اب سے کوئی 80 برس قبل تک پورے فلسطین میں
کسی ایک جگہ بھی کوئی یہودی بستی موجود نہیں تھی۔عثمانی خلفاء نے پابندی
لگا رکھی تھی کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہنے والے یہودی اپنے مقدس مقامات
کی زیارت کے لیے وزٹ ویزے پر فلسطین آسکتے ہیں اور چند روز قیام کرسکتے ہیں
لیکن انہیں فلسطین میں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
عثمانی خلفاء کے علم میں یہ بات تھی کہ یہودی فلسطین میں بتدریج آباد ہونے
اور اس پر قبضہ جمانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاکہ وہ اسرائیل کے نام سے
اپنی ریاست قائم کر سکیں۔ اس لیے اس سلسلہ میں عثمانی خلافت کا رویہ بے لچک
تھا اور وہ کسی قیمت پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم
کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ چنانچہ سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے اپنی یاد
داشتوں میں لکھا ہے کہ یہودی کی عالمی تنظیم کے سربراہ ہر تزل نے متعدد بار
ان سے خود ملاقات کر کے خواہش ظاہر کی کہ وہ فلسطین میں زمین خرید کر محدود
تعداد میں یہودیوں کو آباد کرنا چاہتے ہیں مگر سلطان مرحوم نے اس کی اجازت
دینے سے انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ ایک بار ہرتزل نے سلطان عبدالحمید ثانی
مرحوم کے سامنے چیک بک رکھ کر منہ مانگی رقم دینے کی پیشکش کی جس کے جواب
میں سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے انتہائی تلخ لہجے میں ہرتزل کو ڈانٹ دیا
اور اس سے کہا کہ میری زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا اور اس کے بعد وہ ہرتزل
سے ملاقات کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے ۔<br /><br />سلطان عبدالحمید ثانی
مرحوم کے خلاف اس کے بعد تحریک چلی اور انہیں خلافت سے معزول کر کے نظر بند
کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ان کے خلاف ترکی میں
چلنے والی تحریک اور ان کی معزولی میں یہودیوں کا ہاتھ تھا اور انہیں خلافت
سے معزولی کا پروانہ پہنچانے والوں میں ترکی کی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر بھی
شامل تھا۔ 1920ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد فلسطین اس کی عملداری
سے نکلا تو اسے برطانیہ نے اپنے کنٹرول میں لے لیا اور برطانوی گورنر کی
زیر نگرانی یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دنیا کے
مختلف حصوں سے یہودی آتے اور فلسطین میں زمین خرید کر آباد ہو جاتے۔ اس
موقع پر سرکردہ علماء کرام نے صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے کردار
ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ فتویٰ دیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو
کر بیت المقدس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اپنی ریاست قائم کرنے کے
خواہشمند ہیں اس لیے یہودیوں پر فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں
ہے اور فلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اراضی یہودیوں کو فروخت نہ کریں۔ اس
فتویٰ کے سلسلہ میں اگر قارئین مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہوں تو حکیم
الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب’’بوادر النوادر‘‘میں اسی موضوع
پر خود ان کا تفصیلی فتویٰ موجود ہے اسے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر علماء
کرام کی یہ مہم کارگر نہ ہوئی اور چونکہ یہودی دگنی تگنی قیمتوں پر زمین
خرید رہے تھے اس لیے فلسطینیوں نے رقم کی لالچ میں علماء کرام کے فتویٰ کو
نظر انداز کر دیا جس کا نتیجہ آج پون صدی کے بعد سب کے سامنے ہے کہ فلسطین
کے بیشتر علاقوں پر یہودی قابض ہیں۔ اسرائیلی ریاست نہ صرف قائم ہوچکی ہے
بلکہ پوری عرب دنیا کے لیے ناسور کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے، بیت المقدس
پر یہودی اقتدار قائم ہو گیا ہے، فلسطینی خود اپنے ملک میں بے وطن تصور کیے
جارہے ہیں جبکہ یہودیوں اور ان کے عالمی استعماری سر پرستوں نے پوری
دنیامیں ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ |