اللہ عزوجل کی آزمائش یا تنبیہ کا تسلسل - سیلاب ٣

فرعون اور فرعونی گروہ کے لئے یہی پانی عذاب الٰہی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اور حضرت موسیٰ کے تعلق میں ہی پانی کے رحمت بننے کی ایک عملی مثال موجود ہے۔ جس پانی نے فرعون اور اس کے لشکر کو بے شمار وسائل کے باوجود دریائے نیل میں غرق مغلوب کیا۔ وہ پانی جب رحمت بنا تو ایک دودھ پیتے بچے ( حضرت موسیٰ علیہ اسلام) کو ایک کمزور لکڑی کے صندوق میں اپنی لہروں پر بہائے ہوئے خطرے کی جگہ سے امن کے مقام پر لے گیا۔ اور ہلاکت کی بجائے نجات کا مؤجب بنا۔ کیونکہ اس بچہ نے بعد ازاں بڑے ہو کر نبوت کا دعویٰ کرنا تھا اور خدا کے عظیم الشان پیغمبر کے طور پر دنیا میں ظاہر ہونا تھا۔ لیکن دعوی ٰ نبوت کے بعد جب موسیٰ علیہ اسلام کا مقابلہ فرعون انتہائی طاقتور دشمن سے ہوا تو یہی پانی انتہائی طاقتور دشمن کو اپنے قومی وسائل کے باوجود خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ اہل بصیرت کیلئے اس میں فکروتدبر کے سامان موجود ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں قوم نوح پر مسلسل شدید بارشوں اور زمین کے پانی کی سطح بلند ہونا اور اس کے نتیجہ میں ایک ہولناک عذاب کا سورة القمر آیت 13تا11میں بجز مومنوں کے قوم نوح کی سیلاب میں غرقابی کا ذکر ہے۔ نوح کی دعا کہ میری قوم نے مجھے مغوب کرلیا ہے پس میرا بدلہ تو لے۔ فرمایا جس پر ہم نے بادل کے دروازے ایک جوش سے بہنے والے پانی کے ذریعہ کھول دئے اور زمین میں بھی ہم نے چشمے پھوڑ دئے پس آسمان کا پانی ( زمین کے پانی کے ساتھ ) ایک ایسی بات کے لئے اکٹھا ہو گیا جس کا فیصلہ ہو چکا تھا ۔”اس پانی کے طوفان سیلاب میں قوم نوح کی غرقابی ہوئی مگر اسی پانی نے نوح اور ان کے پیروکار قبل از وقت ان کی تیار کردہ کشتی نوح کے ذریعہ امن کی جگہ پر پہنچا دیا۔ اور پھر قرآن کریم میں سرکش قوموں پر عذابوں کے ذکر میں قوم لوط کے بارے فرمایا کہ ایک موعود عذاب نے قوم لوط کو دن چڑھتے ہی پکڑ لیا جس پر ہم نے اس بستی کی اوپر کی سطح کو نچلی کی سطح کردیا اور ان پر سنگریزوں کی سے بنے ہوئے پتھروں کی بارش برسائی ۔( سورة الحجرات 74.75 )اور پھر عاد کی قوم کی بداعمالیوں سر کشیوں اور انکار کی پاداش میں عذاب کا ذکر ہے۔ یعنی ہم نے ایک ایسی ہوا بھیجی جو تیز چلنے والی تھی اور ایک دیر تک رہنے والے منحوس وقت میں چلائی گئی تھی۔ وہ لوگوں کو اکھیڑ پھینکتی تھی گویا وہ کھجور کے ایسے تنے ہیں جن کے اندر کا گودا کھایا ہوا ہے۔ ( سورة القمر 19.21 )۔

پس دنیا کا کوئی لامذہب بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہر نبی اپنے دعویٰ کے وقت کمزور ہی نہیں بلکہ اہل دنیا کو اتنا نظر آتا ہے کہ اس کا ہونا یا نہ ہونا گویا ان کے نزدیک برابر ہوتا ہے آدم سے لیکر حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تک بلااستثناء ہمیشہ یہی کہانی دوہرائی گئی۔ اس کے برعکس اس کے مخالفین کو ہر پہلو سے اس پر مکمل دنیاوی فوقیت حاصل تھی کیا بلحاظ تعداد، بلحاظ مال دولت، کیا بلحاظ سیاسی قوت اور کیا بلحاظ اسباب جنگ، ہر پہلو سے نبوت کے دعویدار کے مقابل پر اس کے دشمن اتنے طاقتور قوی تھے کہ وہ باآسانی انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو ہلاک کر دینے کی پوری طاقت رکھتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو غالب کیا اور اس کے مقابل بلآخر یہ مادی طاقتیں خس وخا شاک کی طرح بہہ کر رہ گئیں۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532838 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.