میڈیا
کو جو مچھر دکھائی دیتا ہے وہ اسے ہاتھی بنا کر پیش کرتا ہے اور اپنا
مصالحہ بیچتا ہے ۔ سو دو سو لوگ سڑک پر جمع ہو کر چند ٹائر جلائیں یا کسی
حکمران کے خلاف بدتمیزی کا شاندار مظاہر ہ پیش کریں تو ٹی وی چینلز پر لال
پھٹے چلیں گے اور پھولی سانس والے رپورٹرز گھنٹوں چند فقرے دہر ا دہرا کرآپ
کا فشار خون بلند کریں گے ۔لیکن دل اس وقت دکھی ہوتا ہے کہ اگر ہزاروں
افراد جمع ہوکر علم کی بات کریں ، امن کی بات کریں ، آشتی کی بات کریں ،
بین المذاہب ہم آہنگی کی بات کریں ، انسانیت کی بات کریں ،مل جل کر ایک
دوسرے کے ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کا درد بانٹنے کی بات کریں تو میڈیا کے
لئے یہ ایسی کوئی بات نہیں ، نہ کوئی ٹی وی نہ کوئی اخبار یہ زحمت کرتا ہے
کہ معاشرے میں پنپنے والی کسی خیر کا ذکر کیا جائے ۔ ایک چوتھائی صدی ہونے
کو آئی ہے ،تئیس برس پہلے کراچی میں ایک علمی سرگرمی کا ڈول ڈالا گیا ۔
سلسلہ عظیمیہ کے سربراہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے پاکستان اور بیرون
ملک سے چند افراد کو جمع کیا اور ایک تربیتی ورکشاپ کا آغاز کیا۔ قرآن کی
کوئی آیت،کوئی حدیث یا کسی سماجی مسئلے پر تفکر کیا جاتا ہے اور اس بات کی
سعی کی جاتی ہے کہ قرآن یا حدیث میں کہی گئی بات کہ اہمیت کیا ہے ؟کیونکر
خالق کائنات نے اپنی آخری الہامی کتاب کیلئے اس موضوع کو منتخب کیا؟اﷲ کے
آخری نبی ﷺنے کیونکرکسی مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے یا معاشرے میں اگر کوئی
منفی رویہ رواج پا رہا ہے تو اسے روکنے کے لئے کون سی کوششیں انفرادی اور
اجتماعی سطح پر کی جانی چاہئیں ؟۔
دیے سے دیا جلتا ہے ،چند ہاتھوں نے جو بیج بویا تھا آج وہ تناور درخت بن
چکا ۔دنیا کے کونے کونے سے ہر برس ہزاروں کی تعداد میں اﷲ کی مخلوق کشاں
کشاں چلی آتی ہے اور ایک مرد قلندر ان کی توجہ ایک نقطے پر مرکوز کردیتا ہے
۔ ـ’’صوفیا کا روحانی ورثہ (علم) اور اس کے حصول کے تقاضے‘‘ یہ موضوع تھااس
برس ہونے والی ورکشاپ کا ۔ موضو ع سن کر تو شائد آپ بھی سرکجھانے لگیں کہ
فیس بک، واٹس ایپ،ٹوئٹر اور گوگل کے ترقی یافتہ دور میں سینکڑوں ہزاروں برس
پہلے دنیا چھوڑ جانے والے صوفیا کے پاس کون سا علم تھاجس کے حصول کے تقاضے
پورے کئے جانے ضروری ہیں ؟شائد آپ کا تعجب درست ہو۔لیکن جب ایک کمپیوٹر
سائنس کا ماہر، مینجمنٹ سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والایاسماجی سائنس کا
سکالراسی معاشرے میں نام نہاد پیروں اور اونچے منبر پر بیٹھ کر کافر کافر
کے نعرے لگانے والوں سے بیزار ہوتا ہے تو اسے بہت جلد یہ بات سمجھ میں
آجاتی ہے کہ صوفیا کا معاشرے میں کردا ر کیا ہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ
صوفیا نے کوئی مشین ایجاد نہیں کی ، کوئی میزائل نہیں بنایا، کوئی ایٹم بم
بنانے میں کامیا ب نہیں ہو سکے ، کوئی ہوائی یا بحری جہاز نہیں بنایا ،
