ویلنٹائن ڈے اور اسلام!!

ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟اور یہ کس طرح سے رواج پایا؟ یہ کس کا تہوار ہے؟ اس کے بارے میں کوئی مستند اور حتمی رائے موجود نہیں ہیں۔۔۔۔کچھ واقعات ہیں جو اس واقعہ کے ساتھ منسوب کیے جاتے ہیں۔۔۔ذیل میں ان واقعات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا کہ ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟انساٰئیکلوپیڈیا آف بریٹینیکا کے مطابق:اسے عاشقوں کے تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔انسائیکلوپیڈیا بک آف نالج کے مطابق وینٹائن ڈے جو (چودہ فروری)کو منایا جاتا ہے محبوبوں کے لیے خاص دن ہے ۔بک آف نالج اس واقعہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔’’ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا۔

اب آتے اسلام کی طرف کیا اسلام میں اس تہوار کی گونجائش ہے ؟ یا سخت ممانیت، تہوار اور میلے ہر قوم کی اپنی مذہبی و ثقافتی اقدارو نظریات کے ترجمان ہوتے ہیں اور اسلام چونکہ ایک الگ مستقل الہامی دین ہے اس لیے اس کی اپنی روایات واقدار ہیں جن کی نمائندگی کے لئے خود حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی اُمت کے لئے دو تہوار (یعنی عیدالاضحی و عیدالفطر) مقرر کردیے ہیں اور ان تہواروں پر خوشی، تفریح اور اظہارِ جذبات کی حدود بھی عملی طور پر طے کردی ہیں جب کہ اس سے پہلے دورِ جاہلیت میں مروّج دیگر تہواروں اور میلوں پر یکسر خط ِتنسیخ پھیر دیا۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔نبی اخیر الزمہٰ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے انسانیت کو جن اعتقادی، معاشرتی اور عملی بے راہ رویوں سے روکا یقیناً وہ نقصان دہ تھیں اس لیے منع کیا اور صراط مستقیم کے جن معتدل خطوط پر چلنے کا حکم دیا وہ یقیناً انفرادی و اجتماعی، قومی و ملی طور پر سراپا خیر ہیں اس لیے حکم دیا۔ ورنہ منع کرنے اور حکم دینے کا کوئی راز سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا۔اسلامی اعتقادات و معاملات، طور طریقوں اور اصولوں پر جمے رہو اور غیر مسلم اقوام کے معتقدات، رسوم و رواج اور اختراعات و خرافات سے مکمل بچو ورنہ یہ چیزیں تمہیں اپنے رب سے دور کر دیں گی۔قرآن و سنت اور اسلاف کے زریں اقوال کی بے شمار شہادتیں اس بات پر موجود ہیں کہ ساری انسانیت کے لیے صرف دین اسلام ہی مکمل ضابطہ حیات اور ذریعہ نجات ہے۔ اسلام ہی کامل و مکمل، جامع اور ناقابل تبدیل دستور العمل ہونے کی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ دنیا و آخرت، زندگی موت اور فوز و فلاح کے تمام شعبے اس کے وسیع دائرے میں سمٹے ہوئے ہیں۔ اسی لیے تو لوح محفوظ سے روح القدس کے دوش پر اُدْخُلُوْا فی السلم کافۃ کا فرمان قلب محمد تک پہنچایا گیا اور پھر لسان محمد سے سارے عالم کو اس نہج پر آ کر ابدی کامیابی کی نوید دی گئی۔اسلام نے آ کراقوام عالم میں ہماری مستقل الگ شناخت پیدا کی اور ہمیں اس پر قائم رہنے کا حکم دیا، جب تک ہم اپنی شناخت کی حفاظت کریں گے ہمارا وجود باقی رہے گا ورنہ اہل تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جو قومیں اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہیں وہ اپنے وجود اور بقاء سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ اس لیے ہمارا ہر قول و فعل شریعت اسلامیہ کی پاکیزگی سے مہکتا ہوا ہونا چاہیے نہ کہ غیر اسلامی رسوم و رواج کی گندگی میں لتھڑا ہوا ہو۔حضرت انسان کا سب سے قدیم، شاطر، چالاک، عیار اور خطرناک دشمن شیطان ہے۔ وہ اس کو ہر اس کام پر ابھارتا ہے بلکہ مزین کر کے پیش کرتا ہے جو عقلی و حسی اور شرعی طور پر برا اور فحش ہو۔ جس پر قرآن کریم انما یامرکم بالسوء والفحشاء کے الفاظ سے شہادت دے رہا ہے۔ ان بے شمار کاموں میں سے ایک غیر اسلامی،غیرشرعی، غیر فطری اور غیر اخلاقی محبت کا اظہار بھی ہے۔ جسے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو اخلاق باختگی اور بے ہودگی کی انتہاء پر پہنچ کر ہی منایا جاتا ہے۔سرخ لباس زیب تن کیے، ایک دوسرے کو پھول دیتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ مردو عورت کا یہ بے حجابانہ ملاپ جہاں عورت کے ماتھے سے حیاء کا زیور لوٹ کر ذلت کا داغ لگا تا ہے وہاں پر مرد کے سر سے انسانیت کا تاج اتار کر اسے شرم سے جھکا دیتا ہے اور دونوں کو انسانوں کی وادی سے نکال کر درندگی کے جنگل میں چھوڑ دیتا ہے۔

