سی پیک کی سر زمین میرا پیارہ بلوچستان اور اس کے رسم رواج

بلوچستان صرف دو لفظوں پر مشتمل ہے یعنی" بلوچ " ستان "جس کے لفظی معنی بلوچوں کے رہنے کی جگہ ہے ۔ بلوچ بلوچستان کے دھرتی کے قدیم ترین باسی ہیں تاریخ دان ہمیشہ بلوچ لفظ کے الگ الگ معنی لکھتے تھے کچھ نےتو بلوچوں کو ترکمانی کہا کچھ نے عربی کہا اور کچھ نے ترکی کا مجموعہ کہا حتی کہ سکندر اعظم کی سیکڑوں فوجی بھی بلوچ اقوام سے تعلق کاذکر بھی ہزاروں کتابوں میں درج ہے بلوچستان ریگستان اور پہاڑوں میں بٹا ہوا ہے بلوچستان سر زمین کب آباد ہوئی کب بلوچ لوگ یہاں آباد ہوئے یہ کوئی نہیں جانتا ہے اور نہ ہی کتابیں یہ بتا سکتی ہیں کہ بلوچ کون ہے؟ اور کہاں سے آئیں ہیں ؟حتاکہ ملک کے ہزاروں رائیٹرز کالم نگاروں تجزیہ کاروں نے سی پیک کی وجہ سے خوب تحقیق کی کہ آخر یہ بلوچ کون ہے کہاں سے آئے جب یہ لوگ کسی نتیجے پہ نہ پہنچ سکے تو پرانے تجزیئے دوبارہ دہرائے گئے اور بار بار دہرائے گئے اگر کچھ بدلا گیا تو صرف انداز بیان بدلا گیا حتاکہ بلوچوں کی آپس کی لڑائی بھی سیکڑوں سالوں تک چلتی رہتی تھی اسی وجہ سے بلوچوں کی نقل مکانی بھی عام بات ہیں حتاکہ بلوچوں نے پاکستان کے مختلف کونوں میں اپنے اپنے گھر بسائے ہیں ۔ بلوچستان کی سر زمین جس طرح نیا بھر میں سی پیک کی وجہ سے مشہور ہے اسی طرح بلوچوں کے ثقافت بھی دنیا کے لیئے منفرد ثقافت ہونگے جب سی پیک مکمل ہو گا تب لاکھوں لوگ دنیا کے بلوچوں کے ثقافت دیکھنے بلوچستان کا رخ کریں گے بلوچوں کے ثقافت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ اپنی روایات کے ساتھ اصولوں پہ سیکڑوں سال جڑے رہتے ہیں اس دھرتی پہ وعدہ کرنا اس کو نبھانہ سب سے بڑا اصول ہوتا ہے حتاکہ وعدہ فراموش کو کبھی بھی معاف نہیں کیا جاتا ہے اور یہاں کے رسم و رواج بھی پیچیدہ نہیں بلکہ دلچسپ ہیں یہاں پر مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی نہیں گزاری جاتی ہے بلکہ بیٹے کی شادی کے ساتھ اسے نیا گھر بھی دیا جاتا ہے تاکہ اپنا کھائیں اپنا کمائیں اور اپنے گھر بیوی کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کریں حتاکہ شادی کے دوران کچھ علاقوں میں ایک ٹینٹ کا گھر بنا کر دیا جاتا اور اس میں شادی کی رات دولہن اور دولہا کو چھوڑ دیا جاتا ہے اس ٹینٹ میں وہ دونوں پوری رات گزارتے ہے بغیر ڈر کے گزارنا پڑتا ہے اگر ڈر گئے تو ان کی پوری زندگی بھی خوف سے گزرتی ہے شادی بیاہ پر دولہا سفید قمیض شلوار پہنتا ہیں جبکہ دلہن روایتی سرخ قمیض اور شلوار پہنتی ہیں دولہے کو ایک دوپٹے کے سائےتلے نہایا جاتا ہے اور اس دوپٹے کے چاروں کونوں میں خنجر سے اس دوپٹے کو پکڑا جاتا ہے تاکہ پوری زندگی ان کی خنجروں کے سائے میں گزرے کچھ لمحے بعد پھر دولہے کا چاچا یا ماموں اس کو کندھے پہ اٹھا کے نئے چار پائی پہ بٹھایا جاتا ہے جہاں پہ ان کو پیسوں کی (کنڈھیاں) ہار پہنائی جاتی ہےاور کچھ پیسے بھی ہوا میں اچھالے جاتے ہیں جنہیں صرف بچہ پارٹی اٹھانے میں مصروف ہوتا ہے اسی طرح ایک اور رسم بھی ہے پہلے دولہا والے اور پھر دولہن والے تولیے سے لے کر جوتے تک ایک ایک چیز کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں بلکہ جہیز دیکھاواں بھی ہوتا ہے حتاکہ یہ رسمیں کم اور نمائش زیادہ ہوتی ہیں جس میں دولہن اور دولہا کے کپڑے جوتے میک اپ کا سامان اور کھانے پینے کے برتن سے لیکر سب کچھ جو جہیز میں دولہا اور دولہن کو دیئے جاتے وہ عوام اور کے سامنے سب کو دیکھایا جاتا ہے اور نمائش کی جاتی ہے کہ دیکھو ہم نے کتنا جہیز لڑکے اور لڑکی کو دیا گیا ہے بلوچوں کے مشہور رقص دو تالی ہیں جبکہ عورتیں اپنا الگ سے رقص کرتی ہے وہ رقص روایتی ہوتی ہے بیچ میں فقیر ڈھول بجاتا ہے اور لڑکیاں چاروں طرف ایک سرکل میں جوش و جزبے سے رقص کرتی ہے اس میں موسیقی ڈھول کی تھاپ پر ترتیب دی جاتی ہے شادی بیاہ، منگنی کی رسموں پر گھر کی ہر عمر کی خاتون اور بچیاں اور بڑے مل کر دو تالی رقص کو خوب انجوائے کرتے ہیں اس دوران خوب بلوچی گانے بھی گائے جاتے ہیں جو جوش کو ابھارتے ہیں یہ رقص دو سے تین گھنٹوں تک جاری رہتا ہے پہلے بچے پھر نوجوان پھر بڈھے اس رقص کو انجوائے کرتے ہے اسی طرح لباس کے معاملے میں خواتین کا لباس قمیض شلوار.... یا کرتا اور خوبصورت دیدہ زیب کڑھائی والی پائی جاتی ہیں جبکہ مرد بھی شلوار قمیض پہنتے ہے۔ بلوچستان میں روایتی کھانے دنیا بھر میں مشہور ہے بیس سے تیس دیگیں پکائی جاتی ہیں جو مہمانوں کیلئے خصوصی کھانے بھی پکائے جاتے ہیں جن میں بریانی بکرے کے گوشت کا سالن بڑے گوشت کا سالن ساتھ سجی اور چاول کی دو تین مختلف قسمیں پکائی جاتے ہیں جبکہ کچھ اور بھی اقسام کے سالن لوگوں کو پیش کیئے جاتے ہے کھانہ کھانے کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں جبکہ نکاح کے بعد دولہا دولہن کو ایک ٹینٹ میں چھوڑا جاتا وہ لوگ پوری رات آرام سے گزارتے ہیں اگلے روز اس شادی کی سب رسمیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک شادی کی تیاری کی جاتی اب کون سا بکراں حلال ہو گا اور کون سی بکری کی اگلی باری ہوگی سب لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے اور دل ہی دل میں کہتے ہے کہ جس طرح سی پیک ہر وقت مسلئہ کی ذد میں اسی طرح ہماری شادی کی باری بھی کسی نہ کسی مسلئے کی ذد میں تاکہ ہم اپنی تعلیم مکمل کر سکے کم عمری کی شادی کا خاتمہ ہو جائے اس دھرتی پہ سونے کی چڑیاں تو موجود ہے مگر اس چڑیاں کو کون لے کے جائے گا۔
Karmal Jamali
About the Author: Karmal Jamali Read More Articles by Karmal Jamali: 2 Articles with 1662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.