دعاء مانگنے کے فضائل و آداب

’’دعاء‘‘ بندۂ مؤمن کا ہتھیار ، عبادت کا لب لباب اور بندگی کا نچوڑ ہے۔ جب تمام ظاہری سہارے جواب دے جاتے ہیں ، توقعات کے روزن بند ہوجاتے ہیں اور امیدوں کے دریچے مقفل ہوجاتے ہیں تو اس وقت بندۂ مؤمن کے پاس ایک ’’دعاء‘‘ ہی کی قندیل باقی رہ جاتی ہے ، جس کی روشنی لئے وہ اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں جاتا ہے ، لجاجت کے ساتھ گڑگڑاتا ہے ، اس کے والہانہ نالے پھوٹتے ہیں ، آہیں بلند ہوتی ہیں ، اشکیں رواں ہوتی ہیں ، نوائیں اٹھتی ہیں ، وہ ڈرتا بھی ہے اور مانگتا بھی ہے ، کپکپاتا بھی ہے اور پکارتا بھی ہے ، بلاشبہ! شکستگی کی یہی ایک ادا بندگی کی معراج ، خالق و مخلوق کے درمیان عجز و نیاز اور نصرت خداوندی کی وصول یابی کا مؤثر ترین ذریعہ ہے ۔ حدیث قدسی ہے ، اﷲ تعالیٰ خود فرماتے ہیں: ’’میں ٹوٹے دلوں کے ساتھ ہوں ۔‘‘

اسی وجہ سے علماء نے لکھا ہے کہ : ’’ دعاء‘‘ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات سے مانگنی چاہیے اس کے علاوہ کسی اور سے نہیں مانگنی چاہیے ، اس لئے کہ حدیث شریف میں ’’دعاء‘‘ کو عبادت کا مغز کہا گیا ہے اور عبادت کی مستحق تن تنہا اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات مبارک ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ترجمہ: اسی ( اﷲ)کو پکارنا برحق ہے ۔ اور یہ لوگ اس کو چھوڑ کر جن ہستیوں کو پکارتے ہیں وہ ان کی ’’دعاؤں‘‘ کا کوئی جواب نہیں دے سکتے ۔ ان کو پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا کر چاہے کہ پانی (دور ہی سے ) اس کے منہ میں آپہنچے ، حالاں کہ پانی اس تک کبھی نہیں پہنچ سکتا ، بس! اسی طرح کافروں کی دعائیں بے نتیجہ بھٹکتی رہتی ہیں۔‘‘( سورۃ الرعد : ۱۴)

بلاشبہ ! حاجت روائی اور مشکل کشائی کے جملہ اختیارات اﷲ تعالیٰ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہیں ، اس کے سوا مخلوق میں سے کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ، سب اسی کے محتاج ہیں اور وہ اکیلا غنی بادشاہ ہے۔

حدیث پاک میں آتا ہے ، حضور اکرمؐنے ارشادفرمایا کہ : ’’ آدمی کو اپنے تمام تر ضرورتیں اور حاجتیں اﷲ تعالیٰ ہی سے مانگنی چاہئیں ، یہاں تک کہ اگر جوتی کا تسمہ ( جوکہ ایک معمولی قسم کی چیز ہے ) ٹوٹ جائے تو وہ بھی اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات سے مانگے اور اگر ( کبھی) نمک ( وغیرہ جیسی ہلکی چیز) کی بھی ضرورت پڑجائے تو وہ بھی اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات سے مانگے ۔‘‘ (ترمذی)

ایک دوسری حدیث میں آتا ہے، نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’ سب سے بڑا عاجز وہ ہے جو ’’دعاء‘‘ کرنے میں عاجزی اختیار کرنے والا ہے۔‘‘( طبرانی)

ایک اور حدیث میں آتا ہے، نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ’’دعاء‘‘ سے زیادہ عزت و اکرام والی چیز کوئی اور نہیں ہے۔‘‘ ( ترمذی)

ایک اور جگہ آتا ہے ، نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’ جو شخص اﷲ تعالیٰ سے ’’دعاء‘‘ نہیں مانگتا تو اﷲ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتے ہیں۔‘‘ ( ترمذی)

’’دعاء‘‘ مانگنے کے آداب میں سے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات سے وہی کچھ مانگنا چاہیے جو حلال اور طیب (پاکیزہ) ہو ، ناجائز مقاصد اور گناہوں کے کاموں کے لئے اﷲ تعالیٰ کے حضور ہاتھ پھیلانا اور اﷲ تعالیٰ کی ذات سے کچھ مانگنا انتہائی درجہ کی بے ادبی اور گستاخی ہے ۔ بلکہ حرام اور ناجائز مرادوں کے پورا ہونے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی ذات سے دعائیں مانگنا اور منتیں ماننا دین اسلام کے ساتھ ایک بدترین قسم کا مذاق بھی ہے۔

