میری نظراچھی نہیں ہے

میری نظراچھی نہیں ہے میں حسن پرست ہوں اور کافی حد تک ہوس پرست بھی۔ یہ اور بات ہے کہ لوگ مجھے شریف سمجھتے ہیں۔ شائد احساس کمتری کا شکار ہوں لوگوں کے سامنے کھل کر بات کرنے کا ٹلینٹ نہیں ہے۔ یا ناقابلیت کو خاموشی کے پردوں میں چھپا کر رکھتا ہوں تاکہ لوگ اصل صورتحال کا اندازہ نہ لگا سکے۔ بہر حال جو بھی ہے۔ بُرا آدمی ہوں ، شرافت کا لبادہ اُوڑا ہوا بُرا انسان۔ یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھیڑ کی کھال میں بھیٹریا ۔ لوگ اکثر میری خاموشی سے دھوکہ کھا جات
میری نظراچھی نہیں ہے میں حسن پرست ہوں اور کافی حد تک ہوس پرست بھی۔ یہ اور بات ہے کہ لوگ مجھے شریف سمجھتے ہیں۔ شائد احساس کمتری کا شکار ہوں لوگوں کے سامنے کھل کر بات کرنے کا ٹلینٹ نہیں ہے۔ یا ناقابلیت کو خاموشی کے پردوں میں چھپا کر رکھتا ہوں تاکہ لوگ اصل صورتحال کا اندازہ نہ لگا سکے۔ بہر حال جو بھی ہے۔ بُرا آدمی ہوں ، شرافت کا لبادہ اُوڑا ہوا بُرا انسان۔ یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھیڑ کی کھال میں بھیٹریا ۔ لوگ اکثر میری خاموشی سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ واقعی بہت شریف النفس انسان ہے ۔ ہاں ایک بات تو سچ ہے کہ میں شریف ہوں ۔ایسا شریف جسے کبھی کوئی اچھا موقع نہ ملا۔ یہ صرف میں نہیں یہاں کی نفسیات ہی کچھ ایسی ہے۔ جس معاشرے میں میں نے آنکھ کھولی اور جن لوگوں کے ساتھ میں پلا بڑھا جن سکولوں میں میں گیا اور جس معاشرے کے بچوں کے ساتھ میری دوستی ہوئی ۔جن اساتذہ سے میرا واسطہ پڑھا ااور مارکیٹ سے سکول تک سکول سے لے کر مدرسے تک اورجہاں جہاں میں گیا اور جن جن لوگوں سے میرا واسطہ بنتا گیا اُن سب سے میں کچھ نہ کچھ سیکھتا گیا۔ سکول میں ٹیچر کی تیکھی نظروں نے بہت کچھ پڑھایا۔ اور ہاں خاص کر میرے کلاس فیلو وہ نیلی آنکھوں والا لڑکا جو سب سے الگ نظر آتا تھا ۔ٹیچر کا اُس کے ساتھ خاص اُنس ہونا ، غلطی پر دوسروں کا واٹ لگانا اور اس نیلی آنکھوں والے لڑکے پر رحم کھا جانااور اسی طر ح کی بہت ساری باتیں وقت کے ساتھ مجھے بہت کچھ سکھاتی گئیں۔۔ محلے کی وہ آنٹی جو تھڑوں پر بیٹھے آنکلوں کی ترچھی نظروں ،کٹتے ہونٹوں اور واہیات مسکراہٹوں سے بچنے کی ناکام کوشش کرتی اور پھراُس کا عجیب مسکراہٹ کے ساتھ نکل پڑنا اور کچھ دور جاکر مڑکر دیکھنا ۔یہ سب چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ مجھے اسی معاشرے کے خمیر میں گوندھنتی گئی۔میں بڑھا ہوتا گیا اور جب مجھے بہت سی باتوں کی سمجھ آنے لگیں، تو پھر اسی معاشرے کا کوئی بزرگ مجھے جھاڑ پلا دیتا یا کوئی آنٹی شرم کی کوئی دوا پلانے کی کوشش کرتی اور پھر اس پر مجھ سمیت میرے ساتھیوں کا قہقہے لگانا یہ سب کچھ اسی معاشرے کی دین تھیں۔ میں کچھ پڑھ گیا اور شہر آگیا یہاں کام کاج کی کوشش کی میرے اندر شرافت پھر سے اُتر آئی تھی۔ مجھے یہ نئے لوگ شریف کہہ رہے تھے۔ اور میں خود کو بھی شریف سمجھتا تھا۔ مجھے بلکل بھی یاد نہں کہ کب میں نے نوٹ کیا کہ میر ے بوس کے نئی لڑکی کے ساتھ کوئی آفیئر ہے۔ فیلڈ میں جاتا تو سب کی نظر پتلی کمرترچھی نظر اور قاتل ادائیں والی اُس لڑکی پر جم جاتی اور سب اُس سے بات کرنے کی کوشش کرتے ۔