گزشتہ ادوار میں ہر سال 14 فروری کو جنسیت زدہ غیر مسلم اقوام ناجائز خواہشات کی تسکین و تکمیل کے لیے اسے منانے کا اہتمام کرتے تھے۔ پھر اس کو فروغ دینے کے لیے اس دن سے وابستہ کئی دیو مالائی داستانیں بھی اس سے منسوب کر دیں اور تاریخ کے اوراق کو اپنے من کی سیاہی سے سیاہ کر کے رکھ دیا۔ قطع نظر اس سے کہ ان داستانوں میں کہاں تک واقعیت کو دخل ہے؟ ہم اس غیر ضروری بحث میں الجھے بغیر اس کے چند معاشرتی و شرعی مفاسد پر نگاہ ڈالتے ہیں:سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ یہ سراسر غیر اسلامی فعل ہے جس سے اﷲ اور اس کا رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہم سے ناراض ہوتے ہیں۔ ہماری تباہی و بربادی اور تنزلی کا اصل سبب خدا و ر رسول کی ناراضگی ہے۔اس کے بعد یہ سنجیدگی، متانت، عزت و وقار اور حیاء کے سراسر منافی کام ہے۔اس دن کئی عفت مآب بہنوں کی عزت کے آنچل تار تار ہوتے ہیں۔ کئی خاندانوں میں دشمنیاں جنم لیتی ہیں نوبت قتل و قتال تک جا پہنچتی ہے۔دسیوں، بیسیوں نہیں سینکڑوں ایسے واقعات و سانحات ہیں کہ اس دن عزت و شرافت کے جنازے نکلتے ہیں اور غیور وباشعور خاندانوں میں ماتم کی صفیں بچھ جاتی ہیں۔

جنسیت کے بُت کو ’’اظہارِ محبت‘‘ کا لبادہ اوڑھا کر پوجا جاتا ہے۔یوم محبت کے دلکش اور دلربا عنوان سے شیطانی عمل کو فروغ دیا جاتا ہے۔

غیر مسلم اقوام کے مخصوص و متعین تہوار کومنا کر ان سے مشابہت کا وبال اپنے سر لیا جاتا ہے اورفرمان مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم من تشبہ بقوم فھو منہمکہ جو کوئی بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا دن قیامت اس کا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا۔ اور ایک بات یہ بھی ہے کیا آج تک کسی بھی عیسٰی ،یہودی یا کسی اور غیر مسلم نے نماز پڑھی ہے چلو عید میں پڑھی ہو ،بلکول نہیں ،توپر ہم ہی کیوں ان کے ریواج اور تہوار بنانے میں مصروف عمل ہیں ۔
اﷲ ہم کو سمجھ نے کی توفیق نصیب کریں ( آمین )
Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 84684 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.