عذاب تو قانون شریعت کی خلاف
ورزی کا نتیجہ ہے۔ خدا کسی کو عذاب دینے میں راضی نہیں۔ عذاب دینا خدا کی
مستقل صفات میں داخل نہیں۔ وہ تو صرف انسان کے گناہوں اور نافرمانیوں کے
عوض دیا جاتا ہے۔ اگر آدمی سر کشی چھوڑ دیں، تو بطور تقاضائے صفاتِ الہیہ
کوئی عذاب لوگوں کے لئے نہیں ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ تم کو خوامخواہ کا عذاب دے۔ اگر تم
مومن اور شکر گزار ہو۔ اس کی صفات تو شاکر اور علیم ہیں نہ کہ معذب اور
موذی۔( النساء 148)
خدا کی بے بہا نعمتوں عنایتوں اس کی رحمتوں کے علاوہ خدا کا عذاب دینا بھی
اس لئے ضروری ہے کہ جس طرح ایک مالی پھل دار درختوں کی حفاظت کرتا ہے اور
اس کو نقصان پہنچانے والی جڑی بوٹیوں کو تلف کرتا ہے ایسا ہی کام (یعنی
عذاب دینا ) خدا کے بڑے پلان کے ماتحت ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی
قوم اپنی نافرمانی’ سرکشی اور گناہوں کے ارتکاب میں حد سے گزر جاتی ہے۔
’بار بار تنبیہ کے باوجود ظلم و عصیاں میں بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور اللہ
تعالیٰ اپنے غیب کی بناء پر دیکھ لیتا ہے کہ اب مستقبل میں اس کے سدھرنے کا
قطعاً امکان نہیں تو وہ اسے زلزلوں‘ سیلابوں‘ مہلک اور تباہ کن بیماریوں یا
جابر و سفاک سلاطین کے ذریعہ پکڑ لیتا ہے۔ عذاب اس لئے بھی ہیں باقی بچ
جانے والے عبرت حاصل کریں توبہ کریں آسمانی تعلیم کی پیروی کے ذریعہ ہدایت
پائیں۔ جس ملک میں( بالخصوص کراچی میں ) پاکستان میں خوف خدا کے فقدان نے
ابن آدم خدائی خدائی کر رہا ہے ابن آدم کے ہاتھوں خون کی ارزانی ہے۔ مذہبی‘
لسانی اور سیاسی اختلافات کی بناء پر ایک دوسرے کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ
جاری ہے۔ مساجد امام بارگاہوں کو بمبوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اور خود
مسلمان ‘ مسلمان کی گردن زدنی کر رہا ہے۔ اس کی مثال داتا دربار پر انتہائی
افسوس دہشت گردی کا حملہ ہے۔ اور بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں امریکہ دشمنی
کے ردعمل میں ریاست کے خلاف دہشت گردی کی کھل کر مذمت کرنے کی بجائے دہشت
گردی کے جواز تلاش کر رہی ہیں۔ پاک سرمین پر شب روز بے گناہ شہری دہشت گردی
کا نشانہ بن رہے۔
ابن آدم کے انسانیت کش اقدام نے سرزمین پاک پر اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت
دی ہوئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جگہ قسم قسم مصائب و آلام قیامت خیز
بارشوں ‘ سیلابوں کی پیدا کردہ عبرت ناک تباہی بربادی کے سامان نازل ہورہے
ہیں۔ یہ سب کچھ ابن آدم کے پیدا کردہ ہیں ۔ خداتعالیٰ اس کا ذمہ دار نہیں
ہے۔ یہ مصائب و آلام اور بلاؤں کے نزول انسانوں کی بداعمالیوں کی پاداش ہیں
پھر ابن آدم کا خدا سے اس کا گلہ کرنا‘ کیونکر درست قرار دیا جاسکتا۔ “
غور طلب بات ہے کہ پہلے کی اقوام جن پر اللہ عزوجل کا غیظ و غضب نازل ہوا
اور جن کو اللہ نے عبرت کی مثال بنا کر پیش کیا ان میں سے کوئی کسی مخصوص
دن شکار کے نتیجے میں ہلاک ہوئے کوئی کم تولنے پر کوئی ازلام پرستی پر۔
ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں کون سا ایسا کام نہیں ہو رہا جس
پر اللہ چاہے تو زمین الٹ پلٹ کر ہمیں کوئی ایک عذاب نہیں بلکہ عذابوں کا
کوئی مکمل پیکچ دے دے۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے اعمال میں بہتری پیدا فرمائے اور ہمیں
ہدایت نصیب فرمائے تاکہ ہمیں حکمران بھی ہدایت یافتہ ہی مل سکیں کیونکہ
جیسی قوم ہوتی ہے ویسے ہی اس کے حکمران ہوتے ہیں۔
آپ کی دعاؤں کا طالب
محمد فرقان |