاس جاتی تو مسکرا کر ملتی۔ آنے والی کی
باتیں سن لیتی لیکن خود ہوں ہاں سے زیادہ بات نہ کرتی۔ محلہ میں کسی عورت
سے ملنے یا اس کے دکھ سکھ میں نہ جاتی۔ ہاں آنٹا جی کوئی مر جاتا تو اس کا
جنازہ ہر صورت میں اٹنڈ کرتے اور بس وہیں سے گھر لوٹ جاتے۔
شام کو گھر آتے اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد بیٹھک میں آ بیٹھ جاتے اور دیر تک
اکیلے ہی بیٹھے رہتے۔ ہاں محلہ کے چھوٹے چھوٹے بچے ان کی بیٹھک میں جمع
رہتے اور وہ ان کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتے ان کے ساتھ خوب موج مستی کرتے۔
جیب میں کھلا رکھتے بلا تفریق بچوں کو پیسے دیتے۔ چھٹی والا دن ان بچوں کے
ساتھ بیٹھک میں گزارتے۔ کسی بچے کو کوئی مارتا تو لڑ پڑتے چاہے اس بچے کا
باپ ہی کیوں نہ ہوتا۔
میں نے غور کیا ایک بچے کے ساتھ وہ خصوصی برتاؤ کرتے۔ وہ بچہ بھی ان کے
ساتھ بڑا مانوس تھا۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ اس بچے کا ناک بہہ رہا تھا
اور وہ اس کا ناک بڑے پیار سے اپنے رومال کے ساتھ صآف کر رہے تھے۔ میں ان
کی بیٹھک میں داخل ہو گیا۔ انہوں نے بڑی اپنایت سے بیٹھنے کو کہا اور
دوبارہ سے اس بچے کا ناک صاف کرنے لگے۔ میں نے پوچھ ہی لیا کہ یہ آپ کا بچہ
ہے۔ انہوں نے میری طرف دیکھنے کی بجائے اس بچے سے پوچھنے لگے تمہاری ماں کو
میں نے دیکھا ہوا ہے۔ بچے نے نفی میں سر ہلایا۔ جب میں نے اس کی ماں کو
دیکھا ہی نہیں تو اس کی کیسے دیکھ لیا۔ پھر میری طرف دیکھا اور کہا نہیں جی
یہ میرا بچہ نہیں ہے۔ مجھے ان کی اس حرکت پر حیرت ہوئی اور میں چپ چاپ اٹھ
کر وہاں سے چلا گیا۔ مجھے ان کی یہ حرکت بڑی عجیب لگی۔ یہ حرکت تھی بھی
عجیب نوعیت کی تھی۔
ایک دن معلوم ہوا آنٹا جی فوت ہو گئے ہیں اور بیٹھک میں ہی ان کی موت ہوئی۔
کیا وہ اندر نہیں سوتے تھے۔ اس روز وہ آنٹی دھاڑیں مار مار کر روئی اور
انہیں اکلاپے کا احساس ہوا۔ وہ ان کی تھی تو بیوی لیکن بیوی کے اطوار نہ
رکھتی تھی۔ وہ اس کا ہر قسم کا خرچہ پانی اٹھائے ہوئے تھے۔
دس بیس سال پہلے منہ میں ڈھائی گز زبان رکھتی تھی۔ اس کا آگا پچھا کوئی بھی
نہ تھا۔ بانجھ بھی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے اسے برداشت کیا ہوا تھا۔ تین
بار طلاق طلاق طلاق کہنے سے ہمیشہ کے لیے خلاصی ہو سکتی تھی۔ وہ ان کی خالہ
کی لے پالک بیٹی تھی۔ ماں نے مرتے وقت بیٹے سے اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم
لی تھی کہ کبھی اور کسی صورت میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ بس آنٹا جی کے
منہ کو تالا لگ گیا اور وہ بیٹھک اور محلہ کے بچوں کے ہو رہے۔ آنٹی اور
آنٹا جی کے درمیان چپ کا معاہدہ ہو گیا تھا۔
اب وہ دروازے کی دہلیز پر بیٹھی رہتی تھی۔ جب بھی کوئی آنٹا جی کا ذکر کرتا
تو زار و قطار رونے لگتی لیکن منہ سے کچھ نہ کہتی۔ بڑی بات ہے کہ اتنا بڑا
سانحہ گزر گیا آنٹا جی ہمیشہ کے لیے چلے گئے پھر بھی اس نے چپ کا معاہدہ نہ
توڑا۔ |