اور جب یہ جگہ چھوڑ کر نئی جگہ جوائن کیا تو پتا چلا یہاں کے صاب تو خوبصورت لڑکوں پر نظر رکھتے ہیں کچھ عرصہ گزرا تو یہ عقدہ کھلا کہ وہ فاعل نہیں مفعول بننا پسند کرتے ہیں۔ وقت پر لگا کر اُڑتا رہا اور پتا بھی نہ چلا کہ اس نئے معاشرے کے بہاؤ میں پوری تندی کے ساتھ بہہ رہا ہوں ۔ ساتھ رہنے والے ساتھیوں کی صحبت نے مجھے کب متاثر کیا مجھے یاد بھی نہیں۔کئی سالوں بعد پہلی دفعہ کسی نے کہا کہ کچھ تمیز کرو۔ شرم نہیں آتی جیسے مانوس الفاظ دہرا دیے۔ پھر مجھے یاد نہیں کہ کسی نے مجھے شریف کہا ہو۔ میں اسی معاشرے کی آنکھ ہوں میری نظر اسی معاشرے کی نظر ہے ۔ میری نظر خراب ہے تو معاشرے کی نظر خراب ہے ۔میری سوچ اسی معاشرے کی عکاس ہے میری سوچ خراب ہے تو میں نے کہیں اور سے نہیں سیکھا میں نے جو بھی سیکھا یہیں سے سیکھا۔میرے سکھانے والے محلے کی آنٹی خالدہ، سکول ٹیچراختر،دکان دار نظرخان، دودھ والے انکل کریمو،کالج کے فرینڈز شعبی،مانی ،شمی ادارے کے باس اور سارے وہ لوگ ہیں جو میرے آگے پیچھے کسی نہ کسی شکل میں میرے ہمسفر تھے۔ ان سب لوگوں نے مل کر اس معاشرے کوجنم دیا ہے اور پھراسی معاشرے نے میرے جیسے لوگوں کو جنم دیا ہے۔یہ سلسلہ چلتا رہے گا تاآنکہ کوئی رک کر خود کو دیکھے اور اچھے اور برے کا فرق سمجھے اور پھر خود پر اپلائی کرے اور ساتھ والوں کو اپنے ہمرکاب بنانے کی کوشش کرے پھر شائد ہم سب ٹھیک ہوجائیں ۔اور ہماری وجہ سے ہمارا حلقہ اثر ٹھیک ہوجائے پھر اُن کی وجہ سے اُن کا حلقہ اثر ٹھیک ہوجائے اور اسی طرح کسی نہ کسی دن سارا معاشرہ ٹھیک ہوجائے ۔مجھے یقین ہے ٹھیک ہوجائے گا۔ البتہ ٹھیک ہوتے ہوتے وقت ضرور لگ جائے گا۔ ہماری اجتماعی پہچان میں انفرادی کارکردگیوں کا بڑا حصہ ہے ہم روز روز یہ جھگڑے لڑائیاں دیکھتے ہیں۔ پریشان حال لوگوں کی باتیں سننے ہیں۔ بھیک مانگنے والوں کی صدائیں سننے ہیں۔ دوسری طرف نااہل حکمرانوں کے جھوٹے وعدے اور بلند بانگ دعوے سننے ہیں۔ ہم انہی حکمرانوں کو چور ،غدار اور ملک دشمن کہتے ہیں اور پھر انہی لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں پھر پانچ سالوں کے لیے گالیاں دینا کا بندوبست کرلیتے ہیں۔ یہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے ہمیں ان چیزوں کی عادت پڑ چکی ہے۔صرف ایک چھوٹی سی چیز ہم سب کو بدلنے کے لئے کافی ہے وہ یہ کہ ہم خود کو بدلنے کی کوشش کریں۔ اپنے معمولات میں مثبت تبدیلیاں کریں۔ کیونکہ ہم ایک ایک بندوں سے اس پورے معاشرے کا سسٹم وجود میںآتا ہے اگر ہم نے انفرادی طور پر خود کو بدلنے کا عزم کرلیا تو سمجھ لیں ۔ ہمارا ملک کا نظام بدلے گا۔ معاشرہ بدلے گا اور پھر ہماری تقدیر بدلے گی۔ پھر کسی کے پاس کہاں ٹائم ہوگا کہ کسی کی نظر جھانچتے رہیں۔پھر سب کچھ ٹھیک ہوگا سب کچھ ٹھیک لگے گا۔ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں اسی لیے ہم ان چیزوں کی طرف چلے آتے ہیں جو اس معاشرے اور قوم کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔
habib ganchvi
About the Author: habib ganchvi Read More Articles by habib ganchvi: 23 Articles with 21400 views i am a media practitioner. and working in electronic media . i love to write on current affairs and social issues.. .. View More