اسی طرح ان باتوں کے لئے بھی ’’دعاء‘‘ نہیں مانگنی چاہیے جو اﷲ تعالیٰ نے ازلی طور پر طے فرمادی ہیں اور ان میں اب کوئی تبدیلی ممکن نہیں ، مثلاً کسی پستہ قد انسان کا اﷲ تعالیٰ سے یہ ’’دعاء‘‘ کرنا کہ ’’یا اﷲ! میرا قد لمبا کردے ۔‘‘ یا کسی دراز قد انسان کا اﷲ تعالیٰ سے یہ’’دعاء‘‘کرنا کہ ’’یا اﷲ! میرا قد چھوٹا کردے۔‘‘ یا مثلاً کوئی جوان شخص اﷲ تعالیٰ سے یہ ’’دعاء‘‘ کرے کہ ’’یا اﷲ! میں ہمیشہ جوان رہوں اور میرے اوپر کبھی بڑھاپا نہ آئے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔اس قسم کی دعائیں ہر گز نہیں مانگنی چاہئیں۔

’’دعاء‘‘پوری توجہ ، انہماک ،یکسوئی ، گہرے اخلاص ، پاکیزہ نیت اور پورے حضورِ قلب کے ساتھ مانگنی چاہیے اور اس یقین کے ساتھ مانگنی چاہیے کہ جس ذات پاک سے میں ’’دعاء‘‘ مانگ رہا ہوں وہ ذات میرے تمام حالات کا پورا پورا علم رکھتی ہے اور وہ مجھ پر بے حد مہربان ہے ۔

’’دعاء‘‘ مانگتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سے نیک اور اچھی امید رکھنی چاہیے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس شخص کی ’’دعاء‘‘ در حقیقت ’’دعاء‘‘ ہی نہیں کہلاتی جو ’’دعاء‘‘ مانگتے وقت غفلت و لاپرواہی اور لااُبالی پن کا مظاہرہ کررہا ہو، اور محض نوکِ زبان سے چند دعائیہ کلمات بے دلی کے ساتھ ادا کر رہا ہو اور اﷲ تعالیٰ سے اس نے نیک اور اچھا گمان نہ رکھا ہو۔‘‘چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ : ’’تم (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی ’’دعاؤں‘‘ کے قبول ہونے کا یقین رکھتے ( حضورِ قلب) سے ’’دعاء‘‘ مانگا کرو ، اﷲ تعالیٰ ایسی ’’دعاء‘‘ قبول نہیں فرماتے جو غافل اور لاپرواہ دل سے نکلی ہو۔‘‘ ( ترمذی)

’’دعاء‘‘ انتہائی عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ مانگنی چاہیے کہ ’’دعاء‘‘ مانگتے وقت بندہ ٔ مؤمن کا دل اﷲ تعالیٰ کی ہیبت و عظمت اور اس کے کبر و جلال سے لرز رہا ہو اور جسم کی ظاہری حالت پر بھی اﷲ تعالیٰ کی ذات کا خو ف خوب اچھی طرح ظاہر ہورہا ہو ، سر اور نگاہیں نیچے کی طرف جھکی ہوئی ہوں ، آواز پست ہو ، اعضاء ڈھیلے پڑے ہوئے ہوں ، آنکھیں پر نم ہوں اور تمام انداز و اطوار سے عجز و مسکنت ٹپک رہی ہو۔ نبی کریم ؐ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے دوران اپنی ڈاڑھی کے بالوں سے کھیل رہا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ : ’’ اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی اس کا اثر (ضرور) نظر آتا ۔‘‘( الحدیث)

در اصل ’’دعاء‘‘ مانگتے وقت بندۂ مؤمن کو یہ تصور کرلینا چاہیے کہ میں ایک درماندہ فقیر ہوں ، ایک بے نوا مسکین ہوں ، خدا نخواستہ اگر میں اس در سے ٹھکرادیا گیا تو پھر میرے لئے اس کے علاوہ کوئی ملجا و مأویٰ اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا ۔میرے پاس اپنا کچھ نہیں ہے ، جو کچھ ہے سب اﷲ تعالیٰ ہی کا عطا کیا ہوا ہے ، اگر اﷲ تعالیٰ مجھے نہ دیتے تو دنیا میں کون ہے جو مجھے یہ سب کچھ عطا کرتا؟۔

عبدیت کی شان ہی یہی ہے کہ ’’دعاء‘‘ مانگتے وقت بندہ اپنے پروردگار کو اس طرح نہایت عاجزی اور مسکنت کے ساتھ گڑگڑا کر پکارے کہ اس کا دل و دماغ ، اس کے جذبات و احساسات اور اس کے تمام تر اعضاء و جوارح اﷲ تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے ہوں اور اس کے ظاہر و باطن کی پوری کیفیت سے عاجزی و انکساری اور فقر و مسکنت ٹپک رہی ہو۔

’’دعاء‘‘ انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ چپکے چپکے اور دھیمی آواز سے مانگنی چاہیے تاکہ یہ آہ و زاری نام و نمود اور دکھلاوہ و نمائش کا سبب نہ بن جائے ، البتہ بعض اوقات اونچی اور بلند آواز سے بھی ’’دعاء‘‘ مانگی جاسکتی ہے ، لیکن ایسا یا تو تنہائی میں کرنا چاہیے یا پھر جب اجتماعی ’’دعاء‘‘ کرانی ہو تو اس وقت بلند آواز سے ’’دعاء‘‘ مانگی جائے تاکہ دوسرے لوگ آپ کی ’’دعاء‘‘ سن کر اس پر آمین کہہ سکیں ۔