اونچی اونچی عمارتیں تعمیر نہیں کیں لیکن پھر کیا وجہ تھی کہ تاریخ میں
انمٹ نقوش چھوڑنے والے بادشاہ بھی ننگے پیر ان صوفیا کی بارگاہ میں حاضر
ہونے کو باعث افتخار سمجھتے تھے۔اس لئے کہ ان لوگوں کے پاس وہ سائنس ہے جو
انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے،ان لوگوں کے پاس وہ فارمولے ہیں،وہ سوچ
ہے جو ان ساری ایجادات کے لئے اورمعاشرے میں ان کے مثبت استعمال کے لئے
کارآمد ہیں ۔ ایٹم کی طاقت سے انکار ممکن نہیں ، لیکن ایک صوفی یا اﷲ والا
سائنسدان سے یہ امید قائم کرتا ہے کہ وہ ایٹم کی اس طاقت کو تباہی کا
ہتھیار بنانے میں استعمال کرنے کی بجائے بجلی کی پیداوارجیسے تعمیری پہلو
سے استعمال کرے،ایٹم بم سے تباہی پھیلانے کی بجائے معاشرے میں پھیلی
بیماریوں ، بیروزگاری اور اس جیسے دوسرے مسائل کے حل کے لئے استعمال
کرے۔ایک اﷲ والا یہ بھی چاہتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بدولت فلک بوس عمارتیں
اور طویل و عریض شاہراہیں ضرور تعمیر کی جائیں لیکن صرف اس لئے نہیں کہ اس
پر چند دولت مندوں کا راج ہو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ان منصوبوں میں معاشرے کے
غریب افراد کو بھی شامل کیا جائے ۔ اﷲ والے دولت کمانے کو یا خود دولت کو
کبھی ناپسندنہیں کرتے کہ یہ اﷲ کی ایک نعمت ہے لیکن دولت پرستی کو شرک ضرور
جانتے ہیں کہ اس بیماری سے انسان اپنی اصل اور اپنے خالق سے دور ہو جاتا ہے
۔
دنیا لیکن اچھے لوگوں سے کبھی بھی خالی نہیں رہی،آج بھی خیر کی بات کہنے ،
سماج میں اچھائی کا پرچار کرنے والے اور خونی انقلا ب کی بجائے انسان کے
اندر سے پھوٹنے والے ایک ایسے انقلاب پر یقین رکھنے والے موجود ہیں جو
انسان کو حقیقی خوشی سے ہمکنار کرے ۔ تئیس برس کے سفر کے بعدمراقبہ ہال
کراچی میں منعقد ہونے والی یہ ورکشاپ آج اس قدر مقبول ہے کہ دنیا بھر سے
مردو خواتین اپنے خرچ پر سفر کر کے ہر برس اس میں شریک ہوتے ہیں ، ورکشاپ
کا خرچ خود برداشت کرتے ہیں اورکسی این جی اویا حکومت کی طرف نہیں دیکھتے ،
مذہب یا سماج کی قید کے بغیرخالصتاََ انسانیت کی بنیاد پر ہونے والا ایسا
کوئی اور علمی اجتماع میں نے پاکستان میں نہیں دیکھا ۔پاکستان کے علاوہ ،
بھارت، خلیجی ممالک ،امریکہ ،کینیڈا، برطانیہ ،یورپ ، روس، تھائی لینڈ اور
معلوم نہیں کہاں کہاں سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ بڑی تعدا دمیں غیر مسلم
بھی حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس اجتماع میں شریک ہوتے ہیں
کہ یہاں انہیں ایک انسان کی سی محبت ملتی ہے اور ان کے مذہب کو پھٹکارے
بغیر انہیں ان کی روح سے آشنا کرانے کے لئے تعلیم دی جاتی ہے ۔ سوات کی
سندروادی کا سندر سنگھ،دلیپ کمار،کلدیپ کمار، اندرون سندھ کا اجیت کمار،جے
پرکاش ، متحدہ عرب امارات کی بھارتی نژاد انورادھا، روس کی الیکٹرک انجینئر
سونیا ٹپ لک سکایا،کمال کی دھنیں ترتیب دینے والا ولیری بوگائیو، لینا
سترووا،میخائل بلیا کوف، یولیاکنازیوا،مسز تانیا ایفی مویا،سرغئی
زغاروف،آلا بوگائیواور تاتار نسل سے تعلق رکھنے والی نادیہ ابراچی مووا
ایسی چند مثالیں ہیں جن کی روحیں برسوں سے محبت کے اس بندھن میں بندھی ہیں
جس میں ایک اﷲ والے نے باندھا تھا۔ عجیب واقع یہ ہوا کہ ورکشاپ سے پہلی رات
کراچی میں گھٹا اس زور سے برسی کی جل تھل ہو گیا۔ورکشاپ کے پنڈا ل میں پانی
جمع ہو گیا اور وہاں ورکشاپ کا انعقاد ممکن نہ رہا۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
کی انتظامی صلاحیتیں بروئے کار آئیں ، جو روحانی ڈائجسٹ کے ایڈیٹر ہیں ،اے
پی این ایس کے اعلیٰ عہدیدار اور ورکشاپ کے منتظم اعلیٰ بھی ، راتوں رات
فیصلہ ہوا اور فجر کے بعد رضاکاروں نے وسیع عریض مسجد کے فرش کو نرم
قالینوں سے ڈھانپ دیا۔ کسی تاخیر اور بے نظمی کے بغیر وقت مقررہ پر تمام
شرکاء مسجد میں جمع ہوئے اور پھر ساراد ن یہ علمی گفتگو جاری رہی ۔ خانہ
خدا میں مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا یہ محبت بھرا
اجتماع دیکھ کر مجھے مسجد نبوی کی یادآئی جہاں رسول اﷲ ﷺنے عیسائیوں کے ایک
وفد کو عبادت کی اجازت دی تھی ۔
ورکشاپ کے کچھ شرکا سے بات چیت کے بعدمیں ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کے ساتھ
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی خدمت میں حاضر ہوا ، ایک ملکوتی مسکراہٹ اور
محبت کے ساتھ انہوں نے استقبال کیا۔ میں نے عظیمی صاحب سے پوچھا اس ورکشاپ
کی ضرورت کیونکرپیش آئی ؟فرمایا اس ورکشاپ کا آغاز ہم نے برطانیہ کے شہر
مانچسٹر سے کیا تھا مقصد اس کا یہ تھا کہ انسان کو یہ باور کرایا جائے کہ
مادی خوشحالی کے باوجود وہ پریشانی میں کیوں مبتلا ہے ۔اس پریشانی کی وجہ
یہ ہے کہ مادہ پرستی کے اس دو رمیں انسان کا اپنے خالق سے رشتہ انتہائی
کمزور ہو چکا ہے ۔ سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایک بٹن دبا کر آپ لاکھوں
انسانوں کو ایک لمحے میں لقمہ اجل بنا سکتے ہیں لیکن اس ترقی اور پیسے کی
ریل پیل نے انسان کا سکون ختم کردیا ہے ۔ ہمارامقصد یہ ہرگز نہیں کہ دنیاوی
تعلیم حاصل نہ کی جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا
علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین جانا پڑے، تو کیا چین ہم اردو سیکھنے جائیں گے
؟مقصد یہ ہے کہ دنیاوی تعلیم اور مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان اﷲ کی طرف
سے عطا کردہ تسخیر کائنات کے فارمولوں کی کتاب قرآن کو صرف پڑھے نہیں بلکہ
سمجھ بھی لے ، جس میں جا بجا کائنات میں تفکر کا حکم دیا گیا ہے ۔جس دن
انسان قرآن میں مخفی علوم کو حاصل کر لے گا وہ یہ جان لے گا کہ اس کا باقی
مخلوق اور اپنے خالق سے رشتہ کیا ہے یہ بات سمجھنے کے بعد انسان مادی ترقی
و خوشحالی کے ساتھ ساتھ باہمی روحانی تعلق کو بھی سمجھے گا اور وہ انسان جو
اس تعلق اور رشتے کو سمجھ لے گا وہ کبھی پریشان نہیں ہوگا بلکہ دوسرے
انسانوں میں خوشیاں بانٹنے کے قابل بن جائے گا۔ |