’’دعاء‘‘ کی ابتدا اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور حضور پاکؐ پر درود و سلام بھیجنے کے ساتھ کرنی چاہیے ۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ : ’’ جب کسی شخص کو اﷲ تعالیٰ سے یا کسی انسان سے ضرورت و حاجت پوری کرنے کا معاملہ درپیش آئے تو اس کو چاہیے کہ پہلے وضوء کرکے دو رکعت نماز نفل ادا کرے ، اس کے بعد اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے اور مجھ پر درورد و سلام بھیجے اور پھر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجت کو بیان کرے۔‘‘( ترمذی)

حضرت فضالہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرمؐ مسجد میں تشریف فرماتھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اور نماز کے بعد یہ ’’دعا‘‘ مانگی : ’’ترجمہ:’’ اے اﷲ! مجھے بخش دے!۔‘‘ اور بس! آپؐ نے جب یہ سنا تو اس سے فرمایا کہ : ’’ دعاء‘‘ مانگنے میں تم نے (بہت) جلد بازی سے کام لیا ؟ جب نماز پڑھ چکو تو پہلے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کیا کرو ، اس کے بعد مجھ پر درود شریف پڑھا کرو اور پھر اس کے بعد (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی ’’دعاء‘‘ مانگا کرو ۔‘‘ ابھی آپؐ یہ فرما ہی رہے تھے کہ ایک دوسرا شخص آیا ، اس نے نماز پڑھی اور نماز پڑھ کر پہلے اس نے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی ، اس کے بعد درود شریف پڑھا ، نبی کریم ؐ نے ( اس سے ) فرمایا کہ اب ’’دعاء ‘‘ مانگو! تمہاری ’’دعاء‘‘ قبول ہوگی۔‘‘ ( ترمذی)

ویسے تو ہر وقت ہر آن اور ہر لمحہ اﷲ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمام مؤمنین اور مؤمنات کے لئے دعاء ‘‘ مانگتے رہنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی فریاد سننے سے کبھی نہیں اکتاتے، لیکن احادیث مبارکہ میں چند خاص اوقات اور چندمخصوص حالات ایسے بھی بتلائے گئے ہیں کہ جن میں خصوصیت کے ساتھ بہت جلد ’’دعاء‘‘ قبول ہوتی ہے(ان کی تفصیل آگے آرہی ہے) اس لئے ان خاص اوقات اور مخصوص حالات میں اﷲ تعالیٰ سے ’’دعاء‘‘ مانگنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے ۔ اوروہ خاص اوقات اور مخصوص حالات یہ ہیں : (۱) رات کے پچھلے پہر ( یعنی اخیر حصہ میں )۔ (۲) شب قدر میں ۔ (۳) نو (۹) ذی الحجہ کے دن میدانِ عرفات میں۔ (۴) جمعہ کے دن کی مخصوص گھڑی (جو خطبہ جمعہ کے شروع ہونے سے لے کر نمازِ جمعہ کے ختم ہونے تک یا نمازِ عصر کے بعد سے لے کر نمازِ مغرب تک ہوتی ہے) میں۔(۵) اذان کے وقت ۔ (۶) میدانِ جہاد میں جب مجاہدین کی صف بندی کی جارہی ہو۔ (۷) اذان اور اقامت کے درمیانی وقفہ میں۔ (۸) تمام رمضان المبارک میں عموماً اور افطاری کے وقت خصوصاً ۔ (۹) تمام فرض نمازوں کے بعد ۔ (۱۰) سجدے کی حالت میں۔ (۱۱) شدید رنج و غم اور مصیبت کے وقت۔ (۱۲) ذکر و فکر کی دینی مجالس میں ۔ (۱۳) قرآن مجید کے ختم کے وقت ۔

حضرت حسن بصریؒ جب مکہ مکرمہ سے بصرہ جانے لگے تو آپؒ نے مکہ مکرمہ والوں کے نام ایک خط لکھا جس میں مکہ مکرمہ میں قیام کرنے کی اہمیت اور فضائل بیان کئے اور یہ بھی واضح کیا کہ مکہ مکرمہ میں ان مندرجہ ذیل مقامات پر خصوصیت کے ساتھ ’’دعاء‘‘ قبول ہوتی ہے: (۱) ملتزم کے پاس ۔ (۲) میزاب رحمت کے نیچے ۔ (۳) خانہ کعبہ کے اندر ۔ (۴) زم زم کے کنویں کے پاس ۔ (۵) صفا مروہ پر ۔ (۶) صفا مروہ کے پاس جہاں سعی کی جاتی ہے ۔ (۷) مقام ابراہیم کے پیچھے ۔ (۸) میدانِ عرفات میں ۔ (۹) مزدلفہ میں ۔ (۱۰) منیٰ میں ۔ (۱۱) جمرات کے پاس۔(حصن حصین)
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 255677 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.